یوگی سرکار کے چھ ماہ: کتنے کامیاب، کتنے ناکام !

ڈاکٹر یامین انصاری 
بی جے پی نے چھ ماہ پہلے” نہ غنڈہ راج نہ بھرشٹا چار، اب کی بار بی جے پی سرکار “ کے نعرے کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی ریاست یو پی کے اقتدار میں شاندار واپسی کی۔ جب حیرت انگیز طور پر نریندر مودی نے بھگوا دھاری یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کے لئے منتخب کیا اور پھر ۹۱ مارچ کویوگی نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا تو مودی کا پیغام صاف طور پر سمجھ میں آگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مختلف حلقوں کی جانب سے اسی وقت مختلف قسم کے شکوک و شبہات اور مختلف اندیشوں اور خدشات کا اظہار کیا گیا، جو بعد میںیوگی سرکار کے طریقہ کار سے کافی حد تک درست بھی ثابت ہوئے۔ ایک مندر کے مہنت کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کا مقصد تو پہلے ہی سمجھ آ چکا تھا، لیکن یوگی سرکار نے اپنے کچھ فیصلوں سے اس مقصد اور طریقہ کار کو بالکل واضح کر دیا۔ جہاں تک بی جے پی کے انتخابی وعدوں کا سوال ہے تو ان کو پورا کرکے دکھانے کی جلد بازی میں کئی ایسے کام کر دئے جو نیک نامی کے بجائے یوگی حکومت کی بدنامی کا سبب بن گئے۔ ان میں کسانوں کا قرض معاف کرنا،ایک مخصوص مدت میں پوری ریاست کی سڑکوں کے گڈھوں کو بھرنے کا وعدہ ، اینٹی رومیو اسکواڈ اور غنڈہ گردی کو ختم کرنے کا وعدہ سر فہرست ہے۔
بی جے پی اور یوگی سرکار اگرچہ اپنے کام کاج سے مطمئن اور پر جوش نظر آ رہی ہے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کے عوام بھی اتنے ہی مطمئن اور خوش ہیں؟ حالانکہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے چھ ماہ کی مدت بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے جس طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیںایسے میں ان دعووں کی زمینی حقیقت کو جاننا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی حکومت کے چھ ماہ مکمل ہونے پر اپنے کاموں کا رپورٹ کارڈ پیش کیا۔ اس سے ایک دن پہلے ہی یوگی آدتیہ ناتھ نے سابقہ ایس پی اور بی ایس پی حکومتوں کی ’ناکامیوں‘ پر حملہ کرتے ہوئے وہائٹ پیپر جاری کیا۔ لیکن شاید وہ یہ بھول گئے کہ سابقہ حکومتوں کی جو خامیاں اور کمیاں تھیں، اس کا جواب تو عوام کی عدالت پہلے ہی دے چکی ہے۔ اب تو انھیں اپنے فیصلوں اور طریقہ کار پر جواب دینا چاہئے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے ایک ترجمان پرکاش ترپاٹھی کا دعویٰ ہے کہ ”یو پی میں اب دباو ¿ اور اثر و رسوخ سے آزاد حکومت ہے۔ قانون کا راج قائم ہے۔ چھ ماہ کی مدت کار میں ایک بھی فساد نہیں ہوا۔ پہلے سیاسی اثرات کی وجہ سے فساد ہوتے تھے، لیکن اب یو پی فساد ات سے آزاد ہے۔ پہلے پولیس پر حملے ہوتے تھے، لیکن اب پولیس مجرموں پر حملے کر رہی ہے۔ غنڈہ راج اور بد عنوانی پر ہم نے قابو پایا ہے۔ بد عنوانی روکنے کے لئے کئی محکموں میں ای ٹینڈرنگ کا نظام نافذ کیا گیا ہے۔ کان کنی سے لے کر ٹرانسپورٹ تک ، زیادہ تر محکموں کو ہم شفاف نظام کے تحت لے کر آئے ہیں۔ “ یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کے ترجمان نے جو دعوے کئے ہیں، در اصل ان میں سچائی نہیں کے برابر نظر آتی ہے۔ غنڈہ گردی، پولیس پر حملے، بدعنوانی، فرقہ وارانہ اور ذات پات کی بنیاد پر فساد، سیاسی اثرو رسوخ کا غلط استعمال وغیرہ سب کچھ ویسے ہی نظر آتا ہے، جیسا کہ سابقہ حکومتوں میں ہوتا تھا۔ اس میں کوئی بھی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آتی۔
یوگی کے اقتدار سنبھالتے ہی جس طرح شر پسند عناصر، شدت پسند گروہوں اور جرائم پیشہ افراد نے سر اٹھایا، اس کے سبب یوگی حکومت کے کام کاج اور نریندر مودی کے فیصلے کو قومی سطح پر زبردست نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی یو گی حکومت کو کئی موقعوں پر عوامی ناراضگی اور اقلیتی فرقہ کے غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے جذباتی اور ووٹ بینک کے سبب کئے گئے جس انتخابی وعدے پر سب سے پہلے عمل کیا، وہ تھا ریاست بھر کے غیر قانونی مذبحوں کو بند کرنا، لیکن اس فیصلے کی وجہ سے تمام مذبحوں پر تالے لگ گئے۔ یوگی کے اس فیصلے کی بڑے پیمانے پر مخالفت ہوئی۔ لاکھوں گوشت تاجروں پر اس فیصلے کے مضر اثرات پڑے، یہاں تک کہ ان کے سامنے روزگار کا مسئلہ پیداہوگیا۔ اس کے علاوہ کسانوں کے سامنے بھی مسئلہ پیدا ہو ا۔ عالم یہ ہو گیا کہ لوگوں نے اپنے مویشیوں کو کھلے میں چھوڑ دیا، جس سے کسانوں کی فصلوں کو کافی نقصان ہوا، کیونکہ ان مویشیوں نے بڑے پیمانے پر فصلوں کو نقصان پہنچا یا۔ اس کا حکومت کے پاس ابھی تک کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یوگی سرکار کو اپنے ایک اور فیصلے پر زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تھا لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ خانی کے واقعات کی روک تھام اور اوباشوں کی حرکتوں پر لگام لگانے کے نام پر ’اینٹی رومیو اسکواڈ‘ کا قیام۔ ’اینٹی رومیو اسکواڈ‘ نے ریاست بھر میںعوامی مقامات پر منچلوں پر کارروائی کرنی شروع کر دی، لیکن اس مہم کے دوران کئی ایسے لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو چھیڑ خانی یا اوباشی میں میں ملوث نہیں تھے۔کئی جگہ عوامی مقامات پر عاشق و معشوق اور ساتھ پڑھنے والے لڑکے لڑکیوں کو مارا پیٹا گیا، یہاں تک کہ پولیس کے ذریعہ بھی بد تمیزی کی گئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ ’اینٹی رومیو اسکواڈ‘ کی حرکتیں قومی میڈیا میں بحث کا موضوع بن گئیں اور جس تیزی سے یہ مہم زیر بحث آئی، اتنی ہی جلدی ختم بھی ہو گئی۔وہیں بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران یو پی میں قانون و انتظام کو اہم موضوع بنایا تھا اور وعدہ تھا کہ ریاست کو جرائم سے پاک کر دیں گے، لیکن یوگی کے اقتدار سنبھالتے ہی جیسے جرائم پیشہ افراد بے قابو ہو گئے۔ یکے بعد دیگرے سلسلہ وار طریقہ سے مجرمانہ وارداتیں سامنے آنے لگیں۔ریاست بھر میں قتل، لوٹ، آبرو ریزی، فرقہ وارانہ تشدداور رنگدار ی کے واقعات میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا۔ فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ ذات پات کے نام پر بھی لوگوں میں نفرت میں اضافہ ہو گیا۔ سہارنپور میں دلتوں اور ٹھاکروں کے درمیان ہوا تشدد اس کی مثال ہے۔خود یوگی حکومت کے وزیر سریش کھنہ نے اسمبلی میں بتایا کہ۹ مئی تک ریاست میں کل۹۲۷ قتل،۳۰۸ آبرو ریزی ، ۰۶ ڈکیتی، ۹۹۷ لوٹ اور ۲۸۶۲ اغوا کے واقعات پیش آئے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ میں پولیس نے۰۲۴ انکاو ¿نٹر کئے، جس میں ۵۱ بدماش ڈھیر ہوئے، ۴۸ زخمی ہوئے اور۶۰۱۱ گرفتار ہوئے۔بی جے پی اور خود نریندر مودی نے ایک اور بڑا وعدہ ریاست کے کسانوں سے کیا تھا۔ اس وعدے پر عمل تو کیا، لیکن اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے میں کس طرح کسانوں کا مذاق بنایا گیا، یہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت بننے کے بعد یوگی حکومت نے کسانوں کا ایک لاکھ روپے تک کا قرض معاف کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے لئے باقاعدہ بجٹ بھی مختص کیا گیا، لیکن جس طرح سے پہلے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ مرکز اس کا خرچ نہیں اٹھائے گا، پھر وزیر زراعت نے کہا کہ یوپی حکومت اس پر جلد فیصلہ لے گی، اسے دیکھتے ہوئے حالت کافی مبہم سی بن گئی۔ بہر حال قرض معافی کا عمل شروع ہوا اور کچھ مقامات پر کسانوں کاایک پیسے، ۹ پیسے،۰۲ پیسے،۸۱ پیسے کا قرض معاف کیا گیا اور باقاعدہ لاکھوں روپے خرچ کرکے منعقد کی گئی تقریبات میں کسانوں کو قرض معافی کے سرٹیفکیٹ دئے گئے۔ اس عمل سے یوگی حکومت کی خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ وہیں یوگی حکومت نے ریاست کے ہر ضلع کو ۴۲ گھنٹے بجلی مہیا کرانے کا وعدہ کیا تھا، انتخابی مہم کے دوران کہا گیا تھا کہ ضلع ہیڈ کوارٹر کو۴۲ گھنٹے بجلی دی جائے گی، جبکہ قصبوںکو۰۲ اور دیہات کو۸۱ گھنٹے بجلی دی جائے گی، لیکن حالات یہ ہےں کہ ریاست بھر میں لوگوں کو بجلی کی زبردست قلت کا سامنا ہے۔ریاست میں صحت خدمات کا کیا عالم ہے، اس کا اندازہ وزیر اعلیٰ کے آبائی ضلع گورکھپور کے سرکاری اسپتال میں ہوئی درجنوں بچوں کی اموات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔یہاں سرکاری سطح پر کس قدر لاپروائی اور غفلت برتی گئی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بہر حال فی الوقت کسی بھی سطح پر یو پی کے حالات سابقہ حکومتوں سے جدا نظر نہیں آتے ہیں۔یو پی میں جو ایک بڑی پیش رفت نظر آتی ہے وہ ہے ریاست کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس، ان پر نفسیاتی و ذہنی دباؤ اور حکمراں طبقہ کی جانب سے جان بوجھ کر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا رجحان۔