آج مملکت سعودی عرب کے قومی دن کا 87 واں سالانہ موقع ہے۔ یہ مبارک موقع نہ صرف سلطنت کے متحد ہوجانے کے تاریخی واقعہ کی خوشیاں تازہ کرتا ہے بلکہ ہر سعودی شہری میں ہماری عظیم قوم کی تاریخی اور ثقافتی وراثت میں زبردست احساسِ فخر بھی جگاتا ہے۔ میں اس تاریخی موقع پر میری پ±رخلوص مبارکبادیاں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود، ’ہز رائل ہائینس‘ ولی عہد محمد بن سلمان اور سعودی عوام کو پیش کرنا چاہوں گا۔
ترقی کی راہ پر ہمارا سفر گزشتہ 9 دہائیوں سے جاری ہے، اور ہر شعبہ میں زبردست جست لگائی گئی ہے۔ ہمارا ملک دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہے اور ہم اپناا رینک 2030ءتک بہتر بنالینے کا مقصد رکھتے ہیں۔ موجودہ طور پر اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے فروغ انسانی اشاریہ (ایچ ڈی آئی) میں سعودی عرب کا درجہ متاثرکن 38 ہے۔ ہم اپنے سرمایوں کو موثر طور پر مزید تقویت دے رہے ہیں تاکہ ہمارے صحت، تعلیم، حمل و نقل اور سماجی خدمات کے بنیادی ڈھانچے مزید پختہ بنائیں اور زیادہ ترقی و بڑھوتری کو پروان چڑھایا جاسکے۔ اس ترقی کو استعداد بخشنے اور خوش حال ملک کی تعمیر کیلئے ایچ آر ایچ کراو¿ن پرنس محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود نے ویزن 2030 کو تین بنیادی موضوعات پر ترتیب دیا ہے … پ±رجوش سماج، خوش حال معیشت اور بلند حوصلہ قوم۔ ہم اس ویزن کے تئیں بے تکان کام کررہے ہیں تاکہ ہمارے ملک کو تمام محاذوں پر اختراعی اور کامیاب عالمی نمونہ مہارت بناسکیں۔
ہم ہمارے تعلیمی نظام کو اس طرح بدل رہے ہیں کہ اسٹوڈنٹس ہمہ پہلو والے علم اور اقدار سے بہرہ مند ہوجائیں جو ا±ن کے انفرادی اوصاف کو ا±بھارنے اور پھلنے پھولنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایجوکیشن کے تئیں ہمارے عہد کے عملی مظاہرہ کے طور پر ہمارے ملک نے 2016ئ میں تعلیم کے فروغ و توسیع کیلئے 200 بلین ریال منظور کئے ۔جو نگہداشت صحت کے بعد سب سے زیادہ سالانہ الاٹمنٹ ہے۔ 2030ء تک ہم کم از کم پانچ سعودی یونیورسٹیوں کو بین الاقوامی درجہ بندی میں سرکردہ 200 یونیورسٹیوں میں شامل دیکھنے کا مقصد رکھتے ہیں۔
ہم متنوع بن رہے ہیں اور ا±بھرتے شعبوں کی قابلیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ سعودی معیشت کے نئے ستون قائم کئے جائیں۔ ہمارا ’قومی قابل تجدید توانائی پروگرام‘ کا 2023ء تک 9.5 GW کی پیداوار کے ذریعے ’پاور مکس‘ میں قابل تجدید اجزاء کا حصہ 0 تا 4% بڑھانا طے ہے۔ ہماری مساعی میں دیگر منصوبے بھی شامل ہیں جیسے بعض سرکاری ملکیتی اثاثوں اور حکومتی خدمات کو خانگیانا؛ اعلیٰ ترین بین الاقوامی معیارات کی پ±رکشش چیزیں مقامات بناکر سیاحت کو فروغ دینا؛ ڈیجیٹل اکانومی میں سرمایہ لگانا، سلطنت کے معدنی وسائل کی کھوج کو ترغیبی بنانا؛ اور ہماری گیس پیداوار کو دوگنا کرنا۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود سلطنت کے شہریوں کو اس کا سب سے اہم اثاثہ سمجھتے ہیں۔ ویزن 2030 کی سعی ہے کہ خوش حال سوسائٹی قائم کی جائے جہاں عوام خوش گوار ماحول میں اچھی زندگی کا لطف ا±ٹھائیں۔ اس سمت میں بحیرہ احمر کا لکزری ریزارٹس پراجکٹ سنگ میل رہے گا۔ سعودی عرب کی 200 کیلومیٹر مغربی ساحلی پٹی کے پاس 50 قدرتی جزائر پر پھیلا یہ پروجیکٹ سلطنت کو بین الاقوامی سیاحتی نقشہ پر مقام دلائے گا۔ یہ زمین اور سمندر دونوں جگہ تاریخی اور ثقافتی سیرسپاٹوں کے علاوہ ڈائیونگ، پیراشوٹنگ، چٹانوں پر چڑھنا (راک کلائمبنگ) جیسے مواقع بھی پیش کرے گا۔ یہ پراجکٹ 2035ئ تک سالانہ اندازہً ایک ملین وزیٹرز کی میزبانی کرے گا، جس سے سلطنت کی جی ڈی پی (مجموعی دیسی پیداوار) میں 15 بلین سعودی ریال فی سال کا اضافہ ہوگا۔ حال ہی میں نقشہ کھینچا گیا علاقے کا انتظام بین الاقوامی معیارات بشمول بہترین ماحولیاتی طریقے کے ہم پلہ رہے گا۔
