آخر ہم دوسروں کیلئے کب تک فیلڈنگ سجاتے رہیں گے

خاص مضمون
قاسم سید
ہندوستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔نظریاتی لڑائی کا فیصلہ کن آغاز ہوگیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم قیادت کے سواد اعظم نے اپنی استطاعت اور وسائل کے ساتھ ملک و ملت کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار کیا، مگر ان کی تمام تر کوششوں،محنتوں اور قربانیوں کے وہ اثرات و نتائج سامنے نہیں آئے جو مطلوب تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ عجیب و غریب اتفاق ہے کہ وسائل میں تو بے تحاشہ الحمد للہ اضافہ ہوا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے مسائل میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہوا۔ اس دوران تھوڑی دیر رک یہ نہیں سوچا کہ کیا کہیں غلطی ہورہی ہے یا جن پر ہم نے بھروسہ کیا وہ ہمارا استحصال تو نہیں کر رہے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ ملک کی اجتماعی زندگی میں کوئی مقام نہیں۔ سیاسی طورپر اتنے بے وزن، لاچار اور بے بس کبھی نہیں رہے۔ بی جے پی کو ہراتے ہراتے ہم خود ہار گئے۔ کہیں باڑھ خود کشت آرزو پر منھ مارتی نظر آرہی ہے تو کہیں حلقوں، گھروندوں، دائروں اور جماعتوں کی سیاست قہر ڈھارہی ہے۔ انتہائی اہم مسئلوں کو بھی ہم گروہی، جماعتی اور شخصی مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں اور ان کے تعلق سے اپنے رویہ کا تعین کرتے ہیں۔ توانائیاں بکھری ہوئی ہیں، ترجیحات الگ ہیں۔ باہمی چپقلش اور چھوٹے فقہی مسلکی اختلافات گھن کی طرح کھارے ہیں۔ ایک دوسرے کی تذلیل و توہین کے مرض سے چھٹکارا نہیں ملا۔ پہلے جماعت اور پھر ملت کی سوچ نے تنکوں کی طرح بکھیر دیا ہے۔ اس لئے ہر کوئی آسان شکار سمجھ رہا ہے۔ جہاں تک اکثر مسلم سیاسی و مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے ان کی حکمت عملی اخلاص ہونے کے باوجود مہم سے بالاتر رہی۔ انہوں نے کبھی معاہداتی سیاست کا فارمولہ نہیں آزمایا۔
ہم نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے لئے فیلڈنگ سجاتے رہے اور ان کا اسکور بڑھاتے ہیں۔ مسلمانوں کی حیثیت کہاروں سے بھی بدتر ہوگئی، پھر جن پارٹیوں نے ڈسا، اقتصادی و معاشی طورپر تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ان کو ہی عزت مآب کہہ کراپنے اسٹیج کی رونق بنایا۔ کانفرنسیں بااثر ہونے کی بجائے طاقت کا مظاہرہ زیادہ ہونے لگیں۔ مثال کے طور پر کوئی خود کو سو فیصد پیدائشی کانگریسی کہتا ہے تو یقیناًاس کی پالیسی کانگریس کو فائدے پہنچانے کے لئے ہوگی۔ وہی کانگریس جو سچر کمیٹی رپورٹ میں مسلمانوں کی زبوں حالی دکھاتی ہے، جو تالہ لگنے سے کھلنے اور بابری مسجد کی شہادت سے وہاں مندر بنوانے تک کے لئے ذمہ دار ہے۔ کتنا روئیں جو جاتے جاتے یو اے پی اے جیسا خوفناک قانون بنا گئی ، مگر ملت کی چیخ و پکار کے باوجود انسداد فرقہ وارانہ فساد بل کو منظورنہیں کیا، جس نے دہشت گردوں کے الزام میں سیکڑوں نوجوانو ں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ اب ہم ان سے ہی فریاد کریں گے، ان کی عزت افزائی کریں گے، ان کے حق میں ہاتھ اٹھائیں گے، عمر درازی کی دعادیں گے۔ جو سینہ میں خنجر اتارتے ہیں، ہمارا کلیجہ چباتے اور کان ناک کاٹ کر انتقام کی آگ بجھاتے ہیں وہی ظل سبحانی بن جاتے ہیں۔ اسی طرح کوئی سماج وادی پارٹی اورملائم سنگھ کو مسلمانوں کا نجات دہندہ اور مسیحا سمجھتا ہے تو وہ مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکاکر ان کے پاس لے جائے گا جبکہ ان کے احسانات کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔
مظفر نگر کا ناسور حالیہ تحفہ ہے۔ اخلاق کو ان کی چوکیداری میں گھر سے نکال کر مار دیا جاتا ہے۔ اصلی ملزموں کو جانتے ہیں مگر بچالیا گیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ حضور والا بے گناہ لڑکے رہا کیوں نہیں کرتے۔ 18فیصد چھوڑیئے 5فیصد ہی ریزرویشن دے دیجئے تا عمر احسان مند رہیں گے۔ کون کرے گا سوال؟ کیونکہ ہم ان کی مجبوری نہیں وہ ہماری مجبوری بنادیئے گئے ہیں۔ ہمارے خون کو پانی سے سستا کرنے والے ہی ہماری پلکوں پر چل کر اقتدار کی بارگاہ تک پہنچتے ہیں، ان کی جے جے کار ہوتی ہے۔ ملت دہائیوں سے گول گول گھمائی جارہی ہے، نہ پروگرام نہ حکمت عملی، نہ واضح لائحہ عمل علی ہٰذا القیاس، الا ماشاء اللہ بے سمت سفر جاری ہے۔ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پٹنے کی دانائی کا مظاہرہ جاری ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ کوئی بھی سیکولر پارٹی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی ، علاقائی ہو یا کل ہند ، مسلمانوں کے حق میں کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہے۔ ہم اپنی سیاسی بے وزنی کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں وزیراعظم اور سرکار نگاہ بھر کر دیکھنے کو تیار نہیں، مسلم قیادت کو وزیراعظم کے بلاوے کا انتظار ہے۔ مگر وہاں سے کوئی اشارہ نہیں مل رہا ہے، اس سے زیادہ بے وقعتی کیا ہوسکتی ہے۔ اجتماعات و کانفرنسیں زندگی کا احساس دلاتی ہیں اور اسٹیج سے خدو خال طے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں خیرو برکت کا باعث بنائے، ان سے کوئی راستہ نکلے۔ مثبت نتائج برآمد ہوں۔ وہ وقت بھی ان شاء اللہ آئے گا جب ملت جسدواحد بن کر پوری توانائی سے انگڑائی لے گی، اس کی پیشانی شعور و آگہی سے تمتما رہی ہوگی اوراپنی شرائط پر ملک کی سیاست کا رخ طے کرے گی۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں )

SHARE