ممتاز قادری شہیدؒ …… کشتگانِ خنجر تسلیم را

ممتاز قادری شہیدؒ …… کشتگانِ خنجر تسلیم را

عبد الستار اعوان
عبد الستار اعوان

احوال عصر: عبد الستار اعوان
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کرہ ارض کی فضائیں گستاخان رسالت کے غلیظ وجود سے متعفن ہوئیں ‘ عاشقان مصطفیؐ نے آگے بڑھ کر معاشرے کو ان کے غلیظ وجود سے پاک کرڈالا اور خود تختہ دار کی رونقیں بڑھاتے چلے گئے۔ طلوع اسلام سے لے کر آج تلک شمع رسالت ؐکے پروانوں کی کوئی کمی نہیں رہی ۔ بلاشبہ رسالت مآب ؐ کایہ زندہ و جاوید معجزہ ہے کہ جب بھی کسی ناہنجار نے گستاخی کا ارتکاب کیا ختمی مرتبتؐ کے کفن بردوش دیوانے اٹھے اور ظلمتِ دہر میں ’’آبروئے ما‘ زِ نامِ مصطفیؐ است‘‘ کے چراغ روشن کرتے ‘فتح و ظفر کے پھریرے لہراتے اندھیروں کو مٹاتے چلے گئے ۔ نامو س رسالت ؐ پر مرمٹنے والوں کی تعداد کا اندازہ آج تک نہیں ہو سکا کیونکہ اس مقدس ترین مشن پر قربان ہونے والوں کی فہرست مرتب کرنا گویا سمندر کو کوزے میں بند کرناہے۔
عہدِ رسالت ؐ میں جب ابی بن خلف نے گستاخی کا ارتکاب کیا تو جنابِ نبی کریم ﷺ نے اسے جہنم واصل کیا ۔بشر منافق نے یہ مذموم حرکت کی تو سیدنا فاروق اعظمؓ نے اس کا سر تن سے جدا کرڈالا ۔عقبہ بن ابی معیط اس ناپاک جسارت کا مرتکب ہوا تو حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ نے اسے حرفِ غلط کی طرح مٹاڈالا۔امیہ بن خلف اٹھاتو حضرت بلال حبشیؓ سامنے آئے۔عصماایک یہودی عورت نے آقائے مدنی ؐ کی مطہر و معطر ذات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی تو ایک نابینا صحابی عمیر بن عدیؓ نے آگے بڑھ کر اسے ہلاک کر دیا ۔
یہ قانون فطرت ہے کہ جب گستاخ رسول ابورافع ہوتو اس کے سامنے حضرت عبد اللہؓ ۔۔۔مالک بن نویر ہ ہو تو خالد بن ولیدؓ ۔۔۔ریجی نالڈ (عیسائی گورنر)ہو تو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ۔۔۔یوحناپادری ہو تو قاضی اندلس ۔۔۔راجپال ہوتو غازی علم الدینؒ ۔۔۔نتھو رام ہو تو غازی عبد القیومؒ ۔۔۔رام گوپال تو ہو غازی مرید حسینؒ ۔۔۔چرن داس ہو تو غازی میاں محمد ؒ ۔۔۔۔شردھانند ہوتو غازی عبد الرشیدؒ ۔۔۔چنچل سنگھ ہوتو غازی عبد اللہؒ ۔۔۔میجر ہر دیال سنگھ ہو تو غازی معراج دین ؒ ۔۔۔چوہدری کھیم چند ہو تو غازی منظورحسینؒ ۔۔۔جرمن اخبار دی ویلٹ کاگستاخ صحافی ہو تو غازی عامرعبد الرحمن چیمہؒ ۔۔۔اپل سنگھ ہو تو غازی غلام محمد ؒ اورجب سلمان تاثیر جیسا گورنر ایک گستاخ رسول آسیہ مسیح کی وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ توہین رسالت ایکٹ کو’’ کالاقانون‘‘ کہے تو غازی ممتاز قادریؒ پیدا ہوتا ہے ۔غرض عہد رسالت ؐ سے لے کرآج تک جو بھی گستاخ اٹھا اسے جہنم واصل کرنے کے لئے شمع رسالت ؐ کے پروانے قطار اندر قطار آتے گئے ۔
