مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمن صدیقی ندوی ۔ مقیم دوحہ قطر
کیا مرنے والے ہندوستانی نہیں تھے کیا انھوں نے ہندوستانی قانون سے بغاوت کی تھی کیا وہ بھارت ماتا کے بیٹے نہیں تھے ؟!! آخر ان سے جینے کا حق کیوں چھین لیا گیا آج ہندوستانی مسلمان حیران و پریشان چوراہے پر کھڑا ہے اور یہ چوراہا بھی اس کے لئے محفوظ نہیں، کون جانے کب گؤ دہشت گردوں کی جنونی بھیڑ آکر گھیر لے اور گائے کے نام پر قتل ہونے والوں میں ایک مسلمان کا اور اضافہ ہو جائے !!!! ؎
اڑا ہوں دور تلک گولیوں کی بارش میں
لہو کی جھیل سے نکلا ہوا پرندہ ہوں
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں ہندوستان جیسے بڑے جمہوری ملک میں کسی شخص کو شارع عام پر گھونسوں لاتوں ڈنڈوں اور سلاخوں سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جاتا ہے کیا یہ کوئی ڈراؤنا خواب ہے یا محض کسی فلم کا مفروضہ منظر ہے کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے کہ کسی انسان کو مادر زاد برہنہ کر کے پیروں میں رسی باندھ کر گلی کوچوں میں گھسیٹ گھسیٹ کر پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جائے پھر اس کی برہنہ لاش کو درخت پر لٹکا کر مزید ڈنڈے برسائے جائیں اور ایک ہجوم تماشہ دیکھے ؟! کیا دن دھاڑے کسی کے گھر میں گھس کر مالک مکان کو مار مار کر ہلاک کیا جا سکتا ہے کیا بہو بیٹیوں کی عفت و عصمت کو گھر کے افراد کے سامنے تار تار کرنے کا گھناؤنا فعل اس ترقی یافتہ دور میں اور دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں ممکن ہے کیا کسی سیتا کو برہنہ کرکے گاؤں گاؤں گھما کر تماشہ بنایا جاسکتا ہے کیا کسی انسان کو جیپ کے بونٹ پر باندھ کر گھمانا جائز ہے بلا وجہ غریب خانہ بدوشوں کے جانوروں کو لوٹنا اور ان کے خیموں کو جلانا شریف انسانوں کا وطیرہ ہے ! یہ سارے کے سارے سنگین واقعات نہ صرف ممکن ہیں بلکہ بیرونی ممالک میں مہان بھارت کا چہرا بن چکے ہیں اور ہندوستانیوں کا سر اٹھا کر چلنا محال ہو رہا ہے ظلم و زیادتی وحشت و بربریت کے ان خوفناک و بھیانک مناظر نے عالمی سطح پر ہندوستان میں انسان و احترام انسانیت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں کیا ہمارے ملک کے پڑھے لکھے شریف لوگ اور دانشور حضرات یہ طے کرنے کی زحمت گوارا کریں گے کہ چوپائے کا احترام زیادہ ہے یا انسان کی حرمت و کرامت اولی ہے ؟؟!!
بڑے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ان سنگین و بھیانک واقعات کو انجام دینے والوں کا تعلق صرف ایک مذہب سے ہے جو ہندوستان کا سب سے بڑا مذہب ہے مذہب کے نام پر غنڈہ گردی کے ان شرمناک واقعات سے بہت سے ہندو دانشوروں کے نام وابستہ ہیں جنھوں نے نہ صرف اس منظم گئو دہشت گردی کی پشت پناہی کی ہے بلکہ انتہائی بے شرمی کے ساتھ وہ ان وحشتناک واقعات کی حمایت و وکالت بھی کر رہے ہیں در اصل ان مجرمین کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے یہی وجہ ہیکہ روز بروز ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے کیا ہندوستان کا پڑھا لکھا شریف طبقہ ناپیدہو گیا ہے کیا قیام امن کے لئے قائم کی گئی پولس فورس کمزور و بے اثر ہو چکی ہے یا قصداً اس غنڈہ گردی کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں گئو گردی کی یہ حیوانیت آخر کہاں جا کر تھمے گی گائے اور بیل کے نام پر آخر کب تک انسانوں کا خون بہایا جائے گا ایک مہذب معاشرہ کا چہرا اور کتنا داغدار کیا جائے گا بڑی مشکلوں اور بڑی قربانیوں کے بعد ہمارا ملک بھارت ترقی پذیرممالک کے درمیان سرخرو ہوا تھالیکن موجودہ شرمناک واقعات و حادثات نے ہمیں مہذب ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کے لائق نہیں رکھا ہندوستانی شرافت کا لبادہ تار تار ہو چکا ہے ہندوستانی دانشوری کی روایت دم توڑچکی ہے غیر مقیم ہندوستانی شرمسار ہیں ان کے لئے اپنے ملک کی اس وحشت و بربریت کا دفاع مشکل مسئلہ ہے آخر ان شرمناک انسانیت سوز واقعات کی کیا توجیہ کی جائے کیا دنیا