مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام ” امت مسلمہ کے مسائل و مشکلات اور ان کا حل “ کے موضوع پر ایک سہ روزہ قومی علماء کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک بھر سے تمام مکاتب فکر کے ارباب علم ودانش شریک ہوئے اور اس موضوع سے متعلق اپنی قیمتی آراء و تجاویز پیش کیں ۔راقم الحروف کو بھی اس کانفرنس میں اپنی معروضات پیش کرنے کا موقع ملا ۔ وہ معروضات قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں تاکہ ان پہلوؤں پر غور و فکر کا سلسلہ شروع ہو سکے ۔
” سب سے پہلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور ان کے جملہ رفقاء اور معاونین کو مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے، انتہائی اہم موقع پر اہلِ علم و دانش کی یہ بزم سجائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں ان تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے آپ حضرات سے مخاطب ہونے کا موقع دیا ۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے آج ” امت مسلمہ کے مسائل کا میدان ذاتی زندگی یا اجتماعی نظم “ کے عنوان پر چند معروضات پیش کرنی ہیں ۔
میرے خیال میں آج اگر امت مسلمہ کے مسائل و مشکلات کی بات کی جائے تو وہ ذاتی زندگی سے متعلق بھی ہیں اور اجتماعی نظم سے بھی انفرادی زندگیوں میں بھی بے شمار کو تاہیاں دیکھنے میں آرہی ہیں اور معاشرتی سطح پر بھی کمزوریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں عوام کو بھی اپنی اصلاح کی فکر کرنی ہے اور حکمرانوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا ۔ اس لئے میں کوشش کروں گا کہ اس فورم سے ان امور کی نشاندہی کی جائے جو ہمارے مسائل ومشکلات ،بگاڑ وفساد اور زوال وانحطاط کا اصل سبب ہیں ۔ جب عوام و خواص ، رعایا اور حکمران ،فرد اور معاشرہ سب اپنی کمزوریوں اور ذمہ داریوں کا احساس وادراک کر کے ان اسباب کے ازالے کی فکر کریں گے تب کہیں بہتری کے آثار نمودار ہونا شروع ہوں گے ۔انشاءاللہ
ایمان محکم، عملِ صالح ، خوف خدا اور فکرآخرت :
آئیے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے اپنے معاشرے کی اصلاح کی اور کن بنیادوں پر صحابہ کرام کو کھڑا کیا کہ وہ زمانے کے مقتداء و پیشوا بن گئے ۔ آپ ذرا تصور تو کیجیے کہ ایک ایسا معاشرہ جو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں ڈوبا ہوا تھا ،جہاں قتل و غارتگری کا رواج تھا ، وہ لوگ راہ راست سے اس حد تک بھٹکے ہوئے تھے کہ کو ئی ان پر حکمرانی کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ ہمارے آقا ﷺ نے اس معاشرے کا نقشہ ہی بدل دیا۔ جب ہم آپ ﷺ کی محنت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتاہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاشرے کو ایمان محکم ، عمل صالح ، خو فِ خدا اور فکرآخرت کی ایسی بنیادی ںفراہم کیں کہ جن کی وجہ سے پورا معاشرہ یکسر بدل گیا وہ لوگ جو پہلے قاتل اور لٹیرے تھے وہ زمانے کے مقتداء اور پیشوا بن گئے۔ ان کا معاشرہ جنت کا نمونہ بن گیا ،وہ قیصر وکسری ٰ جیسی عالموں طاقتوں سے ٹکرا کر فاتح ٹھہرے۔ آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہو یا عوام کا، انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی نظم یقین محکم کی قوت ، کردار و عمل کی طاقت، خوف خدا کے زاد ِ راہ اور فکرِآخرت کی دولت سے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر محروم ہوگئے۔جب ہمارے پاس ایمان ویقین کی بنیاد اور اخلاص پر مبنی جذبہ ہی نہیں ، کردار وعمل کے اعتبار سے ہم کمزور ہوگئے ، محاسبہ کی فکر سے آزاد ہو گئے ، مرنے کے بعد کی زندگی کو بھول بیٹھے تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے جو غلط رکھ دی گئی اس اینٹ کو جب تک صحیح نہیں کیا جائے گا اور ان چار بنیادوں پر اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو لانے کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک اصلاحِ احوال کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔
