ڈاکٹر اسلم جاوید
انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہےUnity is Strength یعنی اتحاد ایک عظیم قوت ہے۔ جب ہم اتحاد امت کی قرآنی توضیح پرروشنی ڈالتے ہیں تو اس سے بھی زیادہ اہم بات سامنے آ تی ہے۔جو مسلم معاشرہ کے موت وحیات کاثبوت دیتی ہے۔قرآن کہتا ہے ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘یعنی ہرجاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ذرا موت کی سائنسی تشریح پر نظر ڈالئے موت کسے کہتے ہیں اور کس انجام تک پہنچ جانے کے بعد آ دمی کو میڈیکل سائنس مردہ قرار دیتا ہے۔یہاں دو چیزیں ہیں جن کا باہم ارتباط زندگی کی نوید سناتا ہے ،جبکہ دونوں کی جدائی اور تفریق کو موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یعنی جب تک ہماری سانس کا رشتہ جسم سے استوار ہے ،ہم زندہ آ دمی ہیں اورقابل توقیر وعظمت جنس ہیں ۔ مگر جیسے ہی جسم سے سانس کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے، ہم مردہ قرار دے دیے جاتے ہیں اورلاش بن چکے آ دمی کو اس کے عزیزو اقربا تک گھر میں جگہ دینے کو مناسب نہیں سمجھتے ،حتی کہ سانس سے محروم انسانی ڈھانچہ کو پیوند خاک بنادیا جاتا ہے۔بس انسانی معاشرہ میں قوموں کی حیات و زیست کو اسی نظام موت وحیات سے بآ سانی سمجھا جاسکتا ہے۔آج ہماراشمار زندہ قوموں میں کئے جانے کے لائق ہے یا نہیں اس کا اندازہ آ پسی اتحادو اتفاق کے فقدان سے لگایا جاسکتا ہے۔مندرجہ بالا سطور کی اہمیت وافادیت اس لئے بھی دوچند ہوگئی ہے کہ بدقسمتی سے ہندوستان میں نریندر مودی کے زیر قیادت بی جے پی جے کے اقتدار میں آ نے کے بعد مسلم دشمن قوتوں نے ملت مرحومہ کو تفر یق کی موت دینے کی خوبصورت سازشیں شرو ع کردی ہیں۔چناں چہ گزشتہ برس پاکستان کے معروف عالم علامہ طاہرالقادری کو ہندوستان لانے اور مولانا کچھو چھوی کے ذریعہ ایک خاص مکتبہ فکر کو راست طور پر دہشت گرد قرار دلوانے جیسی تفریقی سازشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ابھی چند روز قبل ہی مغربی اترپردیش کے ہندی اخباروں میں بی جے پی کے کٹر فرقہ پرست لیڈر سبرامنیم سوامی کے اس بیان کا زورو شور سے چرچہ رہا ہے ،جس انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کرکے انہیں اعدادی برتری کے باوجود کمزور کیا جاسکتا ہے۔یہ سازش مسلمانوں کیلئے کس درجہ منظم ہے اس کا اندازہ محض اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ سوامی کے مذکورہ بیان کے چند دنوں بعد ہی یہ خبر آ ئی کہ دارالحکومت دہلی میں سہ روزہ انٹر نیشنل صوفی کانفرنس 17 تا 20 مارچ آل انڈیا علماء مشائخ بورڈ کے زیر اہتمام منعقد ہوگی۔مسلمانوں کے مختلف مکتب فکر اور مسلک سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کی جانب سے موقع اور حالات کے لحاظ سے مختلف کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ نام نہاد قومی اخبارات قومی دھاروں سے ہم آہنگ عنوانات پر ملی تنظیموں کے زیر اہتمام کانفرنسوں کی خبروں کی اشاعت میں فراخ دلی سے کام لیا ہو۔ خاص طور پر دہشت گردی اور داعش کے خلاف آواز اٹھانے والی ملی تنظیموں کے جلسے جلوس اور کانفرنسوں کو اردو اخبارات کے علاوہ دیگر اخبارات نے شاذ ہی اپنی اشاعت میں جگہ دی ہیں۔مگر کیا وجہ ہے کہ نام نہادصوفی کانفرنس کو ٹی وی چینلوں کے علاوہ ملک کے بڑے اخبارات ،خاص طور پر جن کا تعلق کارپوریٹ گھرانوں سے ہے وہ اس صو فی کانفرنس کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے رہے ہیں۔اس سے بھی مسلمانوں کے شبہات کو تقویت مل رہی ہے کہ جن صحافتی اداروں نے صو فی کانفرنس کو اہمیت دی ہے ،ملک کے مسلمانوں کو اس پر اس لئے زیادہ تشویش ہے کہ وہ سبھی صحافتی ادارے کہیں نہ کہیں موجودہ حکومت کے معاون کہے جاتے ہیں۔ادھر چند معاملے میں ان میڈیا اداروں کی کالی کرتوتیں سامنے بھی آ چکی ہیں۔کنہیا والے معاملے میں زی نیوز جیسے اداروں کی سازشیں طشت ازبام ہوچکی ہیں۔حالیہ صوفی کانفرنس بھی اسی سازشی قوتوں کی پرداخت معلوم پڑتا ہے،جس کا صرف یہی مقصد ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو بدنام کیا جائے اوراس مرحوم ملت کے درمیان اختلافات کی دیوار اور زیادہ دبیز بنا دیا ہے،جو لوگ اس وقت مودی کے دام تزویر میں آ چکے ہیں ان پر ہم کسی بھی قسم کی تنقید کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ممکن ہے ان کی نیتیں درست ہوں ۔