میں سوچ رہا تھا کہ ممتاز قادری ابھی جوان تھا ، اس کی بھی امنگیں اور آرزوؤئیں تھیں، اس کے بھی خواب تھے ، اس کی بھی دنیاوی خواہشات تھیں ، ابھی اس کے دنیا کی چمک دمک میں کھو جانے کے دن تھے ، اسے بھی اپنی زندگی‘ جوانی پیاری تھی مگر جس وقت اس کے کانوں میں ایک گورنر کے یہ الفاظ پڑے کہ توہین رسالت کالاقانون ہے ۔ عدالت کی سزایافتہ گستاخ رسول آسیہ مسیح بے گناہ ہے ‘پھر اس کے سامنے یہ سب کچھ بے معنی ہو کر رہ گیا۔ جب ممتاز قادری ؒ نے دیکھا کہ ایک اسلامی ملک میں اس کے ملجاوماویٰ نبی کریم ؐ کی شان اقدس میں گستاخی کرنیوالی ایک ملعونہ کی سرعام وکالت اقتدارکے ایوانوں سے کی جا رہی ہے تو اس کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون چھن گیا۔ممتاز قادری ؒ سوچتا تھا کہ وہ بروزِ محشر دربارِحبیب ؐمیں کون سا چہرہ لے کر جائے گا؟وہ اپنے پیارے آقا ؐ کوکیا کہے گا کہ میرے سامنے آپ ؐکے گستاخ اور ان کے وکیل دندناتے رہے اور میں بے بسی سے انہیں تکتا رہ گیا۔۔ ؟اگرمیں اپنی سرزمین پر بھی ناموس رسالت ؐکا تحفظ نہیں کرسکتا تو پھر مدینہ منورہ میں حاضری اوربروزِ قیامت ان کے دستِ مبارک سے حوض کوثر کی امید کیونکر رکھ سکتا ہوں؟بس یہی وہ مقام تھا جب ممتاز قادری ؒ کودنیاوی رنگینیوں میں دلچسپی رہی نہ اسے زندگی اور حسین جوانی پیاری رہی ۔ وہ عشق رسالت ﷺکے اس اعلیٰ وارفع درجے تک جا پہنچا تھا جو ہر ایک کا مقسوم نہیں۔جب بھی ’’کالاقانون ‘‘اور آسیہ مسیح کی ’’بے گناہی ‘‘کے الفاظ اسے یاد آتے تو اس کی آنکھیں شعلے اگلنے لگتیں، عشق رسالت ؐجوش مارنے لگتا، رگیں تن جاتیں، خون کھولنے لگتااور اس کا رُواں رُواں جذبہ ایمانی سے تھرتھرانے لگتا ۔
بتایا جاتا ہے کہ وقوعہ کے روز شمع رسالت ؐ کے اس پروانے کی چھٹی تھی مگر اس کے باوجود اس نے افسر سے سفارش کرکے اپنی ڈیوٹی لگوائی۔نمازِ عصر ادا کی ‘اپنی کمانڈو وردی زیب تن کی ، رائفل سنبھالی اور محمد عربی ﷺ کا یہ سچا عاشق گورنر کے سرپر جا پہنچا ۔کہتے ہیں کہ ممتاز قادریؒ نے بھی وہی کام کیا جو اس سے قبل لاکھوں عشاق رسالت ﷺ کرتے چلے آئے ۔یعنی گورنر سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے یہ الفاظ کہے ؟ جونہی گورنر کی زبان سے ہاں نکلی اس کی گن شعلے اگلتی چلی گئی ۔ پورے ملک میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔۔۔۔ریاستی اداروں نے پوزیشنیں لے کر غازی ممتاز قادریؒ کو گھیرے میں لینا چاہا مگر قربان جائیے ناموس رسالت ﷺ کے اس محافظ پر‘ اس نے نہایت اطمینان سے جواب دیا : و ہ ہتھیارپھینک رہا ہے اور اپنی گرفتار ی پیش کرتا ہے ۔ ابتدائی تحقیقات میں بیان دیتے ہوئے غازی ممتا ز قادریؒ نے کہا تھا :میں نے عشق رسالت ﷺ سے لبریزہو کر اور نہایت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایااور اب میں محمد عربی ﷺ کے ناموس پر جان قربان کردینا سعادت سمجھتا ہوں ۔ بتایا جاتاہے کہ اس عاشق رسولؐ نے بھی اپنے پیش روؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آخری وصیت میں کہا: ’’مجھے کوئی ملال ، پشیمانی نہیں،میں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ آقا مدنی ؐ میرا انتظار فرما رہے ہیں۔ میری شہادت کے بعد کسی قسم کے احتجاج اور جلوسوں سے اجتناب کیا جائے ۔