گہوارہ اسلام کی حیثیت سے سلطنت کو حرمین شریفین کی خدمت کرنے میں بڑا فخر محسوس ہوتا ہے۔ اِس سال دوملین سے زائد (بیس لاکھ) عازمین نے حج ادا کیا۔ عمرہ کیلئے آنے والوں کی تعداد گزشتہ دہائی میں تین گنا ہوکر آٹھ ملین تک پہنچ گئی۔ ہم خاص حکمت کے ساتھ اس مقصد پر کام کررہے ہیں کہ ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو حج اور عمرہ کی ادائیگی کیلئے موقع فراہم کیا جائے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے 2015ء میں مسجد الحرام کی توسیع کے تیسرے مرحلے کو شروع کیا جو 1.47 ملین مربع میٹر کا احاطہ کرے گا، جس میں 78 نئے ابواب الداخلے، نماز کیلئے چھ نئے منازل، 680 نئے رواں زینے (اسکیلیٹرز)، خاص ضرورتوں کے مستحق لوگوں کیلئے 24 رافع مشینیں (ایلیویٹرز) شامل ہیں۔
کئی ٹرانزٹ پروجیکٹس منظور کئے گئے ہیں تاکہ موجودہ سہولیات کو بڑھایا جاسکے۔ ایئرپورٹس کی جدیدکاری ہورہی ہے اور ا±ن کی گنجائشوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ مکہ میٹرو پراجکٹ کو ریل خدمات کے ساتھ تال میل میں ترتیب دیا گیا ہے تاکہ دورہ کنندگان کو مقدس مقامات تک پہنچایا جاسکے۔ سعودی ریلویز کمیشن نے حال میں جدہ سے مدینہ تک حرمین ہائی اسپیڈ ریل لائن کا اولین آزمائشی سفر مکمل کیا ہے۔ دونوں مقدس شہروں کو جوڑنے والا 450 کیلومیٹر کا نٹ ورک 360kph تک رفتار پکڑنے والا ہے، جس سے دونوں شہروں کے درمیان سفری وقت گھٹ کر اندرون دو گھنٹے ہوجائے گا۔
مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں سیاسی اور معاشی استحکام سعودی عرب کی عظیم ترین ترجیحات میں سے ہے۔ میرا ملک خطہ میں امن و استحکام کی برقراری کیلئے برسوں سے جاری اپنی کوششوں کی وجہ سے مسلمہ حیثیت رکھتا ہے۔ 1981 کے شاہ فہد بن عبدالعزیز السعود پلان سے لے کر 2002ءکی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود مساعی، لبنانی خانہ جنگی ختم کرنے والا 1989ئ کا طائف معاہدہ، فتح اور حماس گروپوں کے درمیان 2007ئ کے مکہ معاہدہ تحدید تعلقات تک ہم نے بنیادی طور پر ثالثی اور مصالحت پر محنت کی ہے تاکہ مسائل کی یکسوئی ہوجائے اور خطہ کے امن، استحکام، عدم مداخلت اور خوش حالی کے تئیں کام کیا جاسکے۔
سلطنت سعودی عرب نے انسانی مدد کیلئے مجموعی دیسی پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک حصہ مختص کرنے کے معاملے میں بین الاقوامی برادری میں پیش پیش رہتے ہوئے خیرسگالی اور دردمندی کو اپنی سرحدوں سے کہیں آگے تک پھیلانے میں اپنے مستقل ایقان کا مظاہرہ کیا ہے۔ کنگ سلمان سنٹر فار ہیومانٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف (KSRelief) نے 2015ئ میں اپنے قیام کے بعد سے چار براعظموں میں زائد از 37 ملکوں کو انسانی اور ترقیاتی مدد فراہم کی ہے، 218 پراجکٹس غذائی سلامتی، امکنہ اور آسرا، حفاظتی نگہداشت ِ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں انجام دیئے ہیں۔ ابھی حال میں اس سنٹر کے ذریعے سلطنت نے 33.7 ملین ڈالر کا عطیہ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کو دیا کہ یمن میں ہیضہ سے نمٹا جاسکے، جس کے بعد اواخر جولائی 2017ئ میں یونائیٹیڈ نیشنس چلڈرنز فنڈ (یونیسف) کو 33 ملین ڈالر بطور عطیہ دیئے۔
میرے لئے سفیر سعودی عرب برائے جمہوریہ ہندوستان کی حیثیت سے خدمت کرنا بڑا اعزاز رہا ہے۔ انڈیا ہمارے سفرِ ترقی میں اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ ہمارے گہرے باہمی روابط ہیں جو بڑھتی معاشی شراکت داری، ہمہ رخی تعاون اور پ±رجوش عوام سے عوام ربط کے ذریعے پروان چڑھتے رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کے تاریخی روابط شراکت داری اور تعاون کے ذریعے بڑھتے اور پھلتے پھولتے رہیں گے۔
ڈاکٹر سعودبن محمد السعطی