ملک کو سول وار کی طرف دھکیلنے والے کھاپ پنچایت اور سپاری کلر بن چکے نیوز چینلوں کا علاج کرنے کی ضرورت

قاسم سیّد

جے این یو ایپی سوڈ نے الیکٹرانک میڈیا کے ایک سیکشن کا بدنما، داغدار چہرہ اور نمایاں کردیا۔ میڈیا ٹرائل کے عذاب کو برسوں سے اقلیتیں اور کمزور طبقات سہتے آئے ہیں، مگر کنہیا اور عمرخالد کے معاملہ میں بعض نیوز چینلوں نے بے شرمی و بے حیائی کی تمام حدیں پار کردیں اور یہ ثابت ہوگیا کہ ان کٹھ پتلیوں کو کیسے نچایا جارہا ہے۔ اقلیتوں کے لئے سپاری کلر بن چکے ایسے نیوز چینلوں اور اینکروں کو عدالت میں گھسیٹنے اور قرار واقعی سزا دینے کا وقت آگیا ہے۔ انھوں نے شرمناک کھیل میں قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے، جذبات کو بھڑکانے، اشتعال پیدا کرنے، بھیڑ کو تشدد پر اکسانے، ’دیش دروہیوں‘ کو ’دیش بھگتوں‘ کے ہاتھوں سڑکوں پر پیٹنے، انھیں گولی مار دینے اور قتل کرنے کے لئے اکسانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ جعلی ویڈیو کے ذریعہ معصوموں کو بدنام کرنے اور کردارکشی کرنے میں ذرا سی خجالت محسوس نہیں ہوتی۔ بے غیرتی و بے شرمی کے علاوہ اسے اور کیا کہا جائے کہ جو لوگ 100 کروڑ کی بلیک میلنگ کے الزام میں تہاڑ جیل کے درشن کرآئے جو خبر چھُپانے کے لئے 100 کروڑ مانگتے ہوں، وہ خبر دینے کے لئے کیا کچھ نہ کرتے ہوں گے۔ وہی لوگ دیش بھگتی کے سب سے بڑے مبلغ بنے ہوئے ہیں۔ خود کو ملک کا واحد نیشنلسٹ چینل کہہ رہے ہیں، خاص طور سے تین نیوز چینلوں نے دیش بھگتی کی آڑ میں ملک میں فساد پھیلانے، ہندو مسلمانوں کو لڑانے اور سڑکوں پر اترکر ’دیش دروہوں‘ کو پیٹنے کا جنون پھیلایا، وہ قابل معافی نہیں ہے۔ کسی کو ماسٹر مائنڈ کہہ کر بدنام کرنا، جعلی ویڈیو بناکر ملک کو دیش پریمیوں اور دیش دروہوں میں بانٹنے والوں کو کسی قیمت پر چھوڑا جانا نہیں چاہئے۔ کارپوریٹ میڈیا سچائی کی تلاش نہیں کرتا، جھوٹ کو پھیلاتا ہے۔ یہ میڈیا کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کو چھپانے والے نظام کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس خطرناک رجحان نے سیکڑوں بے گناہ ماردیے، خاندان تباہ کردیے، لوگوں کی زندگی اجیرن کردی۔ دہشت گردی سے متعلق رپورٹنگ کے وقت اس کا خوفناک چہرہ خاص طور سے سامنے آتا ہے۔ جب کوئی مسلمان گرفتار ہوتا ہے تو میڈیا وہی دکھاتا اور لکھتا ہے جو پولیس بتاتی ہے۔ معصوم لوگ ماسٹر مائنڈ بتادیے جاتے ہیں، ان کی کھال ادھیڑی جاتی ہے۔ ہر بار وہی اسکرپٹ دہرائی جاتی ہے، صرف کردار بدل جاتے ہیں۔ وہی کھیل جے این یو کے معاملہ میں کھیلا گیا ہے جو ان کے لئے بھاری پڑگیا ہے، کیونکہ اس مرتبہ پالا زیادہ بھاری بھرکم لوگوں سے پڑگیا۔ وہ مسلمانوں کی طرح بے بس، مجبور، لاچار اور کمزور نہیں ہیں۔ انھوں نے ایسے چینلوں کو عدالت میں گھسیٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دہلی سرکار بھی ان پر قانونی شکنجہ کسے گی تاکہ نیوز کے نام پر سنسنی، خوف و دہشت پھیلانے والوں کا دماغ قانون کی ضرب سے درست کیا جاسکے۔ جھوٹی، من گھڑت خبریں نشر کرنے والے عدالت میں مجرموں کی طرح پیش ہوں۔ کسی تحقیق کے بغیر رنگارنگ الزام لگانے والے چھوٹی اسکرین کے سیاسی فنکاروں کا سرکس بند ہونا چاہئے۔ زبان سے زہر اگلنے والے، سچ کے بدن تار تار کرنے اور اس کے خون کے چھینٹے دور دور تک اڑانے والوں پر لگام کسنے، ٹی آر پی کی لڑائی میں عزت اچھالنے والے سپاری اینکروں کو بھی گوانتاناموبے کا مزہ چکھانے کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ مسلم جماعتوں کو وکلا کا پینل بنانا چاہئے اور جب بھی کوئی چینل بے گناہوں کو مجرم اور دہشت گرد بناکر پیش کرے، عدالت میں دائر مقدمہ پر لن ترانیاں ہانکے، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے، خواہ کتنی رقم کی ضرورت کیوں نہ ہو۔ کوئی تو بیڑہ اٹھائے۔ جو ملت مسلم جماعتوں کے ہیڈکوارٹر بنوانے، بڑی بڑی کانفرنسیں کرنے کے لئے دل کھول کر چندہ دے سکتی ہے، جو ملت کے رہنمائوں کی آرام و آسائش کا ہر ممکن بندوبست کرسکتی ہے، جو ملک بھر میں پھیلے لاکھوں مدرسوں کے کروڑوں کا بجٹ اپنے ناتواں کندھوں پر برداشت کرسکتی ہے وہ اقلیت دشمن بدنام زمانہ چینلوں کو گھٹنوں پر لانے کے لئے خون پسینہ ایک کرکے مطلوبہ رقم دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ بہت درد سہا ہے، بے گناہ نوجوانوں کو جیلوں میں سڑانے کا کرب ان سیکڑوں خاندانوں سے پوچھئے جنھیں سماج میں سر اٹھاکر چلنے کے قابل نہیں چھوڑا، ان کی رشتہ داریاں ختم ہوگئیں، بچوں کے رشتے ٹوٹ گئے، شادی شدہ بیٹیاں مائیکہ بھیج دی گئیں کہ ان کے سبب ہمارے گھروں پر آنچ نہ آئے۔ کسی کا مستقبل تباہ کردیا گیا تو کسی کی جوانی بڑھاپے میں بدل گئی۔ کھاپ پنچایت کی طرح فیصلہ دینے والا میڈیا، ایس ایچ او، پراسیکوٹر اور جج کا رول نبھانے والا میڈیا، بھڑکائو لیڈروں کو بڑھاوا دینے والا میڈیا، خاص ایجنڈے کے تحت کام کرنے والا میڈیا، اس کے احتساب کا وقت آگیا ہے۔ اگر ہم نے تساہلی سے کام لیا تو شکایت کرنے کا بھی حق کھودیں گے۔

 

SHARE