مگر ملک کے طول وعرض میں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردانہ سرگر میوں،القاعدہ اور آئی ایس جیسی بدنام زمانہ تنظیموں سے تعلقات کے بے بنیاد الزامات میں گرفتاریوں کے سلسلے کو اگر اس صوفی کانفرنس سے جوڑ کر دیکھئے توجو عواقب سامنے آتے ہیں وہ امت مسلمہ ہند کیلئے کافی بھیانک ہیں۔مولانا کچھوچھوی ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ دہشت گرد صرف وہابی یا دیوبندی ہوا کرتے ہیں۔حالاں کہ ایجنسیوں کی معاندانہ و جابرانہ ٹار چر کے باوجود ان گرفتار مسلم نوجوانوں کو قصوروار نہیں ثابت کیا جاسکا۔ابھی حال ہی میں عدالتوں سے جاری ہونے والے رہائی کے پروانے اس کا پختہ ثبوت ہیں۔ مولاناکچھوچھوی کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں سے مبینہ تعلقات کے الزام میں گرفتار کرتے وقت ملک کی مسلم دشمن ایجنسیاں صرف ایک فرقہ کو نظر انداز کرتی ہیں اور وہ بوہرہ فرقہ ہے ،ورنہ عامۃ المسلمین میں سے کوئی بھی متوسط اور اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوان اس کی زد میں آتارہا ہے۔یہاں مسلک دیکھ کارروائی نہیں کی جاتی۔برادر محترم مولینا یسین اختر مصباحی کو جب ایجنسی والوں نے اٹھایا تھا اس وقت پورے بٹلہ ہاؤ س سے جولینا تک سڑک پر اتر نے والے مسلمانوں نے کسی مسلک کی خاص چادر نہیں اوڑھ رکھی تھی،بلکہ اس وقت سبھی مسلمان اپنے نظریاتی اختلافات پر مٹی ڈال کر شانہ بشانہ کھڑے تھے۔یہی ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ رہی ہے کہ ہمیشہ دشمن طاقتوں کے خلاف کھڑا ہوتے وقت اس قوم نے مسلک کی بنیاد پر کش مکش سے کام نہیں لیا اور سینہ سپر ہوگئے۔
واضح رہے کہ علمائے مشائخ بورڈ یاآ ل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کے خلاف ملک کے مسلمانوں کو شبہات نہیں ہیں کہ مسلمانوں کی یہ تنظیمیں ہی فی نفسہ حکمراں جماعت کے کسی ایجنڈا کا حصہ بن گئی ہیں، بلکہ جس طرح صوفی نظریات سے وابستہ چند افراد کی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ایک غیر متعلق اصطلاح ’’وہابی ازم‘‘ کے خلاف زہر افشانی کی گئی ہے، وہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد اور وجود کیلئے زہر ہلاہل کے مترادف ہے۔ اس صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ خود علماء مشائخ اہل سنت کے باشعور اور دور اندیش ذمہ داروں نے لینا شروع بھی کر دیا ہے۔ 17 تا 20 مارچ کے مجوزہ انٹر نیشنل صوفی کانفرنس کے مقاصد پر جو سوالات کھڑے ہورہے ہیں ان سے پوری کانفرنس کی تیاریاں ہی شکوک و شبہات کے گھیرے میں آ گئی ہیں۔ ’خبروں کے حوالے سے یہ انکشافات ہوئے ہیں کہ آل انڈیا سنی جمعیۃ علماء مہاراشٹراسٹیٹ نے مجوزہ انٹر نیشنل صوفی کانفرنس کی بابت کہا ہے کہ’’ مذکورہ صوفی کانفرنس کو کچھ ایسی طاقتوں کی سر پرستی حاصل ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو مسلک اور عقیدہ کے نام پر آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتی ہے‘‘۔ کانفرنس کے دوران ہونے والے کروڑں کے مصارف ، مندوبین کا فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام و طعام اور متنازع غیر ملکی علماء کی حاضری پر بھی آل انڈیا سنی جمعیۃ علماء نے سوال کھڑے کئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس کانفرانس میں وزیر اعظم نریندر مودی بہ حیثیت مہمان خصوصی شریک ہورہے ہیں۔ صوفی کانفرنس کے منتظمین خود اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ اس کانفرنس کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہے۔ اس کانفرنس کے تعلق سے جو دعویٰ کیا گیاہے کہ صوفی کانفرنس میں ملک اور بیرون ملک سے خانقاہی نظام سے وابستہ افراد شریک ہو رہے ہیں ، اس کی تردید کرتے ہوئے ممبئی کے سر کردہ سنی علماء نے جو بیان جاری کیا ہے اس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اہل سنت کے تین بڑے دینی و علمی مراکز ( بریلوی شریف ، بدایوں شریف، جامعہ اشرفیہ مبارکپور) سے اس کانفرنس میں کوئی شریک نہیں ہو رہا ہے۔ ہمیں کسی کے اقدامات اوراپنی فلاح وصلاح کیلئے کی جانے کوششوں پر اعتراض جتانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔لیکن کسی ایسی سازش کیخلاف جس کے پس پر ملت مسلمہ کے شیراہ کو منتشر کردینے کی پالیسی کارفرما ہوتوہمیں خاموش نہیں رہنا چاہئے،بلکہ اصل صورت حال سے اہل ایمان کو واقف کرا کر سازش کا شکار ہونے سے بچا نا ایک ملی فریضہ ہے(ملت ٹائمز)