معصوم مرادآبادی
شیر میسور ٹیپو سلطان کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ وہ ایک انتہائی بہادر ، جرأت مند اور جانباز حکمراں تھے۔ انہوں نے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے میدان جنگ میں شہادت پائی اور بہادری کی ایک انوکھی تاریخ رقم کی۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے حکمرانوں کی مثال کم ہی ملتی ہے، جنہوں نے جنگ کے میدان میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہو۔ 1799 میں سرنگا پٹنم کے مقام پر انگریزوں کے ساتھ ٹیپو سلطان نے جس بہادری کے ساتھ جنگ کی تھی، اس کا اعتراف خود انگریز فوج کے کمانڈر نے بھی کیا تھا اور ٹیپو سلطان کی بہادری اور جواں مردی سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ’’ انہوں نے ایک شیر کی طرح جنگ لڑی۔‘‘ ٹیپو سلطان کا یہ قول بھی تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ ” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔“ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ حکمراں طبقے نے اقتدار کے گھمنڈ میں ملک کی تاریخ سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کی جو شرانگیز مہم شروع کر رکھی ہے، اس میں ٹیپو سلطان جیسا بہادر بادشاہ بھی ان کے نشانے پر ہے۔ مسلم بادشاہوں کو بدنام کرنے اور انہیں تاریخ کے سینے پر بوجھ قرار دینے کے لئے پوری بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ انتہائی مکروہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں زہر بھرا جارہا ہے۔ سنگھ پریوار کے عام کارکنوں کا تو کہنا ہی کیا ، خود مرکزی کابینہ میں شامل وزیر بھی ایسی بے ہودہ زبان بول رہے ہیں کہ ان کے انسان ہونے پر ہی شبہ ہونے لگتا ہے۔ ٹیپو سلطان کے خلاف ایک ایسا ہی زہریلا بیان مودی کابینہ کے نئے نویلے وزیر اننت کمار ہیگڑے نے دیا ہے۔ اپنی ذہنی پراگندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیپو سلطان جیسے باکردار بادشاہ کو قاتل ، مذہبی جنونی اور اجتماعی آبروریزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ہیگڑے کی زبان میں کوئی لکنت پیدا نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ ایک ایسے انسان کی کردار کشی کررہے ہیں، جو ایک سچا اور کھرا انسان تھا اور جس نے اپنی دھرتی کی حفاظت کی خاطر انگریزوں کے ساتھ ایک دو نہیں پوری چار جنگیں لڑیں۔
اننت کمار ہیگڑے نے مذکورہ بیان کرناٹک کی صوبائی حکومت کے اس دعوت نامے کے جواب میں دیا ہے جو انہیں آئندہ 10نومبر کو ٹیپوسلطان کے یوم پیدائش کی تقریب میں مدعو کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔ اس دعوت نامے کے جواب میں ہیگڑے نے ٹوئیٹ کیا کہ ’’میں نے حکومت کرناٹک سے یہ کہہ دیا ہے کہ مجھے اس شخص کی ستائش میں منعقدہ تقریب میں مدعو نہ کیاجائے جو قاتل اور مذہبی جنونی کے طور پر جانا جاتا ہے۔‘‘ اس سلسلے میں ہیگڑے نے ریاستی حکومت کو ایک مکتوب بھی روانہ کیا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ کو یہ بتادیں کہ بظاہر شکل وصورت سے اچھے خاصے نظر آنے والے اننت کمار ہیگڑے ایک سیاہ دل و دماغ کے مالک ہیں۔ وہ جب بھی زبان کھولتے ہیں تو اس سے زہر ہی برآمد ہوتا ہے۔ ٹیپو سلطان سے تو انہیں خدا واسطے کا بیر ہے۔ گزشتہ برس بھی جب صوبائی حکومت نے ٹیپو سلطان کی یاد میں تقاریب منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا توان تقاریب کو درہم برہم کرنے کی دھمکی دینے کے سلسلے میں ہیگڑے کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ مرکزی کابینہ میں شامل نہیں تھے بلکہ کرناٹک سے منتخب لوک سبھا ممبر تھے۔ اننت ہیگڑے کو ٹیپو سلطان ہی نہیں بلکہ اسلام سے بھی خدا واسطے کا بیر ہے اور وہ اپنے اسلام دشمن بیانات کے لئے بھی بدنام ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں کہاتھا کہ’’ دنیا میں جہاں جہاں اسلام اور مسلمان ہیں، وہاں وہاں دہشت گردی ہے۔‘‘ ٹیپو سلطان کے خلاف ہیگڑے کی مہم دراصل آئندہ برس کرناٹک میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کا ایک حصہ ہے۔ کیونکہ بی جے پی نے کرناٹک میں جب بھی الیکشن لڑا ہے تو فرقہ وارانہ موضوعات کو ہوا دی ہے اور مسلم دشمنی پر اپنی سیاسی عمارت تعمیر کی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کرناٹک میں بی جے پی نے اپنے قدم جمانے کے لئے ہگلی کی عید گاہ کو متنازع بنانے کا کارنامہ انجام دیا تھا اور وہاں فرقہ وارانہ صف بندی کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی منافرانہ سیاست کے بل پر بی جے پی کو جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں پہلی بار اقتدار حاصل ہوا تھا۔ فی الحال کرناٹک میں کانگریس کی حکومت ہے اور بی جے پی وہاں ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڑے کے بیان سے واضح ہے کہ بی جے پی اگلے اسمبلی انتخابات میں ہندو کارڈ کھیلنے کا آزمودہ نسخہ استعمال کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی یہ ہے کہ ٹیپو سلطان کی جینتی پر ہونے والا پروگرام اتنا ہنگامہ خیز ہو کہ اس معاملے میں کانگریس کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑجائے۔ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات آئندہ سال مارچ، اپریل میں منعقدہ ہوںگے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ابھی ٹیپو سلطان کے خلاف اننت کمار ہیگڑے کی زہر افشانی کا زور کم بھی نہیں ہوا تھا کہ صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نے ٹیپو سلطان کی تعریفوں کے پل باندھ کر بی جے پی کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ کرناٹک اسمبلی کی 60 ویں سالگرہ تقریب میں مہمان خصوصی کے طورپر شریک ہوکر انہوں نے کہاکہ ’’ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے لڑتے ہوئے ایک ہیرو کی طرح جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے اپنے وقت میں ترقیاتی کاموں کی قیاد ت کی۔ انہوں نے جنگوں میں میسور راکٹ کا استعمال کیا تھا۔ اسی تکنیک کا استعمال بعد کو یوروپ کے لوگوں نے کیا۔‘‘ ظاہر ہے صدر جمہوریہ کے اس خطاب سے بی جے پی کے ان لیڈروں کو دھچکہ لگا ہے جو ٹیپو سلطان کا نام تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی سازش کررہے ہیں۔ صدر جمہوریہ ماضی میں بی جے پی کے سینئر لیڈر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ٹیپو سلطان کو مطعون کرنے والے بی جے پی لیڈروں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ اننت کمار ہیگڑے کی زہر افشانی کے خلاف ٹیپو سلطان کے وارثین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہیگڑے نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ کلکتہ میں مقیم ٹیپو سلطان کے وارثین میں سے ایک صاحبزادہ بختیار علی نے کہاکہ وہ اس بیان کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائیں گے۔ واضح رہے انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی اولادوں میں سے پرنس منیرالدین اور پرنس غلام محمد کو میسور بدر کرکے کلکتہ پہنچا دیا تھا۔ ان کی اولادوں میں سے ایک بختیار علی ٹیپو سلطان کی چھٹی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ پیشے سے وکیل ہیں۔ ٹیپو سلطان کو ہندوؤں کا دشمن اور مندروں کو توڑنے والا قرار دیتے وقت بی جے پی کے لیڈران یہ بھی نہیں سوچتے کہ ٹیپو سلطان کے سپہ سالاروں میں اچھی خاصی تعداد ہندوؤں کی تھی اور ٹیپو سلطان نے اپنی شہادت سے قبل اپنے بیٹے کا ہاتھ اپنے ایک ہندو سپہ سالار کے ہاتھ میں دے کر اس کی سرپرستی کی ذمہ داری سونپی تھی۔