اشفاق رحمن
کنوینر، جنتادل راشٹر وادی، بہار
آج مسلم اُمّہ پہلے سے ہی سنگین مسائل سے دوچار ہے ، ایسے میں قوم کو نئے مسئلے میں الجھانے کےلئے ہی نئی حج پالیسی لائی گئی ہے تاکہ تنازعات میں الجھ کر شدت اختیار کریں اور حکومت کو اہم ایشوز سے توجہ ہٹانے کا موقع مل جائے ۔ اس کےلئےحکومت سے زیادہ نام نہاد کارندے ذمہ دار ہیں جو خود سے بیٹھ کر مسلمانوں اور شریعت کے خلاف فیصلہ لے رہے ہیں۔ 45 سے زائد عمر کی خواتین کو بغیر محرم کے حج پر جانے کا فیصلہ کس کے کہنے پر لیا گیا۔ کیا کسی خواتین گروپ یا خواتین تنظیموں نے مطالبہ کیا تھا ، درخواست دی تھی؟ تو پھر کیونکر یہ فیصلہ لیا گیا۔ نریندر مودی کو محرم ۔ غیر محرم کا کیا علم ! دراصل، سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کیلۓ خالق کائنات کو بھی ناراض کرنے سے کچھ لوگ باز نہیں آرہے ۔ عجیب صورت حال ہے جو مسلمانوں کا حق ہے اسے نہ حکومت دینے کو تیار ہے اور نہ اقلیتی امور وزارت اور جو مسلمان مانگتا نہیں اسے زبردستی تھوپا جا رہا ہے۔ مودی، ممتا بنرجی سے لیکر کچھ نام نہاد مسلمان آر ایس ایس کے اس ایجنڈہ پر کام کر رہے ہیں کہ شریعت میں صرف دخل ہی نہیں دو بلکہ پوری پالیسی ہی بدل دو۔ تاکہ مسلمانوں کا دماغ خود بخود بدلتا چلا جائے مسلمانوں کو مشرک نہیں تو کم از کم منافق تو بنا ہی دیا جائے اور پھر آہستہ آہستہ مشرک تو ہو ہی جائیں گے۔ اقلیتی امور وزارت کے ذریعہ تشکیل کردہ ریو کمیٹی نے عازمین حج کیلئے شریعت مخالف جو چند سفارشات کی ہیں، اس سے آر ایس ایس کا کام آسان ہو گیا ہے۔ آر ایس ایس کا ایجنڈہ کیا ہے، مسلمانوں کے ہاتھوں ہی مسلمانوں کا سر قلم کیا جائے ۔ لیکن لعنت تو ان لوگوں پر ہے جو شریعت مخالف فیصلے ہو رہے تھے اور وہ حامی بھر رہے تھے۔ اگر ہمارے بیچ ہی میر صادق اور میر جعفر جیسے لوگ ہیں تو سرکار کو سامنے آنے کی ضرورت کیا ہے؟ سنگھ مودی، ممتا اور لعنتی مسلمانوں کے توسط سے اپنا ایجنڈہ چلانے میں کامیاب ہے۔ جیسے مسلمانوں نے ممتا بنرجی سے مطالبہ نہیں کیا تھا کہ عاشورہ کہ دن مورتی و سرجن نہیں ہونا چاہیے ۔ مسلمانوں کے تئیں نفرت اور فاصلہ بڑھا کر اپنا ووٹ بینک مستحکم کرنے کیلئے ممتا نے اپنے سے فیصلہ لے لیا۔ اسی طرح سے اقلیتی امور وزارت نے بنا مطالبہ کہ مسلم خواتین کو حج کے دوران آزادی دینے کا خود سے فیصلہ لے لیا۔ یہ آر ایس ایس کی لائن ہے۔ جس کو بنا سوچے سمجھے فالو کیا جا رہا ہے یا سوچ سمجھ کر سنگھی نظریات کو نافذ کیا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ساختہ سیکولر جماعتیں ایسے وقت میں مصلحت کی چادر اوڑھ کر سو جاتی ہیں۔ مگر مسلمانوں کو سیاسی باریکی سمجھ میں آۓ تب نا؟ مسلمان ایک سیٹ کیلئے سیاسی آقاؤں کے دربار میں سجدہ ریز ہو سکتا ہے مگر کبھی بھی اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کیلئے سر جوڑ کر نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ اُمّہ اور مسلم سیاست کا المیہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے سایسی طور پر عدم شعور کا شکار والی قوم کے خلاف فیصلے ہوتے ہی رہیں گے۔