میں کہیں جانور کے بدلے میں انسان کو قتل کرنے کا قانون رائج ہے گائے یا بیل کے قاتل کو واجب القتل آخر کس نے قرار دیا ہے خود ہمارے قانون میں کیا کوئی ایسی دفعہ موجود ہے ؟! اور اگر ہو بھی تو گائے ذبح کرنے والے کو قانون کے حوالے کیجئے قانون اسے جو چاہے سزا دے ایک انگوٹھا چھاپ عام جاہل آدمی گائے کے بدلہ میں انسان کے قتل کا فیصلہ کرنے والا کون ہوتا ہے یہ حق اسے کس نے دیا اب تک جتنے واقعات پیش آئے ہیں ان میں بیف کے شبہ یا محض الزام کے نتیجہ میں کتنے مسلمانوں کو موت کے کھاٹ اتار دیا گیا پچھلے تین سالوں میں ہجومی تشدد کے تقریبا ستر واقعات پیش آچکے ہیں جن میں ۶٥سے زائد قتل ہو چکے ہیں ان میں مسلمانوں کی تعداد ۶۲ ہے زخمی ہونے والوں میں بھی اکثر مسلمان ہیں اور جو زخمی ہیں وہ زخمی نہیں بلکہ زندگی بھر کے لئے معذور ہیں کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے کسی کاپیر اور کسی کی کمر توڑ دی گئی ہے سابق صدر پرنب مکھرجی نے برسوں سے معلق بیف کے متنازع قانون پر دستخط کر کے یہ سارے قتل اپنے نام لکھوا لئے ہیں بیشتر واقعات میں نہ گائے ذبح ہوتی ہے نہ بیف ہوتا ہے بلکہ یہ محض ایک بہانہ ہوتا ہے مسلمانوں کے قتل کا انہیں خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کا ورنہ گولی مار دی جاتی در اصل شارع عام پر لاتوں گھونسوں ڈنڈوں اور سلاخوں سے پیٹ پیٹ کر ایک نہتے مسلمان کا قتل مسلمانوں میں دہشت اور خوف پیدا کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے اسی لئے سوشل میڈیا پر اس ظلم و تشدد کی ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں تاکہ خوف و دہشت کی فضا زیادہ سے زیادہ عام ہو اور مخصوص سیاسی مقاصد حاصل کئے جاسکیں آخر اس حیوانیت کا حل کیا ہے ؟! کیا جوابی تشدد سے خانہ جنگی کو ہوا دی جائے یا قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اس کا حل تلاش کیا جا ئے قا نونی دائرے کی بات تو بظاہر لا حاصل ہے کیونکہ جس قانون کے تحت کرنل پروہت سادھوی پرگیہ اوما بھارتی سوامی اسیما نند اور امیت شاہ کو گرفتار کیا گیا تھا موجودہ حکومت نے ان قاتلوں اور مجرموں کو نہ صرف رہا کر دیا ہے بلکہ باعزت بری کر دیا ہے ؎
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرو
تمام شہر ہی پہنے ہوئے ہے دستانے
وینکیا نائڈو , ساکشی مہاراج ,أدتیہ ناتھ یوگی, نریندر مودی, أمیت شاہ سب دستانہ بدست ہیں کسی کے پاس وزارت کا دستانہ ہے کسی کے پاس صدارت کا اور کسی کے پاس عدالت کا پوری مسلم قوم کو خوف و دہشت کی نفسیات میں مبتلا کر دیا گیا ہے یہی وجہ ہیکہ مسلمانوں کی طرف سے ہندوستان گیر سطح پر کوئی زبردست احتجاج رونما نہیں ہو سکامسلم تنظیموں مسلم اداروں اور بعض مسلم شخصیات کی طرف سے جا بجا احتجاج اورمظاہرے تو ہوئے لیکن جس وقت آسام میں پہلے مسلمان کو ہجومی تشدد میں مارا گیا تھا اس وقت یا کم از کم راجدھانی دہلی کی ناک کے نیچے دادری میں جب اخلاق کی جان لی گئی تھی اسی وقت ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑے پیمانہ پر دلتوں گوجروں اور پٹیلوں کی طرح کا زبردست احتجاج و مظاہرہ کیا گیا ہوتا تو ہجومی تشدد میں ۶۰/ ۶۲ مسلمان نہ مارے جاتے اور ظالموں کے حوصلے اتنے بلند نہ ہوتے مسلمان ڈر اور خوف کا شکار ہو گئے ہیں اس کیفیت سے باہر نکلنا ضروری ہے ؎
اگر آج ذلت کو سہ جاؤ گے تم یہی حادثہ پھر لگا تار ہو گا
اگر اب نہ جرأت کا اظہار ہو گا تو گھر سے نکلنا بھی دشوار ہو گا