وھن کی بیماری
اس وقت امت مسلمہ مسائل و مشکلات کے جس گرداب میں پھنسی ہوئی ہے ….ہر طرف ظلم و ستم کی آندھیاں زوروں پر ہیں …. ہر جگہ مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہے … ہر آنے والا دن گزرے دن سے زیادہ مصائب و آلام لے کر طلو ع ہوتا ہے ….دشمن اہل ایمان کو کاٹ کھانے اور صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کے لیے بھوکوں کی طرح امت مظلومہ پر ٹوٹا پڑ رہا ہے اس صورت حال سے نہ صرف یہ کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بہت پہلے خبردار کر دیا تھا بلکہ اس زوال و انحطاط کی وجہ بھی بتادی تھی کہ جب امت” وھن“ کی بیماری میں مبتلا ہو جائے گی یعنی دنیا سے محبت کرنے لگے گی اور موت کی ناپسندید گی کا شکار ہو جائے گی تو پھر اس قسم کے حالات سے دوچار ہو جائے گی اس وقت ہمیں امت مسلمہ میں یقین محکم ،عمل صالح ،خوفِ خدا اور فکر آخرت کا شعوا جاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اجتماعی نظم اور اپنے دل ودماغ سے وھن کی بیماری کو یعنی دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی کو ختم کردیں کیونکہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے…. موت کی ناپسندیدگی بزدلی اور غیروں کی غلامی کا سبب بنتی ہے ۔جب ہم اس بیماری سے نجات پاجائیں گے تو اس کے نتیجے میں بہت سی مشکلات پر قابو پانا آسان ہو جائے گا ۔انشااللہ
اتحادو اتفاق کا فقدان
اس وقت امت مسلمہ کے مسائل و مشکلات کی ایک بڑ ی وجہ اتحادواتفاق کا فقدان ہے ۔ہمارے ہاں مذہبی بنیادوں پر ،مسلکی بنیادوں پر ،علاقائی بنیادوں پر اور لسانی بنیادوں پر نفرتوں کے ایسے بیج بوئے گئے ہیں کہ ان کی فصل اب بالکل تیار ہے۔ دشمن نے ” لڑاؤ اور حکومت کرو “ پالیسی کے تحت ہمیں یوں آپس میں دست وگریباں کیا کہ ہمارے مابین دوریوں کی خلیج حائل ہو گئی اور امت کا شیرازہ بری طرح بکھر کر رہ گیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصبیت کے جن کلموں کو بدبودار باتیں کہہ کر چھوڑنے کا حکم دیا تھا انہی چیزوں نے اس امت واحدہ کو بانٹ رکھا ہے ….اختلافِ رائے اس امت کیلئے رحمت کا باعث تھا لیکن ہم نے اسے مخالفت اور مخاصمت کا رنگ دے کر زحمت بنا ڈالا ہے۔ ہمارے مسلکی اختلافات مخالفت اور تشدد کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور پھر نہ ختم ہونے والے فساد اور انتشار کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ اگر آج مسلکی ہم آہنگی ، عصبیت کے خاتمے ، علاقائی اور لسانی تفریق کو مٹانے اور جدید و قدیم کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی جائے کوئی وجہ نہیں کہ مسائل و مشکلات ہمیں یوں ہی گھیرے رکھیں اور اگر آج ہم نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک پھیلی ہوئی اسلامی دنیا کو اتحادو اتفاق کی لڑی میں پرونے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے پر آمادہ کر نے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارا مقدر یقیناً بدل سکتا ہے۔آج اگر یورپی یونین کی شکل میں یورپی ممالک کا بلاک موجود ہے ،افریقی ممالک آپس میں معاہدے کر کے ایک قوت بن سکتے ہیں ،سارک ممالک اکٹھے ہوسکتے ہیں تو اسلامی دنیا مشترکات پر اکھٹی ہو کر اپنا ایک بلاک بنا لینے کی ہمت کیوں نہیں کرتی ؟یا د رکھئے جب تک اس پہلو پر توجہ نہیں دی جائے گی اس وقت تک ہماری پریشانیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی رہیں گی ۔
تعلیم کی کمی
