… تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

Naushad Alam محمد نوشاد عالم ندوی

بی جے پی2014ء میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں چونکادینے والی اکثریت کے ساتھ جیت کر آئی تو کہیں خوشی اتنی تھی کہ آنکھوں سے خوشی کےآنسو ٹپک رہے تھے اور کہیں غم اتنا کہ آنسوجیسے خشک ہوگئے تھے۔ اس وقت ملک کی تقسیم اور آر پار کی جنگ کی سیاست اپنے عروج پر ہے۔ کل تک جو احاطہ (عدالت) مکمل طور پر محفوظ سمجھا جاتا تھا، اورعوام انصاف کے لیے جاتے تھے آج اس احاطہ میں بھی لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات پر اپوزیشن کے کڑے تیور کو دیکھ کر حکومت بھی آر پار کی جنگ کے لیے پوری طرح مستعد نظر آرہی ہے۔ برسر اقتدار پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کے تیور، ان کے ہمنوائوں کے سر، اور ان کے فعال کارکنان کے انداز اس کی طرف دال ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھگوا لوگ اپنے علاوہ سب کو غلط سمجھنے لگے ہیںاور حب الوطنی کا سر ٹیفکیٹ ایسے لوگ تقسیم کر نے لگے ہیں جن کا ملک کی آزادی میں کوئی رول ہی نہیں تھا بلکہ انگریزوں سے ساز باز کا الزام بھی ایسے ہی لوگوں پر لگا۔ خیر، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں جس طرح کا ناخوشگوار ماحول ہے اور عوام میں جو اضطرابی کیفیت ہے اس کو بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔

 بی جے پی شاید یہ بھول گئی کہ یہ اضطرابی کیفیت اور یہ کشیدگی ملک کے لیے تومضر ہے ہی، خود ان کے لیے بھی قبر ثابت ہوگی۔ کیونکہ آج کل جتنے بھی ناخوشگوار واقعات رونما ہورہے ہیں یہ سب بی جے پی ہمنواتنظیموں کے پروردہ یا یوں کہیے کہ پارٹی کے سرکردہ لیڈران کے اشاروں پر ہی ہور ہے ہیں، جو ان کے لیے ضرور بالضرور قبر ثابت ہوگی۔ ’’جہاں بجتی ہے شہنائی وہیں ماتم بھی ہوتا ہے‘‘ اس کو بی جے پی بھول گئی، لیکن وہ مظلوم جن کو طرح طرح کے الزامات میں پھنسائے جارہے ہیں۔ بے بنیاد الزامات ان پر لگائے جارہے ہیںوہ نہیں بھولے ہیں اور نہ وہ بھول سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ اس شور شرابے کی وجہ سے شرپسند عناصر کے حوصلے تو بلند ہورہے ہیں ، قانون داں ہی قانون اپنے ہاتھ میں لے کر بہادری کا ثبوت دے رہے ہیں، اس سے پارٹی کو وقتی طور پر فائدہ پہنچ جائے، لیکن بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ یہ بہادراس کی سیاسی مقبولیت میں چار چاند لگائے گا تو یہ ان کی بھول ہی نہیں بلکہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ کسی بھی پارٹی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے جوعوام اپنی نہیں بلکہ ملک کی ترقی کے لیے ملک کی سالمیت کے لیے اور ملک میں امن وامان کی بحالی کے لیے ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچاتی ہے وہی اس کو بے دخل بھی کرسکتی ہے۔ جیسے اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی ہے ویسے ہی عوام کی طاقت (حق رائے دہی) میں بھی آواز نہیں ہوتی ہے۔ اس وقت عالمی سیاست میں چھایا ہوا واقعہ جس کو ہم جے این یو کے طالب علم کی گرفتاری کے واقعے کے نام سے جانتے ہیں کو ہی دیکھیں ، یا پھر ہریانہ میں جاٹ ریزرویشن تحریک کے نام پر ہوئے نقصانات اور تباہی کو ہی دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آر ایس ایس اور اس کے ہمنوا تنظیموں کے کارکنان نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی اور کررہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں پولیس موجود تھی، پھربھی شرپسند وکیلوں نے جو کیا اس کو ملک کے لیے ایک بدنما داغ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ہم نہیں کہتے ہیں کہ جے این یو میں جو ہنگامہ ہوا وہ غلط ہےیا صحیح؟ ہریانہ میں جاٹوں نے اپنے مطالبات کے لیے جو کیا وہ درست ہے یا نہیں؟ یہ آپ جانیں اور آپ کا کام۔ لیکن آپ جو کررہے ہیں ، جس طرح حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ افسوسناک ہے، ملک کی شناخت ’کثرت میں وحدت‘ کی شبیہ پر بدنما داغ ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے کچھ ممبران پارلیمنٹ جس طرح سے کھلے عام گولی مارنے کی اور سولی پر چڑھانے کی بات کررہے ہیں ان کے خلاف حکومت کیا قدم اٹھارہی ہے؟یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے پہلے عدم برداشت کو لے کر جو بھی ہوا اس سے آپ واقف ہوں گے، یعنی جب بڑے بڑے مفکرین نے ملک کے تئیں اندیشے ظاہر کیے تو اس وقت بھی بلاتفریق مذہب و ملت انعام یافتگان نے اپنے اپنے انعامات واپس کیے۔بیف رکھنے کے الزام میں اخلاق کو موت کے گھات اتار دیاگیا تب بھی حکومت کارویہ افسوسناک رہا۔ پھر روہت کی خودکشی پر بھی حکومت نے جو کیا وہ سب کو معلوم ہے۔ اس کے بعد جے این یو طالب علم لیڈر کنہیا کمار کی گرفتاری ، پولیس کی کارکردگی، اور پھر کورٹ کے اندر مارپیٹ اور وکیلوں کا ہنگامہ ، اساتذہ کی پٹائی یعنی اس پورے واقعہ میں جو کچھ بھی ہوا سب آنکھوں کے سامنے ہے۔ یعنی کل ملا کر اس وقت ملک کے جو حالات ہیں وہ انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ سیکولرزم کے نظریے کی حفاظت کی خاطر بہت سارے لوگ عملی طور پر میدان میں آرہے ہیں اور اس موضوع پر تحریریں لکھ لکھ کر اخبارات کے ذریعہ اور بیانات دے دے کر ٹی وی چینلوں کے ذریعہ اپنی بات حکومت تک پہنچا رہے ہیں۔ ملک کی گنگاجمنی تہذیب کے لیے اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ملک کی سیکولر پارٹیاں اپنے ماضی کے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر، یا پھر یہ کہتے ہوئے کہ ’’ماضی کے تصور سے پریشاں ہوں میں، گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے‘‘ایک بار پھر ہاتھ ملانے کو تیار ہے۔

