سید ہادی سید افقہی
خطے اور اسلامی دنیا کا اہم ملک سعودی عرب ملک سلمان بن عبدالعزیز کی فرمانروائی اور شہزادہ محمد بن سلمان کی ولیعہدی میں ماضی کی نسبت مختلف صورتحال کا شکار ہے۔ سعودی عرب سے متعلق دو اہم ایشوز قطر سے اس کے کشیدہ تعلقات اور سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی عوامی ناراضگی اور وسیع پیمانے پر ناراض علماء اور شخصیات کی گرفتاری ہے۔ سعودی عرب کو درپیش ایک چیلنج ملک کے اندر جبکہ دوسرا ملک سے باہر ہے۔
موجودہ حالات میں اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ سعودی عرب قطر میں آل ثانی خاندان کی حکومت سرنگوں کرنے کیلئے فوجی طاقت کا سہارا لے۔ لہذا دونوں ممالک میں جنگ کا امکان بہت کم پایا جاتا ہے۔ خلیج تعاون کونسل اور عرب لیگ پر حکم فرما سیاسی فضا کے تناظر میں بھی اس جنگ کا امکان انتہائی کم ہے۔ خطے کے کسی ملک میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلی دیگر تمام ممالک کو متاثر کرتی ہے۔ اسی طرح اس تبدیلی کے نتیجے میں اسٹریٹیجک اور جیوپولیٹیکل مساواتیں بھی تبدیلی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
البتہ اس نفسیاتی جنگ کا آغاز کیا گیا کہ سعودی عرب نے اپنی مسلح افواج سرحدوں تک پہنچا دی ہیں لیکن ترکی اور قطر کے درمیان دوستانہ تعلقات کے پیش نظر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے فوراً اپنی فوجیں قطر بھیج دیں جبکہ دوسری طرف امریکہ اور برطانیہ نے بھی مداخلت کی اور معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ امریکہ کو یہ خدشہ ہے کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان ممکنہ جنگ کی صورت میں دونوں ممالک میں موجود اس کے فوجی اڈوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح یہ نفسیاتی جنگ ناکامی کا شکار ہو گئی۔ قطر اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی کشیدگی میں لندن خاص طور پر واشنگٹن کا کردار انتہائی اہم ہے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب اور قطر سے کھیل رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ دوحہ اور ریاض کے درمیان سفارتی اور اقتصادی کشیدگی کو ایک خاص سطح تک برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ سعودی عرب، قطر اور خطے کے دیگر ممالک پر خوف و ہراس کی فضا قائم رہے۔ خوف و ہراس کی اس فضا کے نتیجے میں دونوں ممالک کی نگاہیں اور امیدیں واشنگٹن سے لگی رہیں گی جس کا فائدہ اٹھا کر امریکہ ان سے اپنا ہر مطالبہ منوا سکتا ہے۔ امریکی مطالبات میں نئے معاہدوں کا اجراء، نئے فوجی اڈوں کا قیام اور مشترکہ فوجی مشقوں کی انجام دہی شامل ہے۔
سعودی عرب کے بارے میں دوسرا اہم ایشو ملک کے اندر عوامی سطح پر بڑھتی ہوئی ناراضگی ہے۔ اس بارے میں چند قابل ذکر نکات ہیں۔ سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان، متحدہ عرب امارات خاص طور پر اس ملک کے ولیعہد شیخ محمد بن زاید آل نہیان کی پالیسیوں سے شدید متاثر ہیں۔ محمد بن زاید نے سعودی عرب کے سامنے اپنے ملک کو ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے اور محمد بن سلمان پر زور دیا ہے کہ اگر ان کا ملک ترقی کا خواہاں ہے تو اسے وہابی طرز فکر سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔ اس منصوبے کے تحت سعودی عرب کو پہلے مرحلے میں مذہبی سے قومی اور اگلے مرحلے میں قومی سے سیکولر طرز زندگی اپنانا ہو گا۔ ان کی نظر میں سیکولرازم ہی حقیقی ترقی کا واحد راستہ ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ کہ وہابی طرز فکر کے حامل مذہبی اور ثقافتی مراکز نہ صرف سعودی عرب بلکہ امریکہ اور یورپی ممالک سمیت پوری دنیا میں سرگرم اور فعال ہیں۔ اب جبکہ نائن الیون واقعے کے پوشیدہ پہلو عیاں ہو رہے ہیں اور اس حادثے میں سعودی شہریوں کا کردار مزید واضح ہوتا جا رہا ہے نیز القاعدہ میں شامل دہشت گرد عناصر کی وطن واپسی کا آغاز ہو چکا ہے جن میں اچھی خاصی تعداد یورپی شہریوں کی ہے تو امریکی حکومت نے سعودی حکام پر سیاسی دباؤ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ واشنگٹن نے ریاض کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے مدارس، اسکولوں کے نصاب، انٹرنیٹ کی ویب سائٹس اور سیٹلائٹ چینلز سے وہابیت پر مبنی تعلیمات کا خاتمہ کرے۔
اعداد و شمار کے مطابق مختلف دہشت گرد گروہوں جیسے داعش، النصرہ فرنٹ اور القاعدہ میں شامل دہشت گرد عناصر کی شہریت کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاض میں منعقدہ کانفرنس میں ایک ایسی کونسل کی تشکیل کا مشورہ دیا تھا جس میں امریکی ماہرین اور سعودی عرب کے اعتدال پسند مذہبی علماء شامل ہوں اور وہ مل کر سعودی عرب کے مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب پر نظرثانی کریں اور اسے اعتدال پسند بنانے کیلئے سعودی حکومت کو مشورے دیں۔ جب یہ خبر سعودی عرب کے وہابی علما تک پہنچی تو وہ شدید پریشان ہو گئے اور انہیں یہ خوف لاحق ہو گیا کہ ان کی طاقت محدود ہو کر رہ جائے گی۔ لہذا انہوں نے اس کے خلاف ردعمل ظاہر کیا اور احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
مزید برآں، سعودی حکومت ملک میں اخوان المسلمین کے حامی سلفی علما کو بھی گرفتار کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علما قطر سے ہمدردی کا اظہار کر رہے تھے اور حکومت پر قطر سے دوستانہ تعلقات بحال کرنے کیلئے دباؤ بڑھا رہے تھے۔ سعودی حکومت نے ان علما پر ملک سے غداری کا الزام عائد کیا ہے۔ ان علما کے جوان شاگرد سوشل میڈیا پر بہت سرگرم ہیں اور اپنے اساتید کی حمایت میں فعالیت انجام دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ان شاگردوں کا سیکولر سوچ رکھنے والے ایسے سعودی شہریوں سے بھی رابطہ قائم ہو گیا ہے جو یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اور یوں ایک حکومت مخالف تحریک ابھر کر سامنے آئی ہے۔
(بشکریہ شفقنا نیوز)