خاص مضمون :ملت ٹائمز
مولانا اسرار الحق قاسمی
دیش دروہ کے الزام میں گرفتار کئے گئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمارتین ہفتے جیل میں رہے او ر3مارچ کوضمانت پررہا ہوکر کیمپس واپس آئے۔ وہاں انکی آمد کے شدت سے منتظر ہزاروں ساتھی طلبا موجود تھے جن سے مخاطب ہونے کیلئے کنہیا نے جو برجستہ تقریر کی اس میں صرف جوش اور جنون ہی نہیں بلکہ ملک کے موجودہ حالات اور مسائل کی سچی تصویر تھی؛ اقلیتوں،کمزوروں ، پسماندہ ذاتوں،دلتوں اور ملک کے متوسط طبقات کے درد اور بے چینی کی ایسی راست بیانی تھی اور ملک کے موجودہ نا موافق منظر نامے کو بدلنے کی ایسی تڑپ اور بے چینی تھی کہ اس خطاب کا ہر لفظ اور ہر جملہ ٹیلی و یژن چینلوں کے توسط سے ملک کے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں نہ صرف راست اترتاجا رہا تھابلکہ انہیں بجا طور پریہ محسوس بھی ہو رہا تھاکہ وہ الفاظ جو کنہیا کی زبان سے ادا ہو رہے ہیں،دراصل انکے دلی احساسات اور فکر و خیالات کی ترجمانی کررہے ہیں اور یہ آواز انکی اپنی آواز ہے، ان کے اپنے دل کی صدا ہے۔
وہیں دوسری طرف اس تقریر میں حکومت وقت کی پالیسیوں اور اسکے عزائم کا ایسا شاندارخاکہ بھی تھاجو حکمراں طبقہ اور خاص کر وزیر اعظم مودی اور انکے سپہ سالاروں اور ہم نواؤں کے منہ کا ذائقہ بری طرح بگاڑ رہا تھا۔حکمراں طبقہ اپوزیشن جماعتوں کی منجملہ گالیاں کھاکر بھی شاید اتنا بے مزہ نہ ہوا ہوگا جتنااکیلی اس تقریرنے انہیں بے کل اور بے چین کردیا اور بوکھلاہٹ کا عالم تو اس قدر طاری ہو گیا کہ نامور اور گمنام وفاداروں کے گروہ حسب عادت ہنسا کی بھاشا بولتے ہوئے اس نئے نویلے مقرر کی زبان اور جان کی بھی بولی لگانے لگے۔’’کنہیا نے افضل گورو جیسے دہشت گرد کی حمایت میں ملک دشمن نعرے لگائے، میں اسِ شخص کو پانچ لاکھ روپے بطور انعام دوں گا جو اسکی زبان کاٹ ڈالے گا‘‘ بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے ایک عہدیدار کلدیپ وارشنی نے یہ اعلان کیا ۔اسی طرح دہلی میں بعض عوامی مقامات پر پوروانچل سینا اے بی وی پی کی جانب سے ایک پوسٹر چسپاں نظر آیا جس میں کنہیا کا سر قلم کرنے والے کو گیارہ لاکھ کے انعام کی پیشکش کی گئی تھی۔
گیروا لبادے میں ہمہ وقت ملبوس رہنے والے بھاجپائی ممبر پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ، جوٹی وی چینلوں کو اپنی’ بائٹ ‘سے نوازنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے ہیں، اس نیک ساعت پر بھی خود کو روک نہیں سکے اور فی الفور نمودار ہوکر اپنی ذہنی تنگ نظری کا ایک بار پھر ثبوت پیش کرنے لگے۔ کنہیا کمارکی تقریر نے انکی کچھ ایسی سمع خراشی کی کہ انہیں محمد علی جناح کی یاد آگئی ۔ انہوں نے اپنی تمام تربصیرت اور بصارت کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑی عجلت میںیہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ یہ تقریر ملک کو تقسیم کرنے والی ہے۔ چنانچہ ایک ذمہ دار اوروطن پرست شہری ہونے کی اپنی ذمہ داری کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ملک کو ایک اور تقسیم کے ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے یوگی جی فرمانے لگے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں جناح پیدا نہیں ہونے دیا جائیگا اور جے این یو میں کوئی جناح جیسا رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے اسی وقت دفن کردیا جائیگا۔ انکے خلاف کوئی پولس کارروائی ہوگی یا پارٹی انکی سرزنش کریگی،ظاہر ہے کہ کسی کو بھی یہ خوش گمانی نہیں ہو سکتی۔