امت مسلمہ کے مسائل کی ایک بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے ۔اور یہ بھی ایک ایسا سبب ہے جس کے ذمہ دار افراد بھی ہیں اور مسلمان معاشرے بھی ،عوام بھی ہیں اور حکمران بھی ایک ایسی امت جس کی پہلی وحی کا آغاز اقرا سے ہوتا ہے … ایک ایسی امت جس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قل رب زدنی علماً کا حکم ہوتا ہے … ایک ایسی امت جس کی شناخت اور پہچان ہی تعلیم وتعلم ہے اگر وہ امت تعلیم کے میدان میں دنیا سے پیچھے رہ جائے تو اس پر افسوس کے اظہار کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے ؟ مسلمانوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کے ذمہ دار جہاں حکمران ہیں کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام ،تعلیمی سہولیات و ضروریات کی فراہمی ،اعلیٰ معیار کی درس گاہوں کے انتظام و انصرام ،تعلیم کے لیے معقول بجٹ مختص کرنے اور اپنی قوموں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر نے کے معاملے میں ہمیشہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا وہیں عوام نے بھی انفرادی طور پر اس معاملے میں افسوسناک حد تک تغافل برتا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہو یا جدید ایجادات … میڈیکل اور انجینئرنگ ہو یا کوئی دوسرا علم …. ہم اپنے شاندار اور تابناک ماضی کے حوالے تو دیتے ہیں ،چند مسلمان سائنسدانوں کا تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا کہ آج وہ بڑے بڑے سائنسدان کیوں جنم نہیں لیتے؟آج ہم ہر معاملے میں غیروں کے محتاج کیوں ہیں ؟ آج اسلامی دنیا میں شرح خواندگی اتنی کم کیوں ہے ؟آج دنیا کی معیاری درسگاہیں اور رصد گاہیں عالم اسلام میں کیوں نہیں ؟ یونیورسٹیز کی ریٹنگ میں اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں کا سراغ تک کیوں نہیں ملتا؟ ہمیں اس معاملے پر خوب سوچ وبچار کر کے اس کے تدارک کی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی ورنہ مستقبل مزید تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جائے گا ۔
سستی، کاہلی اور عیشی پرستی
امت مسلمہ کے مسائل میں سے ایک اور بڑا مسئلہ ہماری اجتماعی اور انفرادی سستی، کاہلی اور عیش پرستی بھی ہے ۔ ہم لوگ محنت سے جی چراتے ہیں ،کام کر نے سے جان چھڑاتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کا شاہانہ طرزِ زندگی ہو یا امراؤ روساء کی عیش پرستی ، عوام کی سہل پسند ی ہو یا نوجوانوں کی عیش کوشی ان چیزوں نے نہ صرف یہ کہ ہمیں زوال و انحطاط سے دوچار کیا بلکہ دنیا کے سامنے تماشا بناکر رکھ دیا ہے۔ ہمارے نوجوان شمشیر وسناں چھوڑ کر طاؤس و رباب کے دلدادہ ہو گئے، فحاشی وعریانی کے زہر نے ہماری پوری نسل کو کھوکھلا کر ڈالا، لایعنی مشاغل اور فضولیات ولغویات میں انہماک نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ لوگ جو ایمان کی دولت سے بھی محروم ہیں اور اللہ کی نصرت و مدد کا بھی ان سے کوئی وعدہ نہیں لیکن جب انہوں نے محنت کو اپنا شعار بنایا تو کامیابی وکامرانی ان کا مقدر بنتی چلی گئی اور ہم ہاتھوں پر ہاتھ دھر ے اچھے مستقبل کے انتظار میں بوڑھے ہوتے چلے گئے ۔ ہمیں اس اجتماعی اور انفرادی کمزوری کا احساس بھی کر نا ہوگا اور اس معاملے پر قابو پانے کی کوشش بھی کرنی ہو گی ۔
وسائل کا ضیاع اور اسراف
جس طرح ہم وقت اور انسانی صلاحیتوں کو بے دریغ ضائع کرتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر ہم قدرتی وسائل کو بھی ضائع کررہے ہیں ۔اللہ رب العزت کا خصوصی فضل و کرم ہے کہ عالمِ اسلام کے پاس ہر قسم کے وسائل کی فراوانی ہے ،سیال سونے کے کنویں موجود ہیں ، معدنیات کے ذخائر موجود ہیں … جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے یازرعی لحاظ سے … معدنی اعتبار سے بات کی جائے یاموسمی اعتبار سے سب سے زیادہ وسائل اور ترقی کے مواقع عالم اسلام کے پاس ہیں لیکن ہم نے انہیں بروئے کار لانے اورمنصوبہ بندی سے برتنے کا اہتمام ہی نہیں کیا ….