پھانسی کے وقت میں خود تختہ دار تک چل کر جاؤں گا ۔۔۔ میرے سر کو کالے کپڑے سے نہ ڈھانپا جائے اور عمامہ میرے سر پر رہنے دیا جائے ،میری آنکھوں پرپٹی نہ باندھی جائے ‘‘۔ پھر چشم فلک نے منظر دیکھا کہ 29فروری2016ء کی صبح پانچ بجے یہ عاشق رسول ؐسفید اجلا لباس پہنے ،سر پر عمامہ اور چہرے پر سنتِ رسول ؐسجائے نہایت فخر و انبساط کے ساتھ چلتے ، ہنستے مسکراتے، شاداں و فرحاں آقائے مدنی کریم ؐ کا کلمہ پڑھتے پھانسی کے پھندے پر جھول کر ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پا گیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو یہ پیغام دے گیا کہ ؂
نماز اچھی‘حج اچھا‘روزہ اچھا ‘زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود ان کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحاؐ کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
لیکن دوسری جانب ایک اسلامی ملک میں عاشق رسولؐ کو تختہ دار پرلٹکادینا اس بات کی علامت ہے کہ ہم من حیث القوم زوال کے اندھے کنویں میں جا گر ے ہیں۔
پھر جس انداز سے الیکٹرانک میڈیا نے قادری شہیدؒ کی پھانسی اور نمازِ جنازہ کی تفصیلات سے لوگوں کو بے خبر رکھنے کی بھرپور کوشش کی یہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے ۔ شرمین عبید ،ملالہ اور ثانیہ مرزا جیسے چپڑ قناتیئے کرداروں پر طویل مباحثے ، مذاکرے کرنے والے الیکٹرانک میڈیا نے ثابت کر دیا کہ وہ آج بھی مغرب کے گوشہ عاطفت میں پل رہا ہے‘مغرب کا غلام ہے اور یہ آزاد ہے تو صرف اسلام کے نام لیواؤں کے خلاف زبان درازی کرنے میں آزاد ہے ۔یہ مغربی غلامی کا شاخسانہ ہی تو ہے کہ جس الیکٹرانک میڈیا کو موم بتی مارکہ این جی اوزکے درجن بھرافراد کسی چوراہے پر میسر آجائیں تو یہ کئی کئی دن کی نشریات انہی کے نام کر دیتا ہے اور ان چند لوگوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا مگر ایک عاشق رسول ؐکی نمازِ جنازہ میں دس لاکھ افراد راولپنڈی جیسے شہر میں شریک ہوں تو اس کی آنکھوں پر چربی چڑھ جاتی ہے اور اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ مگر ممتاز قادری ؒ کو جو مقام اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیؐ کے صدقے دیا وہ اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے کہ دجّا لی میڈیا الٹا بھی لٹک جائے تو بھی اس کے مرتبے کو رتی برابر کم نہیں کرسکتا‘اس لئے کہ جس نے محض اللہ اور اس کے رسول ؐ کی رضا کی خاطر جان دی ہو ‘اللہ ہی اس کا رتبہ بلند کرنے والا ہے ۔ ممتاز قادری کل بھی زندہ تھا‘آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک اس کا نام جگمگ جگمگ کرتا رہے گا اور دنیا اسے اکیسویں صدی کے غازی علم دین شہید ؒ کے نام سے یاد کرتی رہے گی ۔
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں ازغیب جان دگر است
جو لوگ (اللہ کی) تسلیم و رضا کے خنجر سے قتل ہو جاتے ہیں ‘انہیں ہر زمانے میں غیب سے زندگی عطا کر دی جاتی ہے(ملت ٹائمز)

SHARE