بقرعید تو ختم ہو جائے گا لیکن جذبۂ قربانی سال بھر باقی رہے گا درجولیہ میں نماز عید الاضحٰی سے قبل مولانا عمرفاروق قاسمی کا خطاب

مدہوبنی : ( ملت ٹائمز؍نمائندہ ) بقرعید دراصل ایک ماں، بیٹے اور پاپ کی ان بےمثال قربانیوں کے علامتی اظہار کا نام ہے جو ان نفوس قدسیہ نے تادم حیات بارگاہ خداوندی میں پیش کیا تھا، جس کی نظیر دنیا آج تک نہیں پیش کر سکی. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام مکمل طور پر حکم خداوندی کے سامنے خود کو سرنگوں کردینے کا نام ہے چاہے حکم خداوندی کے سامنے باپ کی عزت و احترام حائل ہو یا بیٹے کی محبت، بیوی کا عشق یا عقل کی دیوار راہ میں آجائے پھر بھی حکم خداوندی کو ماننا ہی ایک مسلمان کی شان ہے، اس قسم کا اظہار مولانا عمرفاروق قاسمی نے درجولیہ میں نماز عید الاضحٰی سے قبل اپنے خطاب میں کیا انہوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم نے باپ سے بغاوت کی، نمرود کی حاکمیت کو برملا چیلنج کیا، بیوی کی رفاقت اور ننھے بچے کی محبت کو بالائے طاق رکھ کر بے آب و گیا سرزمین میں چھوڑ آئے، اور ضرورت پڑی تو نوے سال کی عمر میں ملے ہوئے فرزند ارجمند کو بھی چھری کی دھار پر رکھ دیا لیکن حکم خداوندی سے سرتابی نہیں کی، حضرت ابراہیم کی زندگی ہمارے لئے یہ پیغام لاتی ہے کہ ،زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں بھی فدا کاری و جاں نثاری کا عملی جامہ پہن کر تیار رہنا چاہیے کہ نہ جانے کس وقت شریعت کا مطالبہ ہم سے قربانی کا ہوجائے، یہ جذبہ تین دنوں تک علامتی قربانی یعنی جانوروں کے ذبح کے ساتھ دفن نہ ہوجائے بلکہ پورے سال یہ جذبہ باقی رہے، انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا فجر کی آذان ہر روز نیند کو قربان کرنے کا ہم سے مطالبہ کرے گی، مریض کے ایمبولینس کی گاڑی ہم سے یہ کہے گی کہ سڑک پر کنارے کھڑے ہوکر کچھ وقت کو ہم قربان کر دیں تاکہ کسی کی جان بچ جائے جب ہمارا نفس کسی کے مالوں کو ہم سے ہڑپنے کا مطالبہ کرے گا تو ہم سے ہماری شریعت کا نفس کو کچلنے کا تقاضا ہوگا یہی قربانی کا اصل پیغام ہے، ورنہ تو اللہ کے یہاں نہ تو ہمارے جانوروں کا خون پہنچتا اور نہ ہی اس کا گوشت۔