اسلامی دنیا سے تیل دشمن نکال کر لے جاتے ہیں … ریکوڈک سے سونا نکالنے کا ٹھیکہ ہم کسی اور کو اونے پونے داموں میں دے دیتے ہیں … دریاﺅں پر ڈیم بنانے کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی …. ہمیں تو و اعدو لھم ماستطعتم من قوة و من رباط الخیلکا حکم تھا لیکن ہم دشمن کے خلاف قوت جمع کرنا تو کجا اپنی ضرورت کے وسائل کو سلیقے سے برتنے کی توفیق سے بھی محروم ہیں اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ وسائل کے ضیاع کے ساتھ ساتھ اسراف جسے قرآن نے شیطان کے بھائیوں والا کام قرار دیا ہے اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی بیگمات کے سونے اور زیورات کے قصے آپ نے سنے اور پڑھے ہوں گے اور شادی بیا ہ سے لے کر لباس و پوشاک تک اور موبائل فون سے لے کر پانی و بجلی کے استعمال تک عام لوگوں کے طرز عمل کا مشاہدہ کیا ہوگا۔ وسائل کے بے دریغ ضیاع اور فضول خرچی و اسراف کی عادت میں ہم نے سب کو مات دے دی اور یہی وہ کمزوری ہے جس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اگر اس معاملے میں ہم حضرت یوسف علیہ السلام والی حکمت عملی اپنائیں اور جس طرح انہوں نے دیانت ،کفایت شعاری اور منصوبہ بندی کے صرف تین گر اپنا کر پورے مصر کو قحط سالی میں ریلیف مہیا کیا ہم بھی ان تینوں چیزوں یعنی دیانتداری،کفایت شعاری اور بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے پورے عالم اسلام کے فقر وافلاس اور زوال و انحطاط کا خاتمہ کر سکتے ہیں ۔
کرپشن اور بد دیانتی
کر پشن اور بد دیانتی ہمارے معاشرے کا ایسا ناسور ہے جس نے آج ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بری طرح لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔حکمران ہو ں یا عوام جس کو جب ،جہاں اور جو موقع ملتا ہے وہ لوٹ کھسوٹ ، بددیانتی اور کرپشن سے خود کو نہیں بچاپا تا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید انہی حالات کے بارے میں پیشن گوئی فرمائی تھی کہ قرب قیامت میں دیانت وامانت کو اٹھا لیا جائے گا لوگ کہیں گے کہ فلاں قبیلے یا فلاں علاقے میں ایک شخص ہے جو بڑا امانت دار اور دیانت دار ہے ۔ آج اگر ہماری ریاستیں، ہمارا معاشرہ ، ہمارے ممالک ، ہمارے ادارے اور ہماری انفرادی زندگی کرپشن اور بد دیا نتی کی لعنت سے پاک ہو جائے تو دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے ۔
ظلم وزیادتی اور ناانصافی
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتے۔ آج ہمارے ہا ں ظلم کی جو مختلف شکلیں رائج ہیں، ناانصافی کے جو افسوسناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں ان کی وجہ سے بھی امت مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔ غیروں اور دشمن کے مظالم اور زیادتیاں تو اپنی جگہ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر طاقت ، قوت،دولت اور اثر رسوخ رکھنے والا دوسروں کو اپنے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنارہا ہے ،انصاف اور مساوات کے تصورات معدوم ہوتے چلے جارہے ہیں ،جب تک ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر انصاف کی بالادستی اور نظامِ عدل کے نفاذ کیلئے کو شش نہیں کر یں گے اس وقت تک ہما رے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جائیں گے ۔
احساس کمتری
ہمارے مسائل کی ایک بڑی بنیاد احساس کمتری بھی ہے ۔اس احساس کمتری کی وجہ سے مرعوبیت ،دوسروں کی غلامی اور حاشیہ نشینی ،بیرونی قوتوں کی مداخلت اور ڈکٹیشن قبول کرنے سے لے کر اپنی اقدار و روایا ت کو ترک کر کے دوسروں کی نقالی اور ان کی تہذیبوں کو فخر کے ساتھ اپنانے کی جو روش چل نکلی ہے اس سے بھی چھٹکارہ حاصل کر نا از حد ضروری ہے جب تک ہمیں سر اٹھا کر جینے کا ہنر نہیں آجاتا ،اپنی خود مختاری کی حفاظت کا سلیقہ نہیں آتا،اپنی اقدار وروایات پر ناز کر نے کی ہمت نہیں ہو تی اس وقت تک ہم کسی کو کیا الزام دے سکتے ہیں ؟
طبقاتی تفریق
ہمارے مسائل و مشکلات کی ایک بڑی وجہ طبقاتی تفریق بھی ہے ۔ V.I.P کلچر ،جا گیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اور بیورو کریسی کی مختلف شکلیں اس طرح ہمارے اوپر مسلط ہیں کہ کبھی یوں محسوس سہونے لگتا ہے جیسے ہم نے طبقاتی اور معاشرتی اونچ نیچ اور ذات پات کے چکر میں ہندوؤں کو بھی مات دے دی ہو…. ہمارے قواعد وضوابط اور قوانین ِ جزا و سزا ہر ایک کے لئے الگ الگ ہیں۔ امیر اور طاقتو ر ہر قسم کے قاعدے اور ضابطے سے مستثنیٰ ہے اور غریب ہر ظلم و زیادتی کا شکار ہیں حالانکہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال کو سابقہ قوموں کی تباہی وبربادی کی وجہ قرار دے کر اس سے اجتناب کا درس دیا تھا ۔
ذرائع ابلاغ پر غیروں کا غلبہ
اسی طرح ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ وہ کسی بھی شکل میں ہوں ان پر کسی نا کسی درجے میں غیروں کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اگرچہ میڈیا کے بعض ادارے اور کچھ افراد اپنی طرف سے اصلاح احوال کی کوششوں میں بھی مصروف عمل ہیں اور انفرادی طور پر کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں اس شعبے میں امید کی کرن کہا جا سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر جس طرح ذرائع ابلاغ فحاشی و عریانی پھیلانے ،اپنی اقدار و رویات کو ختم کر کے غیرو ں کی تہذیب مسلط کرنے اور فکری حوالوں سے غلط فہمیاں اور گمراہی پھیلانے میں جو کردار ادا کررہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں عالمی سطح پر میڈیا کی اسلام دشمن ،مسلم کش،اخلاق باختہ اور حیاسوز پالیسیوں کے تدارک کے لیے امت مسلمہ نے کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا نہ اس صورتحال کی تلافی کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جس کا خمیازہ آج ہم سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔اس لیے ہم سب کو بالخصوص ہمارے حکمرانوں اور میڈیا سے وابستہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو امت کو اس سنگین مشکل سے نجات دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
دوسروں کی اصلاح اور خود سے غفلت
یہ بھی ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ مارے ہا ں جو بھی امت مسلمہ کے مسائل ومشکلات کے اسباب کی نشاندہی کر کے ان کے تدارک اور امت کی اصلاح کا بیڑہ اٹھاتا ہے وہ ہمیشہ اصلاح کا عمل دوسروں سے شروع کرتا ہے اور خود کو بھول جاتا ہے ۔عوام حکمرانوں کو کوستے ہیں اور حکمران عوام کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قوموں اور حکمرانوں کو بہترین قرار دیا جو ایک دوسرے سے محبت کریں ،ایک دوسرے کے لیے دعاگو رہیں اور ایک دوسرے کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے سرگرم اور فکر مند رہیں اور ان لوگوں اور ان حکمرانوں کو برا اور موجب لعنت قرار دیا جو ایک دوسرے پر لعن طعن کریں ۔ اگر ہم دیکھیں تو اس وقت ہمارے حکمرانوں اور عوام کا رخ اور ترجیحات ہی مختلف ہیں ۔حکمران غیروں کے مقاصد کی تکمیل میں لگے ہیں اور انہیں عوامی مسائل ومشکلات سے نہ صرف یہ کہ کوئی سروکار نہیں بلکہ عوامی اضطراب کا احساس وادراک تک نہیں ۔یہ اعتماد کا فقدان اور الزام تراشی کی روش صرف عوام اور حکمرانوں کے مابین ہی نہیں ہے بلکہ مختلف طبقات اور مختلف افراد بھی اس کا شکار ہیں بلکہ بحیثیت مجموعی ہم سب قول وفعل کے بدترین تضاد میں مبتلا ہیں اس لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہو گی …. معاشرے میں پھیلی تاریکیوں اور ظلمت شب کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصے کا چراغ جلانا ہوگا …. اور امت کو اجتماعی اور انفردی اور حکومتی اور عوامی مسائل ومشکلات سے نجات دلانے کے تن من دھن کی بازی لگانی ہو گی ۔
اللہ رب العزت ہمیں اس کی توفیق مرحمت فرمائیں۔آمین