بابری مسجد پر سودے بازی

خبر درخبر(527)
شمس تبریزقاسمی
بابری مسجد کی ملکیت کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے ،5 دسمبر2017 سے سماعت شروع ہورہی ہے ،اس سے قبل 2011 میں الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ دونوں فریق کی جانب سے مسترد کیا جاچکاہے ،سپریم کورٹ میں فیصلہ پر سماعت سے قبل عدالت سے باہر اس کی سودے بازی شروع کردی گئی ہے ، کچھ لوگ سمجھوتہ کے نام پربابری مسجد کی زمین ہڑپنے کی کوشش کرہے ہیں ، تو کچھ لوگ خوبصورت پلیٹ کی شکل میں بطور تحفہ کے بابری مسجد کی زمین ہندﺅوں کو پیش کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں،شیعہ کمیونٹی میں اس میں سب سے زیادہ پیش پیش ہے ۔
شیعہ وقف بورڈ کے صدر وسیم رضوی مسلسل بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی بات کررہے ہیں،ایک مرتبہ وہ یہ بھی کہ چکے ہیں کہ بابری مسجد شیعوں کی مسجد ہے ،اس پر سنی وقف بورڈ کو متولی بننے یا مقدمہ لڑنے کا کوئی حق نہیں ہے ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا فریق بننابھی انہیں منظور نہیں ہے ،بی جے پی اور سنگھ رہنماکے اشارے پر آئے روز وہ کچھ نہ کچھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بولتے رہتے ہیں،گذشتہ دنوں انہوں نے بنگلور پہونچ کر ہندو مذہبی گرو شری شری روی شنکر کے آشرم میں بھی حاضری دی ہے ،ملاقات کرکے کہاہے کہ بابری مسجد کے بجائے وہ رام مندر کی جگہ ہے ، 2018 سے وہاں تعمیر شروع ہوجائے گی ۔ معروف شیعہ عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق نے بھی منگل کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک بین المذاہب سمینار سے خطاب کرتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ ہندﺅوں کو رام مندر بنانے کیلئے جگہ دینے کی وکالت کی ہے ،وہ یہ دلیل دے رہے تھے کہ اسلام نے ہمیشہ تنازع کو ختم کرنے کیلئے جھکنے کا راستہ اپنایا ہے ،دوسروں کو ترجیح دی ہے اسلئے تنازع ختم کرنے کا سب سے اچھا راستہ یہی ہے کہ مسجد کی جگہ رام مندر کیلئے دی جائے ۔
سپریم کورٹ نے چند ماہ قبل کہاتھاکہ دونوں فریق بابری مسجد کا تنازع عدالت کے باہر حل کرلیں،کورٹ نے یہ بھی کہاتھاکہ دنوں فریق اس پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو کسی جج کو ثالث متعین کردیا جائے گا لیکن اسے کسی نے تسلیم نہیں کیا ،خاص طور پر مسلم پرسنل لاءبورڈ نے سختی سے تردیدکی ،حالیہ دنوں میں اب شری شری روی شنکر صلح سمجھوتہ کرانے کی کوشش کررہے ہیں،گذشتہ دنوں اردو کے ایک اخبارنے لکھاتھاکہ ان کے آشرم میں بورڈ کے رکن اور مخالف فریق کے نمائندے بھی پہونچے تھے ،اس خبر کے بعد پر بورڈ پر شدید تنقید بھی کی گئی ، مولانا سید احمد بخاری بھی بورڈ کو ہدف تنقید بنانے کیلئے فورا میدان کارزار میں کودپڑے،چوطرفہ اعتراضات کے بعد بورڈ کے جنرل سکریٹی مولانا محمد ولی رحمانی نے آج ایک پریس ریلیز بھیج کر اس کی سختی سے تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ بورڈ اپنے سابقہ موقف پر قائم ہے ، کسی سے بھی کوئی بات نہیں ہے ،بابری مسجد کا فیصلہ عدلیہ کے باہر ہر گز قابل قبول نہیں ہوگا ۔شری شری روی شنکر کی پہل کو اکھاڑا پریشدنے بھی مسترد کریاہے،اس دوران یہ خبر آرہی ہے کہ اکھل بھارتیہ ہندو پریشد کے صدر سے 13 نومبر کودہلی میں اسی موضوع پر شری شری روی شنکر کی میٹنگ ہورہی ہے ۔کچھ ہندو لیڈران نے شری شری روی شنکر کی اس پہل پر کھل کی ان کی تنقید کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ نوبل انعام کے امیدواروں کی فہرست میںاپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں ۔
بابری مسجدکے تعلق سے ان تمام خبروں کے درمیان آج ایک اور نئی خبر سامنے آئی ہے ،آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کی نسل سے تعلق رکھنے والے مغل شہزادہ حبیب الدین توسی نے متولی ہونے کا دعوی کردیا ہے ،ان کا کہناہے کہ بابری مسجد مغلوں کے درو میں بنی تھی اس لئے اس کے اصل حقدار اور متولی وہیں ہیں ،انہوں نے متولی کا حق حاصل کرنے کیلئے عدلیہ میں اپیل بھی دائر رکھی ہے ،حالاں کہ یہ سینٹر ل وقف بورڈ کے تحت ہے ۔
بابری مسجد کا مقدمہ عدلیہ میں زیر بحث ہے ،مسلم رہنماکی جانب سے کسی بھی طرح کی بیان بازی مسلمانوں کیلئے مضر ثابت ہوگی ،شیعہ کمیونٹی کو ہمنوابناہر ممکن اس کیس کو کمزور کرنے اور ایک فریق کے حق میں رائے ہموار کرنے کی کوشش ہورہی ہے ،وسیم رضوی کے بیان کے بعد مولانا کلب صادق کا یہ بیان بیحد افسوسناک ہے اورممکن ہے کیس پر بھی اثرا نداز ہوجائے ،بی جے پی کی پوری یہ کوشش ہے کہ مسلم لیڈران کی جانب سے بابری مسجد کے بابری میں اس طرح کا بیان دلواکر یہ پیغام دیا جائے کہ مسلمان بھی وہاں مسجد نہیں چاہتے ہیں اور اس طرح عدلیہ حقائق کے بجائے آستا کی بنیاد پر فیصلہ سنائے ۔ثبوت وشواہد کے بجائے اکثریت کے اعدوشمار کو بنیاد بنایاجائے ۔
stqasmi@gmail.com