محمد انس عباد صدیقی
مذہب اسلام کے تحفظ و بقاء اور اس کی نشرواشاعت کا فریضہ ابتدائے عہد سے دینی مدارس انجام دے رہے ہیں اور تا ہنوز یہ سلسلہ بحمداللہ برق رفتاری کے ساتھ رواں دواں ہے مدرسہ کانام جیسے ذہن میں آتاہے اس کے تئیں ہمدردی کے ساتھ اس کے آغوش کی پرنور روحانی فضاء دوڑنے لگتی صداقت و سچائی امانت و دیانت عدل و انصاف غم گساری ودل جوئی کی بھینی بھینی خوشبؤوں سے جان و دل عطر بیز ہونے لگتے ہیں چونکہ مدارس اسلامیہ کی تاسیس کا مقصد ہی انسانیت نوازی و کردار سازی ہوتاہے جہاں عقل و فکر قلب و نظر کے زنگوں کو صیقل کرکے ایمان و یقین کی بادِ بہاری کا سان چڑھایا جاتا ہے تاکہ صالح معاشرے کی تشکیل میں فضلائے مدارس اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہوسکے
بہار مدرسہ بورڈ نے دور حاضر میں ملت کی راہبری اور معاشرے کی تشکیل و تزئین میں کیسا اہم رول ادا کیا ہے اگر اس کے حقائق سامنے آنے لگیں تو سوائے شرمندگی اور ملامت و افسوس کے کچھ نہیں ہاتھ لگے گا، بہار مدرسہ بورڈ میں رشوت خوری کو حلال ہی نہیں بلکہ احسن درجے کا کار ثواب سمجھا جاتا ہے۔ مدرسہ بورڈ کے اساتذہ مدرسے میں تعلیم و تربیت کو اپنے مفاد کےلئے زہر ہلائل سمجھتے ہیں۔ غیرحاضری کو سنت اور ڈیوٹی نہ کرنے کو واجب گردانتے ہیں۔ مدرسہ بورڈ کی کمیٹی کے اراکین جاہلوں کی ٹولی ہوتی ہے جسے حرام و حلال کی جانکاری تو دور کی بات اسے انسان و جانور کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت تک نہیں ہوتی ہے اور یہ اراکین گاؤں کے سادہ لوح عوام کے درمیان انتشار و افتراق پیداکرنے کا کارہائے بد بھی انجام دیتے ہیں۔ مدرسہ بورڈ میں تعلیم تربیت کا دور دور تک تصور نہیں ہے، خانہ پوری کے لئے گاؤں کے اجہل ترین لڑکوں سے سرکاری امتحان دلایا جاتا ہے اور یہ اجہل ترین لڑکے جسے اردو عریی زبان میں نام تک لکھنے نہیں آتا، بتدریج وسطانیہ سے عالم فاضل تک کا امتحان چوری کے ذریعے دیکر قرآن و حدیث کے عالم فاضل ہونے کی سند حاصل کرتے ہیں، اس طرح کے سرکاری علمائے سوء کی تعداد روز افزوں فزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے، پھر مدرسہ بورڈ میں اسی طرح کے بدباطن مولویان جاہلین مدرس بنتے ہیں۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں ہے ایسے افراد سے ملت کو عروج ملے گا یا ملت زوال کی کھائی میں اوندھی منہ گرے گی یا نہیں؟ ایسے حضرات سے معاشرے میں خیروخوبی کو فروغ ملے گا یا جہالت و ضلالت اور دروغ و فتنے منہ پسار کر لقمہ تر بنائیں گے؟ یہ کتنا بڑا ظلم اور شریعت کے ساتھ کتنا بھونڈا مذاق ہے۔ تفسیر و حدیث، فقہ و اصول فقہ ، بلاغت و سیرت اور فلسفہ و تاریخ کےعلوم و فنون کی سند ایسے افراد کو دی جارہی ہے جسے پیشاب و پاخانہ تک کرنے کا اسلامی طریقہ معلوم نہیں ہے اور اردو زبان میں اپنا حسب و نسب تک نہیں لکھ سکتے،
کیا ایسے افراد سے امت مسلمہ کی امامت و سیادت کی امید کی جاسکتی ہے؟
یاد رکھئے ! سرکاری ریکارڈ میں ایسے ہی حضرات علماء و فضلاء ہیں مستقبل میں مسجدوں کی امامت کے لئے اگر یہ سرکاری عدالت میں مقدمہ دائر کردئیے تو اسے سرکاری سند کی بنیاد پہ فاضل جج امامت کا استحقاق قراد دیں گے، فضلائے دیوبند و سہارن پور، ندوہ و مبارکپور کو ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
مدرسہ بورڈ کی ملازمت حاصل کرنے اور انتظامیہ کی بحالی و عدم بحالی کو لیکر ہرگاؤں میں کئی فریق ہیں جو آپس میں دست و گریباں ہی نہیں ہوتے بلکہ تلوار و پستول تک نکل جاتا ہے، بالآخر پولس کے ڈنڈوں سے ان کا کلیجہ سرد پڑتا ہے اور مقدمہ بازی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، یہ حالات ہیں مدارس بورڈ کے۔ یہ ببول کا درخت ہے اس سے آم امرود کے پھل کی امید حماقت ہے۔
حالیہ فوقانیہ امتحان کا نتیجہ اپنی جگہ درست ہے جس نے مدرسہ بورڈ کو آئینہ دیکھانے کا کام کیا ہے۔
اللہ تعالی امت واحدہ کی حفاظت فرمائے