کنہیا نے اپنی تقریرمیں جس سادگی اور سادہ لوحی سے ملک کے پیچیدہ اور دن بہ دن بگڑتے ہوئے حالات ، نفرت کی سیاست،عدم رواداری کے ماحول ،عدم مساوات، طبقات اور ذات پات کی خلیج کو بڑھانے کی سازش، مہنگائی، دھوکہ دہی،سنگھ پریوار کی ریشہ دوانیوں، اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کی حکومتی کوششوں کا موثر لب و لہجے میں اظہار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ملک کی نبض پہچانتے ہیں اور حالات پر عمیق نظر رکھتے ہیں۔اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ان میں ایک باشعور،زیرک اور معاملہ فہم سیاستداں بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔اور چونکہ ملک کو کھوکھلا کر دینے والی تمام خرابیوں اور بیماریوں سے آزادی کی بات کر رہے ہیں اور بار بار ملکی آئین و قانون میں یقین اور انکی پاسداری کی باتیں کر رہے ہیں تو اس سے انکے اخلاص اور نیک نیتی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ سرزمین بہار کے ایک غریب کا چشم و چراغ یہ نوجوان یقینی طور پر ملک کا ایک بیش قیمت اثاثہ اور ایک ایسا ہیرا ہے جسے تراشنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس قیمتی اثاثہ کی حفاظت بہر حال ضروری ہے۔
صرف ایک تقریر سے اگر کوئی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لے اور بڑے بڑے صاحبان فکر، مختلف شعبہ حیات کے با اثر افراد اور خود منجھے ہوئے سیاستداں بھی حکومت وقت اور چنندہ میڈیا گھرانوں کے خلاف ایک ساتھ سینہ سپر ہونے کی اسکی ہمت و حوصلے کے قائل ہو جائیں توایسے شخص کا سیاسی استحصال کئے جانے کا بھی امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ کنہیا کے معاملے میں بھی یہ خطرہ لاحق ہے۔ چونکہ کنہیا کمیونسٹ پارٹی کے اسٹوڈنٹ ونگ آل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے وابستہ ہے اسلئے کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر سیتا رام یچوری نے اسے آسام کی انتخابی مہم میں شامل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ فوری فائدے کے لئے عجلت پسندی سے کوئی فیصلہ کرنا شاید کچھ زیادہ دانشمندانہ فیصلہ نہ ہو۔ہاں تمام وطن دوست، سیکولر اور امن پسند طاقتوں کو جو بھارت میں مسائل سے آزادی مانگنے کے فکر و خیال سے اتفاق رکھتے ہیں انہیں آگے آکر کنہیا کا ساتھ دینا ہوگا جس نے ملک اور سماج کو نفرت کے خنجر سے لہو لہان کرنے کے ناپاک عزائم رکھنے والی طاقتوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کیا ہے۔
موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے دو سال بھی مکمل نہیں کئے ہیں اور بجائے اسکے کہ اس عرصہ میں ملک کو درپیش مسائل میں سے چند مسئلے حل کرنے کی کوششیں کی جاتیں، حکومت نے ملک و قوم پر ہر لمحہ اپنے ہندوتوا نظریات تھوپنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت اس ملک میں ہندوؤں کے علاوہ کسی اور قوم کو اسکی مرضی کے مطابق سانس لینے کی بھی آزادی دینے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوشش ملک میں ٹکراؤ ا ور تقسیم کے حالات پیدا کررہی ہے۔ آئین نے سب کو مساوی اختیار ات دیئے ہیں لیکن موجودہ حکومت تمام غیر ہندوؤں کے آئینی و قانونی حقوق کو سلب کر لینا چاہتی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ اس کا نوٹس لے اور جو لوگ ان کوششوں میں شامل ہیں ان کی سرپرستی بند کرکے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے اور جن آزادیوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ان پر نیک نیتی سے غور کرے ورنہ کنہیا کی زبان سے جو باتیں جے این یو کے کیمپس میں نکلی ہیں ان کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے گی۔
(مضمون نگارممبرِپارلیمنٹ اور آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)