خیر! کون نہیں کہتا ہےکہ فرقہ پرست عناصر کو، قصورواروں کو سخت سے سخت سزا ہو، مگر اس کی اجازت کوئی نہیں دیتا ہے کہ مجرم گرفت سے باہر ہو اور بے قصوروں کو سلاخوں کے اندر رکھا جائے۔ اس وقت جے این یو ایک سیاسی مسئلہ ہی نہیں بلکہ سیاسی اکھاڑہ بن چکا ہے۔ اپوزیشن بہار جیسا مہاگٹھ بندھن بناکر ملک کی سیاست میں اپنی کھوئی ہوئی جگہ تلاش کرنے کے فراق میں ہے۔ وہ سنگھ اور آرایس ایس سے ناراض برہمن اور اونچی ذات کے لوگوں سمیت دیگر پسماندہ طبقے، دلت اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر سیاست میں ایک نیا باب قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہاں پر سب سے بڑا چیلنج مودی کے لیے ہے، کیونکہ وہ اپنے ہمنوائوں کی بیان بازیوں سے اوپر اٹھ کر کیسے اپنے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ حالانکہ وزیراعظم مودی گوڈسے کی حمایت میں کھڑی ساکشی مہاراج جیسے زہر اگلنے والے لیڈران کا کلاس لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی اقتدار میں رہ کر گاندھی کی اہمیت اور حیثیت دونوں کو نظر میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گاندھی ، گاندھی گاندھی کی صدائیں ملک و بیرون میں بلند کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ وہی جماعت ہے جنہوں نے گاندھی کے قتل پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔یہ بھی سچ ہے کہ مودی نے سنگھ کو گوڈسے پر اپنا موقف تبدیل کرنے کے پابند کیا، یہ سب مودی کی سمجھداری سے ہی تعبیر کیے جاسکتے ہیں، لیکن …مودی حکومت کے دن اب شاید خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ ملک کے حالات اس وقت خراب ہی نہیں بلکہ بہت ہی نازک ہیں۔ یہاں میں ایک بات ذکر کرتا چلوں، کیونکہ اس وقت سیاست کے گلیاروں میں جے این یو کا مسئلہ زور و شور سے چل ہی رہا تھا کہ اچانک پھر ہریانہ میں تحریک کے نام پر تشدد اور یکطرفہ کارروائی کا کھیل بھی دیکھنے کو ملا۔ہریانہ کی تباہی تو یاد ہی ہوگا، تحریک کے نام پر جو کچھ ہوا وہ تو ذہن میں ہوگا ہی، کیا یہ تحریک تھی، حملہ تھا یا پھر منصوبہ بند سازش تھی؟ یہ فیصلہ خود آپ کریں !البتہ یہ ذکر یہاں ضروری ہے کہ 9؍دن تک چلنے والی تحریک میں 9؍افراد کی موت ہوئی اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ شمالی ریلوے کو 200؍کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا، ایک اندازے کے مطابق ۱۰؍لاکھ مسافروں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، اور اسی طرح ہزاروں سے زیادہ ٹرینیں اس دورون متاثر بھی ہوئیں۔ ایسوچیم کی رپورٹ کے مطابق جاٹ ریزرویشن تحریک میں 20؍ہزارکروڑ روپے کا نقصان ہوا، یہ تخمینہ 21؍فروری تک کا ہے۔

ویسے جے این یو کے واقعہ کی این آئی اے کی تحقیقات کی مانگ کو مسترد کرکے ہائی کورٹ نے ایک مختلف قسم کا پیغام دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے آگے کیا کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو دہلی کے بی جے پی ممبر اسمبلی اوپی شرما کی قیادت میں بی جے پی وکلاء کی طرف سے صحافیوں اور جے این یو کے طلبہ پر حملہ اور مار پیٹ کرنے کا ویڈیو میڈیا میں چل رہا ہے۔

نوجوان صحافی وشو دیپک کے خط جو انہوں نے اپنی صحافتی نوکری کو چھوڑتے وقت لکھا ہے، جس میں انہوں نے حقیقت کو الفاظ میں اتار کر مسموم فضا کا حال بیان کرکے شرپسند اور بھگوا تنظیموں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے وہ لائق مبارکباد ہی نہیں بلکہ اس پربہت ہی سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ان کے ایک لفظ پر گہرائی اور گیرائی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہمیں اندازہ ہوکہ ہم کہاں ہیں؟ہمارا وطن عزیز کس سمت جارہا ہے؟ ہم سوچیں کہ یہ مٹھی بھر جماعت ہمارے ملک کی سالمیت اور اس کی شناخت کے لیے کیوں خطرہ بنتی جارہی ہے؟ کیوں ہر طرف ہمارے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے؟ ہمارے سیکولر ہونے پر شک کیا جارہاہے؟ ہماری وطن پر ستی پر سوالیہ نشان؟ جھوٹے اور غلط الزامات کی بنیاد پر ہراساں کیا جانا؟ وطن کے تئیں ہماری قربانی کو فراموش کردینا اس طرح کے نہ جانے کیا کیا؟ آخر کیوں؟ ان ہی سوالات پر قوم کے ہمدردوں، مسیحائوں، نوجوانوں کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہمارا صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ اس لیے اب ہم سب کوہوشیار ہونےکا وقت  اور اپنی ناراضگی اور اپنی بیداری سے یہ احساس دلانے کا وقت آگیا ہے کہ اگر اکثریتی ووٹ فیصلہ کن ہے تو آخروہ ووٹ بینک کون کون لوگ ہیں؟ یہی دلت، پسماندہ، آدیباسی اوراقلیتیں ہی تو ہیں ، پھر ان ہی کے ساتھ ظلم و ستم کا پہاڑ کیوں توڑاجارہا ہے؟ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ہمارے غم اور ہمارے ناگفتہ بہ حالات یکساں اور مشترک ہیں، لیکن ہم میں اتحاد کا فقدان ہے، ہم متحد نہیں ہیں۔ ہمارا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔

