ہم بھی کیا یاد رکھیں گے کہ خدا رکھتے تھے

ڈاکٹر زین شمسی
سات آٹھ دن میں پانچ چھ واقعات سامنے آئے تو تین چار باتیں ذہن میں آئیں ہیں جسے ایک دو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے مگر آپ نو دس منٹ دیں تو کچھ کہنے کی جرات کروں۔
غریب روہنگیا مسلمانوں پر امن ایوارڈ یافتہ سو کی حکومت کے خوفناک مظالم پر امیر ممالک کے مسلم سربراہوں کی مصلحت پسندانہ خاموشی کے خلاف سوشل میڈیا کا شور شرابہ لائق تحسین ہے۔ اردگان کی تعریف ہو رہی ہے تو عرب اور ایران کی سرزنش حتی کہ میانمار کے تعلق سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مسلم اتحادی ممالک کو چاہئے کہ وہ برما پر اٹیک کرے تاکہ ایک پیغام دنیا کے سامنے پیش ہو سکے کہ برادران امّت پر ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا، ظاہر ہے ایسی مثبت اور جارح سوچ اس لئے بنی کہ برما ایک کمزور ملک ہے اور اپنے سب سے کمزور شہریوں کے خلاف بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اچھی بات یہ کہ کم سے کم اب یہ سوچ بننے لگی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ ہو تو دنیا کے مسلم ممالک کو ایک ساتھ آنا چاہیے، جیسے عیسایوں یا یہودیوں کے معاملے میں ان کے ممالک کرتے ہیں۔ میانمار کے حق میں اٹھی آواز کو ماضی سے سبق اور مستقبل کا اشارہ مانا جا سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غریب روہنگیا پر یہ وقت ہی نہیں آتا اگر امیر عراق اور جنگجو افغانستان کو دنیا کے پچپن مسلم ممالک کے سربراہان بچا لے جاتے، مگر بے بس صدام کو بچانا تو دور اسے مارنے والوں کے صف میں عرب اور ایران کھڈے نظر آئے اسامہ تو وہاں مارا گیا جہاں ایٹم بم رکھا ہوا ہے۔ عرب اور ایران چاہتے تو فلسطین کی آزادی بھی طے تھی مگر پھر وہی مگر ..،۔
یہ اظہر من الشمس ہے کہ یہودیوں اور عیسایوں کے خلاف جو آواز اٹھےگی وہ دبا دی جائے گی اور اب اسی بہتی گنگا میں بدھسٹ بھی اپنا ہاتھ دھو رہے ہیں، جوبولے گا مارا جائےگا۔
لنکیش بھی بولتی تھی ماری گیی، دابھولکر، پنسارے، کلبرگی کے بعد گوری لنکیش بھیڑیوں کی چوتھی شکار ہے۔ فہرست میں ہر وہ آدمی ہے جو بولتا ہے۔ کرناٹک کے ایک سینر بی جے پی لیڈر نے واضح طور پر کہا ہے کہ آگر وہ بی جے پی کے خلاف نہیں لکھتی تو زندہ ہوتی، سد ارمیا نے ان سے پوچھا ہے کہ اس بیان کا کیا مطلب نکالا جائے، مطلب صاف ہے کہ وہی بولو جو بولنے کو کہا جائے ورنہ …. ظلم یہ کہ مرنے والی کتیا اور رنڈی بھی ہو جائے گی، اور موت کے جشن میں یہ بھی کہا جائےگا کہ کاش لنکیش کی جگہ رویش ہوتا تو مزہ دوبالا ہو جاتا، گویا ہٹ لسٹ اوٹ کی جا رہی ہے۔ اور عنان حکومت نفع نقصان کا جایزہ لینے میں مصروف ہے کہ بیان کیا دیا جائے کہ کتیا کہنے والے شخص کے بھکت تو خود پردھان سیوک ہی ہیں .پھر کون ہمّت کرے یہ کہنے کی کہ جو ہوا وہ غلط ہوا۔
غلط تو بہت ہوا ہے …..
وہ کہتے ہیں گودھرا نہیں ہوتا تو گجرات نہیں ہوتا، تو یہ بھی ماں ہی لو کہ ممبئی فساد نہیں ہوتا تو ممبئی بلاسٹ نہیں ہوتا۔ انصاف تو یہ ہونا چاہیے کہ گودھرا کے نام نہاد ملزمین جس طرح دھڑا دھر جیل میں ٹھونسے گئے ، گجرات کے ملزمین بھی آزاد نہیں گھومتے، ممبئی کے فسادیوں کا اب تک پتا نہیں اور فساد کے ردعمل میں ہونے والے بلاسٹ کے ملزمین کو دھڑا دھر پھانسی، پھانسی صرف مسلمانوں کے لئے ہی کیوں یور آنر ؟
خلاصہ کلام یہ کہ ہنود ، یہود اور نصرانیوں کے شکنجے سے مسلمانوں کو دو ہی چیز بچا سکتی ہے، اور دونوں مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔
ایٹم بم اور اعتماد باہم