وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ملک نے نوٹ بندی کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔ ایک سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ صرف 20 فیصد لوگ ہی اس قدم کے حق میں تھے یا پھر وہ گمراہ کئے گئےتھے جبکہ 80 فیصد لوگ اس فیصلے کے خلاف تھے۔
اقتدارکی گلیوں میں چہل قدمی کرنے والوں کو چھوڑ کر سب کا یہ ماننا ہے کہ نوٹ بندی ایک بہت بڑی مصیبت تھی۔ اب اس بات کے حق میں مزید اعداد و شمار بھی آ گئے ہیں۔ 21 ریاستوں اور 32 تنظیموں کی طرف سے کئے گئے ایک سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ 80 فیصد لوگ اس قدم کے خلاف تھے اور باقی 20 فیصد یا تو حمایت میں تھے یا پھر وہ گمراہ کئے گئےتھے۔
جنوری ماہ کے پہلے ہفتے میں شروع ہوئے اس سروے میں پتہ چلا ہے کہ 55 فیصد لوگ وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان سے اتفاق نہیں رکھتے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نوٹ بندی نے پوری طرح سے کالے دھن کا خاتمہ کر دیاہے۔ منگل کے روز ’ڈیمونیٹائزیشن۔ ایکسائزنگ د ڈیمن ‘ عنوان سے رپورٹ جاری ہوئی۔ سروے میں شامل گوہر رضا نے کہا کہ’مطالعہ میں شامل صرف 26.6 فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ کالا دھن ختم ہو گیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں شامل لوگوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ہی نااتفاقی کی شرح بھی بڑھتی جاتی ہے۔‘‘
رضا کے ساتھ اس رپورٹ کو تیار کرنے میں پی وی ایس کمار ، سبودھ موہنتی اور جان دیال بھی شامل ہیں۔ ماہر اقتصادیات ارون کمار نے بھی اس رپورٹ میں اپنا تعاون دیا ہے۔ سروے میں جن لوگوں سے سوال پوچھے گئے ہیں ان کی عمر 16 سال سے 35 سا ل کے بیچ میں ہے۔
گوہر رضا نے مزید کہا کہ ’’سروے میں شامل 48.2 فیصد لوگوں کا ماننا تھا کہ وزیراعظم مودی کی طرف سے بتائے گئے نوٹ بندی کے اہم مقاصد میں سے ایک دہشت گردانہ حملوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سروے میں 45.4 فیصد لوگوں نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ نوٹ بندی سے پاکستان کی طرف سے ہونے والی دراندازی پر کوئی روک گی۔ ظاہری طور پر یہ اب بھی جاری ہے اور سرحد پر حملوں میں اچانک تیزی بھی آ گئی ہے۔ ‘‘
حکومت نے بلا شبہ اس قدم کے بعد50 فیصد لوگوں کا بھروسہ کھو دیا اور دیگر 47 فیصد لوگ اپنے بینکوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ سروے میں شامل 65 فیصد لوگوں نے کہا کہ نوٹ بندی کے دوران بینکوں کی قطاروں میں انہوں نے کسی رہنما یا امیر آدمی کو نہیں کھڑے دیکھا ۔ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ نوٹ بندی کے دوران قطار میں انتظار کئے بغیر امیروں کو پیسہ دے دیا گیا۔
سروے کے دوران پتہ چلا کہ نوٹ بندی سے چھوٹے کاروباری سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ سیاسی کارکن جان دیال نے کہا کہ’’ سبزی بیچنے والے، رکشہ چلانے والے جیسے لوگ اپنا دھندہ کرنے کے لئے نقد روپیوں پر منحصر تھے۔ نوٹ بندی کے بعد وہ اپنا دھندہ نہین چلا سکے اور اس لئے ان میں سے اب زیادہ تر یومیہ مزدور بن گئے ہیں۔ ‘‘
نوٹ بندی کے دوران اے ٹی ایم اور بینکوں کے سامنے لمبی لمبی قطاروں کی تصدیق کرتے ہوئے سروے میں شامل تقریباً 30 فیصد لوگوں نے کہا کہ ان لوگوں کو 4 سے 8 گھنٹے یا پھر اس سے بھی زیادہ وقت قطاروں میں کھڑے رہناپڑا تھا۔ جبکہ 20 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں 8 گھنٹے سے بھی زیادہ قطاروں میں کھڑا رہناپڑا۔
وزیر اعظم کا دعویٰ تھاکہ نوٹ بندی سے کسان متاثر نہیں ہوں گے۔ وزیر اعظم کے اس دعوے سے بھی سروے میں شامل 60 فیصد لوگ غیر متفق دکھائی دئیے اور 44 فیصد نے یہ کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ نوٹ بندی سے گاؤں اور وہاں کے باشندگان کی حالت بہتر ہوئی۔
60 فیصد نوکری پیشہ لوگوں نے کہا کہ نوٹ بندی سے کارپوریٹ سیکٹر کو فائدہ ہوا ہے اور 47.7 فیصد تاجروں کا بھی یہی ماننا ہے۔ بے شمار دولت رکھنے والے لوگوں نے اپنے پرانے نوٹوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے کئی آسان طریقے اختیار کئے۔ ان میں زمین اور سونے میں سرمایہ کاری، مندروں میں امداد، غریبوں کے لئے بنے جن دھن کھاتوں میں پیسے جمع کرنا جیسے طریقے شامل ہیں۔
دو ہزار کے نوٹوں کے چلن میں آنے سے کالے دھن کی جمع خوری اور بھی آسان ہو جا ئےگی۔ نوٹ بندی کے بعد سیاسی پارٹیوں کو مقررہ تبدیلی کی حد سے چھوٹ دی گئی تھی ۔ اس بات سے ناراض سروے میں شامل 70 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے کھاتوں کو عوامی کرنا چاہئے۔
بینک اے ٹی ایم کو نوٹ بندی کے بعد نئے نوٹوں کے مطابق تیار کرنے میں 10000 روپے فی اے ٹی ایم خرچ ہوا اور پورے ملک میں اس پر 2 ارب روپے خر چ ہو ئے۔ اگر ہم اس میں مزدوری اور آپریٹنگ کا خرچ بھی جوڑ لیں تو نوٹ بندی کے 50 دنوں کے دوران بینکوں کی طرف سے کل 351.4 عرب روپے خرچ کئے گئے۔
)بشکریہ قومی آواز)