آخر کیوں؟ مودی حکومت آنے کے بعد سے ہندوشدت پسند تنظیمیں بے لگام ہو گئی ہیں اور روزانہ کچھ نہ کچھ بے ہودہ بیانات دے رہی ہیں ،میڈیا کے حوالہ سے معلوم ہوا کہ اتر پردیش میں ’ہندو مہاسبھا ‘کچھ سرکردہ مسلم رہنمائوں کے خلاف ‘بھارت چھوڑو تحریک چلا رہی ہے ۔کیونکہ ان میں ایک تنظیمی ڈھانچہ ہے، منظم طریقے سے کام ہورہا ہے۔ اس پر بھی غورکرنا چاہیے۔مہاسبھا کے کارگزار صدر کملیش تیواری نے تو یہ بھی کہا ہے ’جو مسلمان ملک کے ساتھ غداری کررہے ہیں انہیں بھارت چھوڑنا ہوگا‘ لیکن جو ان کے علاوہ ملک کے ساتھ غداری کررہا ہے ان کے ساتھ کیا ہونا چاہیے۔ گویا یہاں ایک خاص نظریے کو تھوپنے اور اس کے سہارے ملک کوچلانے کا جو منصوبہ ہے وہ انتہائی خطرناک ، اور ملک کی سالمیت اور ان کا طرہ امتیاز ہے یعنی کثرت میں وحدت کے شیرازہ کو پارہ پارہ کرنے والا بھی ۔ بہر حال وطن سے غداری کی ہر حال میں مذمت ہونی چاہیے۔ان سب حالات کے باوجود خوشی کی بات تو یہ ہے کہ یہ احساس ملک کے دیگر طبقوں کو بھی ہونے لگا ہےاور نوجوان نسل بھی اس سے بخوبی واقف ہونے لگا ہے۔ سنگھ کے کارنامے خود ان کے ہی اپنوں کی آنکھوں میں پڑی پٹی کو کھولنے کا کام کررہے ہیں، حالات و واقعات ناگوار تو ہیں لیکن نتائج مثبت آرہے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ملک کے حالات میں بہتری آئے گی اس کے لیے یہیں سے کوئی نہ کوئی بہتر اور کارآمد نسخہ سامنے آئے گا۔

  اب  دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ کیا جے این یو ،روہیت ویمولہ، دادری جیسے واقعات ،ہریانہ میں جاٹ ریررویشن کے لیے 9؍دن تک چلنے والی تحریکسے حکومت سبق لےگی اور وزیر اعظم کے اچھے دن کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں موجودہ حکو مت کے تمام ممبران پارلیمنٹ وزیر اعظم کا ساتھ دیں گے،یا پھر وہی ہوگا جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہےکہ مودی جی خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور ان کے پارٹی ممبران سماج میں زہر گھولنے کا کام کر تے رہیں۔

mohdnaushad14@gmail.com

SHARE