ڈاکٹر سید احمد قادری
سیدمسعودالرب بھی اپنی پوری زندگی اردو صحافت کی خدمات انجام دیتے ہوئے اور اردو صحافت ان کے لئے اچھے دن لائے گی، اس کی امید لئے آخر کار کئی ماہ بیمار رہ کر 28اکتوبر17ءکی شام پٹنہ میںاپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ 29 اکتوبر کو بعد نماز ظہر درگاہ شاہ ارزاں کی مسجد کے باہر ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور شاہ گنج، پٹنہ میں انھیں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
سیدمسعودالرب کی پیدائش یکم دسمبر۸۴۹۱ئ کو پٹنہ کے داناپور میں ہوئی تھی ۔ ان کے والد کا نام الحاج سیدعبدالرب ہے۔ سیدمسعودالرب نے ایک متوسط زمیندار گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔یہ گھرانہ 1947ءکے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کے دوران تباہ وبرباد ہوکرداناپور شہر میں رہائش پذیرہوگیاتھا سیدمسعودالرب کے داداحکیم حافظ مولاناسیدفضیلت حسین خادم پھلواری شریف سے متصل دھنوت بستی کے رئیسوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔وہ نہ صرف دینی علوم پردسترس رکھتے تھے بلکہ انہوںنے کلکتہ یونیورسیٹی سے وکالت کاامتحان بھی پاس کیاتھا۔حالانکہ انہوں نے اپنی شرعی زندگی کی مناسبت سے وکالت کاپیشہ اختیار نہیں کیا، لیکن اپنی علمی صلاحیتوں کی بناپر اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔ انگریزوں نے انھیں بنگال قحط کے زمانہ میںسپرٹنڈنٹ Famineمقررکیاتھا بعد میں وہ انسپکٹرآف اسکولس بہاراینڈ اڑیسہ بھی بنائے گئے لیکن تحریک موالات کے شروع ہوتے ہی انہوںنے انگریزوںکی ملازمت سے قطعی طورپراپناتعلق منقطع کرلیاتھا۔
مسعودالرب کو اس بات پرفخر تھاکہ وہ آزادہندوستان میںیعنی یکم دسمبر 1948کو پیداہوئے تھے ۔کچھ ہوش سنبھالاتوپتہ چلاکہ ان کے والدین جس مکان میں رہتے ہیںاس مکان میں ان کی نانی اور ماموں شہباز حسین بھی رہتے ہیں۔ ان کا نانیہال داناپور سے جنوب مغرب میں واقع ایک گاوں جمسوت میں تھا ۔نانا ریلوے میں چیف انجینئرکے عہدے پرفائز تھے اوردوران ملازمت ہی دنیاسے رخصت ہوگئے تھے۔ان کے زیادہ تر دادیہالی اور نانیہالی رشتہ دار ترک وطن کرکے پاکستان جاچکے تھے ۔کتب بینی کاشوق انہیں اپنے والدسیدعبدالرب سے وراثت میںملاتھا جواس وقت پٹنہ یونیورسیٹی میںاکاو ¿نٹنٹ کے عہدے پرفائزتھے اور ہردن داناپور سے پٹنہ آیا جایاکرتے تھے ۔اگریہ کہاجائے کہ صحافت کاشوق انہیںنانیہالی ترکہ میں ملا تومبالغہ نہ ہوگا کیونکہ چھوٹے ماموں شہبازحسین کایہ محبوب مشغلہ تھا۔ معروف صحافی غلام سرورمرحوم سے بے حد نزدیکی دوستی کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ پٹنہ کے کئی اخبارات سے منسلک رہے۔ غلام سرورنے شہبازحسین کے ساتھ مل کر ہفتہ وار”سنگم “کاداناپور سے اجرا کیاتھا ۔ یہ اخبار دونوں کی مشترکہ ملکیت میں کافی دنوں تک جاری رہا ۔بعدمیں شہبازحسین بی ایس کالج داناپور میں بحیثیت اردو لکچررمقرر ہو گئے تھے جس کے بعد اخبارسے ان کاتعلق ختم ہوگیا۔ چندبرسوں کے اندر ہی شہباز حسین حکومت ہندکے ماہنامہ”آج کل“میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طورپر سرکاری ملازمت میںشامل ہوگئے ۔جس کے بعدوہ اس رسالہ کے ایڈیٹراور پھرترقی اردو بورڈ کے پرنسپل پبلی کیشن افسر وغیرہ بنائے گئے۔شہبازحسین انھیں باربار نئی دہلی بلاتے رہے اوریہ یقین دہانی بھی کراتے رہے کہ نئی دہلی میںجس اردو یاانگریزی اخبار میں کام کرناپسند کریں گے وہ یہ ملازمت دلاسکتے ہیں لیکن اپنی خرابی صحت کی وجہ سے وہ کبھی نئی دہلی کی تیزرفتار زندگی میں شامل ہونے کی ہمت نہ کرسکے۔
پٹنہ مسلم ہائی اسکول میں سیدمسعودالرب کی تعلیم جاری رہی جہاںسے انھوں نے 1961ء میں فرسٹ ڈویژن سے میٹرک پاس کیاتھا۔ اس درمیان انکے والدکاتبادلہ بہاریونیورسیٹی مظفرپور کردیا گیا تھا اسلئے انھوں نے لنگٹ سنگھ کالج میں ایڈمیشن لیااور وہاں سے پری یونیورسیٹی کاامتحان بھی امتیازی نمبر سے پاس کیا۔ایک سال کے اندر ہی والدصاحب کو دوبارہ پٹنہ یونیورسیٹی بلالیا گیا ۔جس کے باعث انھوں نے سائنس کالج پٹنہ میںبی ایس سی پارٹ ون میں داخلہ لیا وہاں سے پارٹ ون پاس کرکے کیمسٹری آنرس کے کورس میں شامل ہوئے ،لیکن ایک سال کے بعد ہی طرح طرح کی بیماریوں نے آدبوچا جس کے نتیجہ میں سائنس کی تعلیم چھوڑ کر پٹنہ کالج میں انگلش آنرس کاکورس جوائن کرلیا۔ خرابی صحت کی بناپر ان کی زندگی میں اتنی پریشانیاں آئیں اوراتنی مشکلات انھوں نے جھیلیں کہ ان کے اندر احساس محرومی نے گھر کر لیا ، اور وہ کم گو اور تنہائی پسند ہوگئے۔ 1981ءمیں روزنامہ ”قومی آواز“ پٹنہ سے صحافتی زندگی کا آغاز کیا اور صحافت کوہی ذریعہ معاش بنائے رہے۔ 1992ءمیں”قومی آواز“ کی اشاعت بندہونے کے بعد پٹنہ سے شائع ہونے والے دیگر کئی اخبارات پندار، ایک قوم اورصدائے عام کے شعبہ ادارت سے منسلک رہے۔اس کے علاوہ دوردرشن پٹنہ کے اردونیوزسروس سے کیزوّل ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کرنے کا انھیں موقع ملا، جو 2012 تک جاری رہا۔ 1994ء میں پٹنہ سے ہی شائع ہونے والے روزنامہ” انقلاب جدید“ اور پھر 1998 میں روزنامہ” سنگم “کے شعبہ ادارت میں شامل ہوئے۔حال کے دنوں وہ پٹنہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ”پندار“کی ادارت میںشامل رہے اوراپنی صحافتی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ،اپنے اداریوں دیگر کالموں سے کوعوام کے درمیان مقبول رہے۔ افسوس کہ زندگی میں انھیں ، ان کی صحافتی خدمات کے لئے جو اعزاز ملنا چاہئے تھا ، وہ نہیں ملا ۔ اب دیکھنا ہے کہ مرنے کے بعد ان کی صحافتی خدمات کا اعتراف کس طرح کیا جا تا ہے۔ کچھ اور نہیں تو کم از کم ان کے صحافتی کالموں اور دیگر مضامین کو ہی مرتب کر شائع کر دیا جائے اور ان کے پسماندگان کے بہتے آنسو پوچھ دیا جائے ،تو سیدمسعودالرب مرحوم کی روح ضرور خوش ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا اب اچھے اور با کردار لوگوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ پاک سیدمسعودالرب مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭
رابطہ: 09934839110