مولانا ارشد مدنی نے خط لکھ کر جمعیۃ کا صد سالہ جشن ایک ساتھ منانے کی پیشکش کی، جمعیۃ (م) کی ورکنگ کمیٹی کی حالیہ میٹنگ میں انضمام کے امکانات پر غور و خوض کیا گیا
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
ہندوستان کی قدم ترین مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن اور قومی سیاست کے گیسو سنوارنے کا عظیم الشان ریکارڈ کی حامل جمعیۃ علمائے ہند کی ملک وملت کے تئیں ناقابال فراموش خدمات محتاج تعارف نہیں۔ گذشتہ ایک صدی سے مسلمانوں کے عقائدونظریات مذہبی امور کی حفاظت اصلاح معاشرہ اور مصائب وکفالت کی صورت میں ان کا تعاون کرتی ہے قومی یک جہتی کے لئے خاص طور سے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار نوجوانوں کی رہائی کے لئے مولانا ارشد مدنی کی قانونی جدوجہد سنہرے الفاظ میں لکھی جائے گی۔ بدقسمتی سے مولانا نے اسعد مدنی کی رحلت کے بعد قیادت کے سوال پر جمعیۃ تقسیم ہوگئی اب مولاناا رشد مدنی اور قاری محمد عثمان منصور پوری کی قیادت میں دونوں جمعیۃ ایک ہی چھت کے نیچے الگ الگ دفاتر کے ذریعہ ملک وملت کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ کئی مرتبہ مصالحت وانضمام کے تعلق سے گفت وشنید اور مذاکرات ہوئے مگر وہ انجام کو نہیں پہنچ سکے۔
دہلی سے شائع ہونے معروف اخبار روزنامہ خـبریں کے مطابق اب جمعیۃ کی قیادت کے قریبی ذڑائع کے حوالے سے خوش کن خبر آرہی ہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات، کا رکنوں کی دلی خواہش اور عمومی طور پر مسلمانوں کی دلی امنگوں‘ اور جذبات کو محسوس کرتے ہوئے ایک بار پھر اتحاد‘ اشتراک اور انضمام کی خبریں گشت کر رہی ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ گذشتہ دنوں جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے مولانا محمود مدنی کی زیر قیادت جمعیۃ(اس کو ان کے حوالے سے ہی جاناجاتا ہے) کو خط لکھ کر پیش کش کی کہ جمعیۃ کا صد سالہ جشن وتقاریب مشترکہ طور پر منائی جائیں تاکہ اتحاد ویک جہتی کا پیغام دور تک جائے۔ جمعیۃ کے باوثوق ذرائع نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس خط کا مثبت اثر ہوا۔ جمعیۃ علمائے ہند (محمود مدنی) کی 27اکتوبر کونئی دہلی میں منعقدہ ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں یہ خط رکھاگیا اس پر غوروخوض ہوا۔ ورکنگ کمیٹی میں شریک بعض افراد کے مطابق اس سے ایک قدم آگے بڑھ کرسوچاگیا کہ کیوں نہ انضمام کے معاملہ پر ازسرنو غور کرلیاجائے ۔ گرچہ اس سے الگ بھی رائے آئی لیکن ماحول سازی ضرور ہوئی ہے۔ دراصل دونوں جمعیۃ کو اس بات کا احساس ہے کہ الگ ہونے سے جہاں جمعیۃ کی افرادی قوت منقسم ہوئی ہےوہیں ایک جیسے پروگراموں پر قوم کا سرمایہ ضائع ہورہا ہے اور جب مقصد ایک ہی ہے ‘ہدف مشترک ہے اور ماضی میں سب ایک ہی تھے تو افرادی قوت اور قوم کے سرمایہ کے اتحاد سے اہداف کے حصول کا سفر آسان اور موثر ہوگا۔ اجتماعی قوت سے مسلمانوں کو بھی نیا حوصلہ ملے گا۔ مولانا ارشد مدنی کی عبقری شخصیت‘ ان کی جرأت مندی و بصیرت کا لوہا دنیا مانتی ہے۔ ان کے زہدوتقویٰ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اس وقت مسلمانوں میں اتنا قد آور سنجیدہ بردبار لیڈر ملنامشکل ہے اور سبھی جماعتیں ان کا احترام کرتی ہیںوہیں مولانامحمود مدنی کی شخصیت کے اثرات بھی بہت وسیع ہیں جب بھی دنیا کے سو یا پچاس بااثر شخصیات کی فہرست مرتب ہوتی ہے ان کا نام ضرور ہوتا ہے۔ وہ بھی جرأ ت مند اور صائب الرائے ہیں حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے اجتماعی موقف کے برخلاف وزیراعظم سے ملاقات اس کا ایک مظہر ہے۔
ذرائع کے مطابق انضمام اتنا آسان نہیں ہے اس میں کئی چیلنج ہیں وہ لوگ جن کے مقاصد انضمام سے متاثر ہوسکتے ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایسی کوئی شکل وجود میں آئے جس میں ملت کے خیر ہی خیر ہو ماضی میں بھی ان کی وجہ سے ہی ایسی کوششی ناکام ہوگئی تھیں۔بہرحال جمعیۃکی حالیہ کانفرنس میں مولانا ارشد مدنی نے شرکت کی تھی ۔ وہ اس سے پہلے بھی مولانا محمود مدنی کے بلاوے پر جاتے رہے ہیں۔ تجویز کے پس منظر میں معنویت بڑھ گئی ہے۔ بہرحال اس حوالے سے قدم پھونک کر رکھا جائے گا ماضی میں ایسی بات چیت کی ناکامی کے اسباب کو ذہن میں رکھا جائے گا جمعیۃ کی نئی دہلی کانفرنس بھی مولانا ارشد مدنی نے قاری محمد عثمان کو صد ر محترم کہہ کر خطاب کیا اور مولانامحمود مدنی نے مولانا ارشد مدنی کو صدر جمعیۃ کہہ کر اظہار خیال کی دعوت دی ایسی فراخدلی روشن خیالی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ صرف جمعیۃ میں ہی تصور کیا جاسکتا ہے ۔امید کی جانی چاہئے کہ اچھی خبر جلد ہی ملے گی۔





