مرکزی حکومت کی ناکامیوں کا سلسلہ جاری ہے

ڈاکٹر سید احمد قادری
گزشتہ لوک سبھا انتخاب سے لے کر ملک کی موجودہ صورت حال پر ایک نظر ڈالی جائے ، تو اندازہ ہوگا کہ جس طرح ملک کے اندر منافرت ، عداوت، عدم رواداری، فرقہ پرستی کی مسموم فضا پھیلی ہے ،اس سے ملک کی صدیوں پرانی ہماری شاندار گنگا جمنی تہذیب وتمدن اور قدریں پامال ہو رہی ہیں ، بلکہ ملک کی ترقی کی رفتار بھی کافی سست ہوئی ہے ۔ مٹھی بھر فرقہ ہرست عناصر ، حکومت کی شہہ پر جس طرح مذہبی منافرت کے زہر کو پھیلا رہے ہیں ۔ اس سے ملک کے اندر کا جمہوری نظام شدید طور، متاثر تو ہو ہی رہا ہے ، ساتھ ہی ساتھ بیرون ممالک میں بھی اس ملک کا جو ایک شاندار امیج تھا ، وہ بھی بری طرح مسخ ہو رہا ہے اور اپنی تمام خامیوں کو چھپانے کے لئے طرح طرح کے غیر جمہوری اور غیر انسانی واقعات کو سامنے لا کر لوگوں کے ذہن بھٹکانے کا کام کیا جا رہا ہے لیکن ان تمام سازشوں کو عوام بھی بخوبی سمجھ رہے ہیں ۔
اس سلسلے میں،یہ خبر یقیناََ چونکانے والی ہی ہے کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی جانب سے سال 2015 ء میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد کاگزشتہ مسلسل تین برسوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ غیر سرکاری تنظیمیں اور مسلمانوں ، مسیحیوں اور سکھوں کے مذہبی رہنماؤں نے اس طرح کے بڑھتے تشدد کی وجہ 2014 ء کے عام انتخابات کے دوران مذہبی بنیادوں پر چلائی جانے والی انتخابی مہم کو بھی قرار دیا ہے ۔ جس کے باعث انتخابات کے بعد سے نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی جانب سے مسلسل توہین آمیز حالات سے نبرد آزما ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت میں اکثریتی فرقہ کے لوگوں کے ذریعہ ، زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور پر تشدد حملوں کے بھی واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے ۔ چناچہ ان حالات کا جائزہ لینے کے لئے USCIRF یعنی یو ایس آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم کے ایک وفد کو عرصہ سے اپنے طئے شدہ پروگرام کے مطابق بھارت آنا تھا ، لیکن اس وفد کو بھارت آنے کا ویزا دینے سے ہندوستانی حکومت نے انکار کر دیا ۔ جس پر USCIRF کے چئیرمین رابرٹ جارج نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمیں ہندوستانی حکومت کی جانب سے ویزے نہ دئے جانے پر شدید مایوسی ہوئی ہے ۔‘ دوسری جانب امریکی پارلیامنٹ کے 34 ممبران اور 8 سینیٹروں نے بھارت کے وزیر اعظم نریند مودی کو خط لکھ کر ملک میں بڑھتی مذہبی منافرت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آر ایس ایس ، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد پر سخت کاروائی کرنے کی تاکید کی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت جن وعدوں اور دعٰووں کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی ، وہ ان تمام محاذ پر بری طرح ناکام ثابت ہو ئی ہے ۔ جس کا یہ نتیجہ ہے کہ غربت، مہنگائی ، بدعنوانی ، مذہبی منافرت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ سرمایہ داروں کے سرمائے بڑھتے جا رہے ہیں اور غریب، مزدود اور کسان کی بنیادی سہولیات کم ہوتی جارہی ہیں ۔ جن پر قدغن لگانے میں حکومت وقت ناکام ثابت ہو رہی ہے ۔ جس کے باعث ملک کے لوگوں میں مایوسیوں میں اضافہ ہو رہا ہے ، جنھیں چھپانے کے لئے حکومت طرح طرح کے تماشے کر رہی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ اس کا ہر داؤ الٹا پڑ رہا ہے ، جیسا کہ ابھی روہت ویمولا کی خود کشی کے بعد جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کنھیا کے معاملے میں دیکھنے کا ملا ۔ انتہا تو یہ ہو گئی کہ بے حد حسّاس اور ذمّہ دار عہدہ پر فائز وزیر داخلہ کو بھی سفید جھوٹ پر جھوٹ بولنا پڑ رہا ہے ۔ اب تو انتہا ہو گئی کہ مرکزی تعلیم رام شنکر کٹھیریا کے ذریعہ آگرہ جیسے محبت کے لئے جا نے والے شہر آگرہ میں اپنی تقریر میں ، دن کے اجالے اور سینکڑوں افراد کی موجودگی میں مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ نے کی دھمکی دیتے ہیں اور ہمارے وزیر داخلہ سفید جھوٹ بول کر اس وزیر کو کلین چٹ دے کر ایسے شر انگیز وزیر کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں ۔ اس جھوٹ کے جواب میں حزب اختلاف کے رہنمأ غلام نبی آزاد نے بہت صاف لفظوں میں انھیں متنبہ کیا اور کہا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں اس طرح کے کئی واقعات ہوئے ہیں ، لیکن ایک بھی معاملے میں حکومت یا ان کی پارٹی کی جانب سے کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے ، اس سے یہی پیغام جاتا ہے کہ سب کچھ ساز باز سے ہو رہا ہے ۔
مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ عام آدمی اپنی غربت و افلاس سے بھری زندگی سے گھبرا گیا ہے اور کئی ایسے قدم اٹھانے پر خود کو مجبور پا رہا ہے ، جو بہر حال ایک جمہوری ملک کے لئے سیاہ باب ہے ۔ کسانوں کی خودکشی کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے ۔ مریضوں کے لئے دواؤں کی مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ خود بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبر پارلیامنٹ فیروز ورون گاندھی اس امر کا اعتراف کر رہے ہیں کہ جان لیوا بیماریوں کی دوائیں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہے اور مجبوری میں ایسی دواؤں کو قرض لے کر لوگ قسطوں میں ادا کرتے ہیں ۔ پیٹرول کی قیمت کم ہونے کا فائدہ بھی ملک کے عوام تک نہیں پہنچ رہا ہے ۔ ملک کی معیشت پر بھی کو ئی مثبت اثر دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے ۔ ڈالر کے مقابلے روپئے کی قیمت متواتر گرتی ہی جا رہی ہے ۔ ملک کی معاشی صورت حال یہ ہے کہ مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ جینت سنہا نے راجیہ سبھا میں اپنے ایک تحریری بیان میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کارپوریٹ گھرانوں پر چار لاکھ اٹھارہ ہزار تین سو نناوے کروڑ روپئے سے زیادہ کا بقایہ ہے ۔ادھر ان کارپوریٹ گھرانوں کے ذریعہ لئے گئے لون کے نام پر کروڑوں کروڑ روپئے ، آر بی آئی کسی خاص الخاص فرد کے اشارے پر معاف کر رہی ہے یا بٹے میں ڈال رہی ہے ۔ اس بات پر سپریم کورٹ نے ناراضگی جتاتے ہوئے آر بی آئی سے باز پرس کی ہے اور ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے نام بتائے ، جو کافی بڑی رقم لون لے کر واپس نہیں کر رہے ہیں ۔
ملک میں بد عنوانی بھی اس وقت شباب پر ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کی بدعنوانی میں 82 فی صد کا اضافہ ہوا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بدعنوانی کا کھیل اس وقت سب سے زیادہ گجرات میں کھیلا جا رہا ہے ۔ ابھی ہیما مالنی کو مہارشٹر میں کروڑوں کی زمین ہزاروں میں دئے جانے کا معاملہ سرد بھی نہیں پڑا تھا کہ گجرات کی وزیر اعلیٰ آنندی بین پٹیل کی بیٹی انار پٹیل اور اس کے قریبی لوگوں کو زمین 90 فی صد چھوٹ پر یعنی کوڑیوں کے مول دے دی گئی گو سیوا ٹرسٹ کے لئے 671 روپئے مربع میٹر کی زمین کو صرف 15 روپئے کے حساب سے دے کر ایک ماں نے اپنی بیٹی کے لئے کیا خوبصورت فرض بنھایا ہے ۔ موجودہ حکومت کی بدعنوانیوں پر ہی ایک نظر ڈالیں تو ہمیں ایسے حقائق سے سامنا کرنا پڑتا ہے ، جو چونکاتا ضرور ہے ۔ لیکن حیرت زدہ نہیں کرتا ہے ۔ برسر اقتدار آتے ہی اس حکومت نے بد عنوانی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں ۔مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، چھتیس گڑھ اورمہاراشٹر کی حکومتوں نے کرپشن کے ریکارڈ توڑنے مین بہت آگے رہے ۔ للت مودی گیٹ گھوٹالہ، جس میں مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج اور راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا پر بھی کرپشن کے بڑے الزامات لگے ہیں۔ گجرات مچھلی پروری میں چار سؤ کروڑ روپئے کے گھوٹالہ کا وہاں کے وزیر پرشوتم سولنکی پر الزام عائد کیا گیا ہے ۔ مہاراشٹر کی وزیر پنکجا منڈے کا گھوٹالہ ، دوسؤ چھہ کروڑ کا چکی اور ایک دوسراگھوٹالہ ، ہزاروں کروڑ کا رمن گھوٹالہ ، پانچ سؤ کروڑ کا چیپس گھوٹالہ ، تاوڑے کا کروڑوں کا گھوٹالہ یعنی گھوٹالہ ہی گھوٹالہ ۔ اتنے سارے گھوٹالوں میں گجرات کے ہیرہ تاجر لال جی بھائی کا گھوٹالہ ۔ جنھوں نے نریندر مودی کا متنازعہ دس لاکھ کا سوٹ نیلام میں چار کروڑ اکتیس لاکھ میں سب سے بڑی بولی لگا کر حاصل کیا تھا ۔ اس محبت کا صلہ انھیں یہ دیا گیا کہ گجرات کے سورت مہانگر نگم پالیکا کے ذریعہ اکوائر کی گئی ان کی 54 کروڑ کی اسپورٹس کلب کی زمین واپس کر دی گئی ۔ ابھی گجرات میں CAG نے پنچائیتی راج نگر پالیکا اور نگر نگم سے متعلق اپنی آڈٹ رپورٹ میں گجرات کی وزیر اعلیٰ آنندی بین پٹیل پر مرکز کے 800 کروڑ روپئے کا حساب کتاب نہیں رکھنے کی بھی شکایت کی ہے ، اور مدھیہ پردیش کے ہزاروں کروڑ کے ویاپم گھاٹالہ اور اس گھوٹالہ پر پردہ ڈالنے کے لئے 43 اموات نے تو پورے ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کو بھی سکتے میں ڈالے ہوئے ہے ۔ ملک کے اندر عوامی سطح پر اور پارلیامنٹ میں عوامی نمائندوں کے ذریعہ جو احتجاج اور شور و ہنگامے ہوئے تھے، وہ تو ہوئے ہی تھے ۔ امریکہ کے’’ دی نیو یارک ٹائمز ‘‘نے اس ویاپم گھوٹالہ کے سلسلے میں بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ بھارت میں کرپشن کس قدر یہاں کی سیاست میں گھل مل گیا ہے ، ویاپم گھوٹالہ اس کی ایک گھناؤنی مثال ہے …..یہ گھوٹالہ بھارت کے ان رائے دہندگان کو بہت مایوس کرے گا ، جنھوں نے نریندر مودی اور ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارتی کو اس توقع کے ساتھ اقتدار سونپی تھی کہ مودی دیش سے کرپشن ختم کر دینگے ۔ لیکن ویاپم گھوٹالہ تو جیسے للت گیٹ اسکینڈل سے ہوڑ لگاتے ہوئے سامنے آیا ہے ۔ یہ دونوں گھوٹالے ان ریاستوں میں ہوئے ہیں ، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار ہے اور مودی دونوں معاملوں میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔‘‘یہ ایک غیر ملکی اخبار کا ایسا تبصرہ ہے ، جس سے ہمارے ملک کا امیج یقینی طور پر مسخ ہو اہے ۔ادھر لگاتار چیخ چیخ کر ملک کا کالا دھن لانے کی بات کرنے والے مالیا جیسے لوگوں کے ذریعہ ملک سفید دھن بھی بہت تیزی سے بینکوں کو چونا لگا کر لے جایا جا رہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہائی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت پوری طرح ملک کا پورا سرمایہ کاپوریٹ کے ہاتھوں دینے پر آمادہ ہے ۔ لوگ بول رہے ہیں تو بولتے رہیں ، انھیں کسی کی پرواہ نہیں ۔
اب ایسے حالات میں ہمارے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کو فکر یہ نہیں ہے کہ ہم غلط ہیں ، فکر یہ ہے کہ ہم کامیاب کیوں ہو رہے ہیں ۔ اب ان کے سامنے کامیابی کا کون سا پیمانہ ہے ، کاش وہ یہ بھی بتا دیتے، جس سے ملک اور بیرون ممالک کے لوگوں کی بیزاری دور ہوتی ۔ (ملت ٹائمز)
( مضمون نگار سینئر صحافی اور بہار اردو اکیڈمی میں ممبر ہیں )

SHARE