یہ ہماری قومی غیرت و حمیت کی توہین ہے اس ملک میں یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ہماری خاموشی شرافت اور امن و آشتی کے مزاج کا غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اقدامی حکمت عملی اختیار کریں اور دفاعی طاقت و قوت کا مظاہرہ کریں مد مقابل کے لئے لقمہ ء تر نہ ثابت ہوں بے خوفی اور مقابلہ کی جرأت ہی اس ذلت آمیز موت کا واحد علاج ہے ملک میں امن و سلامتی اور قانون کی بالا دستی کو قائم رکھنا اور احترام انسانیت کی فضا بحال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ظالم کا ہاتھ پکڑنا اور مظلوم کی مدد شرعی تقاضہ بھی ہے اور ہمارا قومی و ملی فریضہ بھی یہ اس ملک کی امن و سلامتی کا مسئلہ ہے آخر اس ظلم کے خلاف ہم میدان عمل میں کیوں نہیں آتے جواب نہ ملنے کی وجہ سے ہی بزدل شیر ہو رہے ہیں اور ظالموں کا حوصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے قانون کے رکھوالوں کا تجربہ ہو چکا مظلوموں پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں اور فریادی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں آخر ہم یہ قیامت کب تک جھیلیں گے ؟! ؎
خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو
مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک ملک کے کسی حصہ میں مسلمان کی جان مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ان کے مذھب پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے مساجد کی بے حرمتی کی جاتی ہے اذان پر پابندی کا مطالبہ ہے قرآن کریم کو پیروں سے روندا اور جلایا جاتا ہے فسادات کے بہانے کاروباری وسائل تباہ و برباد کر دئیے جاتے ہیں گھر واپسی کے نام پر ارتداد کا مطالبہ ہے بھارت ماتا کی جئے بولنے پر مجبور کیا جاتا ہے بچوں کو اسکول میں سوریہ نمسکار کرایا جاتا ہے تعلیم و تربیت کے ماتھے پرزعفرانی ٹیکہ لگا دیا گیا ہے وندے ماترم گانے پر ملک سے وفاداری کی سند دی جاتی ہے ورنہ باغی قرار دیا جاتا ہے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں روزگار کے دروازے ہمارے لئے بند ہیں اچھے علاقوں میں گھر اور فلیٹ کی بکنگ نہیں دی جاتی تار یخ مسخ کی جا رہی ہے مدارس دینیہ نشانہ پر ہیں جدید تعلیم یافتہ مسلم نو جوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے پبلک مقامات پر داڑھی ٹوپی والوں کو بد تمیزی اور گالم گلوج کا سامنا ہے ریلوں اور بسوں میں جبراً ا ریزرو سیٹ چھین لی جاتی ہے برقع پوش شریف مسلم خواتین کے ساتھ بیہودگی کی جاتی ہے اسلامی وراثتی قوانین اور طریقہء طلاق کو رد کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
مسلم پرسنل لاء میں جبری تبدیلی کا مطالبہ ہے یکساں سول کوڈ کی دھمکی دی جارہی ہے حالانکہ دیگر حل طلب ملکی مسائل کم نہیں ہیں معیشت مسلسل رو بہ زوال ہے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ملک کی دیگر مختلف اقلیتیں اور دلت ظلم و ستم کا شکار ہیں سیکولرزم کو فرقہ واریت کا زہر پلایا جا رہا ہے جمہوریت کا دم نکل رہا ہے فسطائیت انسانیت کا گلہ کاٹ رہی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے اس سے زیادہ برا وقت کبھی نہیں آیا ؎
ائے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
دعا مومن کا ہتھیار ہے اس لئے دعا اور رجوع الی اللہ کا بھی اہتمام رہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ اور فکر کا جائزہ لیں اپنی حکمت عملی تبدیل کریں یہ ملک ہمارا ہے ہماری قیادت میں آزاد ہوا ہے یہاں امن و امان کو قائم رکھنا اور قانون کی بالا دستی کے تصور کو بر قرار رکھنا ہمارا قومی و ملی فریضہ ہے ہمیں اپنے قومی تشخص تہذیب و تمدن اور اسلامی شناخت کے ساتھ جینا ہے اور خود کو محفوظ و سلامت بھی رکھنا ہے ورنہ باطل نظریات کی موجودہ آندھی ہمارے سارے خیمے اکھاڑ پھینکے گی اسی لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی مسلم شناخت پر اصرار کریں اسلامی کردار و افکار پر مضبوطی سے قائم رہیں اسلامی عبادات و عقائد اور اسلامی طرز حیات پر سختی سے کار بند رہیں کسی بھی سودے بازی اور سمجھوتے پر آمادہ نہ ہوں ملکی حالات کے پیش نظر اپنے تحفظ و بقا کی دور رس منصوبہ بندی کریں اور اپنے تحفظ و بقا کی خاطرہر قسم کے اقدامی ودفاعی آلات و سائل کا اہتمام رکھیں اور دیگر حفاظتی ذرائع اختیار کریں یہ وقت کا تقاضہ بھی ہے اور اپنے تحفظ و بقا کی ضمانت بھی کیونکہ زمانہ قیامت کی چال چکا ہے ؎
اٹھو کہ حشر ہو گا برپا نہ پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا