سیلفیوں سے کعبۃ اللہ کا تقدس مجروح

سیلفیوں سے کعبۃ اللہ کا تقدس مجروح
تیز رفتار انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو حقیقی معنوں میں ایک عالمی گاؤں (گلوبل ویلج) بنا دیا ہے۔اسمارٹ فون کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک پل میں اطلاع مع تصویر بھیجی جاسکتی ہے لیکن یہ جدید ٹیکنالوجی اپنے ساتھ کچھ مسائل بھی لائی ہے اور اس نے لوگوں کے طرزِعمل کو نمایاں طور پر تبدیل کردیا ہے۔
اس کا اندازہ حج اور عمرے کے دوران مسجد الحرام میں عازمین کی اسمارٹ فون پر سیلفیوں سے کیا جاسکتا ہے۔سیلفی اپنے فون پر کسی خاص موقع یا جگہ پر بنائی گئی تصویر ہے۔لوگوں کو جہاں کوئی منظر اچھا لگتا ہے ،وہ اپنی تصویر بناتے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر کردیتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب مسجد الحرام اور کعبۃ اللہ کے طواف کے دوران تصاویر بنانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔دنیا بھر سے مسلمان حج پر جاتے ہیں تو ان کے پاس اپنے پیاروں سے روابط کے لیے اسمارٹ فون ہوتے ہیں،ان میں سے بعض اس سے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے ،سعی اور طواف کرتے ہوئے سیلفیاں بنانا بھی مناسک حج یا عمرہ ہی کا ایک رکن سمجھتے ہیں۔
بعض حضرات تو ان سیلفیوں کے اس حد تک شائق ہوتے ہیں کہ لگتا ہے وہ حج یا عمرے پر صرف اپنی تصاویر بنانے کے لیے گئے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ مسجد الحرام کے احاطے میں سیلفیاں بنانے کا رجحان اب ایک وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے،اس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور کعبۃ اللہ کا تقدس مجروح ہورہا ہے۔
حج اور عمرے کے دوران زائرین کی ایک بڑی تعداد طواف کعبہ کرتے ہوئے سیلفیاں بناتی نظر آتی ہے جس سے طواف کرنے والوں کے روانی سے گزر میں رکاوٹ آتی ہے۔بہت سے لوگ طواف کے دوران ویڈیو کال کرتے یا ویڈیوز بناتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔اس بحث میں پڑے بغیر کہ ان کا حج کے دوران اس طرح فون کو استعمال کرنا درست ہے یا غلط،مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے دوسرے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
مکہ مکرمہ سے حال ہی میں لوٹنے والی ایک خاتون راحت سلیم کا کہنا تھا کہ ”گزرے وقتوں میں حرم میں تصاویر کھینچنے کی اجازت نہیں تھی۔ کم سے کم ہم مناسک ادا کرتے ہوئے ایک دوسرے پر گرتے پڑتے یا ٹکراتے نہیں تھے”۔
پاکستان سے عمرہ کے لیے حجاز مقدس جانے والی ایک خاتون فاطمہ شریف کی رائے تھی کہ ”سیلفی کریز سے طواف کے دوران لوگوں کی معمول کی روانی متاثر ہوتی ہے،اس سے نہ صرف عمر رسیدہ افراد کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ تمام عبادت گزار ہی متاثر ہوتے ہیں”۔
دوسروں کو دکھانے کے لیے کسی جگہ پر اپنی تصویر بنانا ہر فرد کا ذاتی معاملہ تو ہوسکتا ہے لیکن ایسے شخص کو دوسروں کی آزادانہ نقل وحرکت کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ایک ماہر نفسیات کیبہ قول ”ہم حج پر اپنی خودی کو قربان کرنے کیلیے جاتے ہیں،اس کے اظہار کے لیے تو نہیں جاتے ہیں۔ہمیں وہاں اپنے نفس اور انا کو قربان کرنا چاہیے اور ایک حد سے زیادہ سیلفیاں بنانے کا شوق دراصل نرگسیت کا مظہر ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فرد کس حد تک خودپسندی کا شکار ہے اور وہ اپنی انا کے خول سے باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں”۔
ایک عالم کے بہ قول مناسک حج کی ادائی کے دوران صرف اللہ ہی سے لَو لگی رہنی چاہیے اور اس وقت کہاں اس طرح کی فضول باتوں کا خیال آتا ہے۔پھر سیلفیاں بنانے والوں کو یہ بھی بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی جب مطاف یا سعی کے دوران تصویر بنانے کے لیے رکتا ہے تو وہ دراصل حجاج یا عازمین عمرہ کے ازدحام میں حائل ہوجاتا ہے اور اس طرح بھگدڑ مچ جانے سے خدا نخواستہ جانی نقصان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ماضی میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران حجاج کے آزادانہ بہاؤ میں رکاوٹ کی وجہ سے ہی بھگدڑ کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ (بشکریہ العربیہ)

SHARE