جدید مسائل کا حل، فقہ اکیڈمی انڈیا اور ستائیسواں فقہی سمینار

ندیم احمد انصاری
اللہ تبارک تعالیٰ جو کہ خالقِ کائنات ہیں، اس نے اپنے بندوں کو پیدا فرما کر ان کی ہدایت کے لیے اُنھیں میں سے بہت سے انبیا و رُسل مبعوث کیے ۔روایتوں میں نبیوں اور رسولوں کا شمارایک لاکھ چوبیس ہزار اور بعض روایات میں ایک لاکھ چونتیس ہزاراور بعض میں دو لاکھ چوبیس ہزار آیا ہے اور یہ تعداد قطعی نہیں ہے ، غالباً کثرت کے بیان کے لیے ہے ، تاکہ کوئی کمی نہ رہے ، اس لیے بغیر تحدید کے اس طرح ایمان لانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول بھیجے ، ہم ان سب کو برحق اور رسول و نبی مانتے ہیں، اور جن نبیوں کے اسماے گرامی قرآنِ کریم اور احادیثِ صحیحہ میں مذکور ہیں، ان کے علاوہ کسی کو مسمّٰی نبی کہنا درست نہیں۔ (عمدة الفقہ)نیز حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا حضرت محمدﷺ تک تمام انبیاے کرام کے ذریعے جواحکام اور اصول بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لیے نازل فرمائے گئے ،ان سب پر قانونِ اسلام کا اطلاق ہوتا رہا ہے ، کیوں کہ اصول سب کے ایک تھے ، البتہ حکمتِ باری تعالیٰ کے تحت اسباب و علل، حالات و عاداتِ مکلفین کے لحاظ سے فروعات وجزئیات میں ترمیم وتنسیخ جاری رہی، اور جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو آخری نبی بنا کر مبعوث کیاگیا، تو ان پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل فرما کر، قیامت تک کے لیے اسلام کی تکمیل کا اعلان فرما دیا:اَل ±یَو ±مَ اَک ±مَل ±تُ لَکُم ± دِی ±نَکُم ± وَاَت ±مَم ±تُ عَلَی ±کُم ± نِع ±مَتِی ± وَرَضِی ±تُ لَکُمُ ال ±اِس ±لَامَ دِی ±نًا۔آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے ) پسند کرلیا۔(المائدہ:۳)لیکن قرآن مجید میں تمام اصول و فروعات کی تفصیل موجود نہیں، اس لیے ارشاد فرما گیا: ٰٓیاَیُّھَا الَّذِی ±نَ اٰمَنُو ±ٓا اَطِی ±عُوا اللّٰہَ وَاَطِی ±عُوا الرَّسُو ±لَ وَاُولِی ال ±اَم ±رِ مِن ±کُم ±، فَاِن ± تَنَازَع ±تُم ± فِی ± شَی ±ئٍ فَرُدُّو ±ہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُو ±لِ اِن ± کُن ±تُم ± تُو ¿ ±مِنُو ±نَ بِاللّٰہِ وَال ±یَو ±مِ ال ±اٰخِرِ،ذٰلِکَ خَی ±ر µ وَّاَح ±سَنُ تَا ±وِی ±لاً ۔اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحبِ اختیار ہوں ان کی بھی۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اسے اللہ اور رسول کے حوالے کردو۔ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے ۔(النسائ:۹۵)
مفسرِ قرآن مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ اس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اگر تمھارا کسی امر کے بارے میں اختلاف ہوجائے ، تو تم اللہ اور رسول کی جانب رجوع کرو۔ کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ کتاب و سنت کے احکامِ منصوصہ کی جانب رجوع کیا جائے ، دوسری صورت یہ ہے کہ اگر احکامِ منصوصہ موجود نہیں تو ان کے نظائر پر قیاس کر کے رجوع کیا جائے گا، فَرُدُّو?ُ کے الفاظ عام ہیں، جو دونوں صورتوں کو شامل ہیں۔ (معارف القرآن)
جدید مسائل کا حل اور اجتہاد
معلوم ہواکہ مسائل واحکام کا سارا ذخیرہ دراصل قرآن وسنت ہے لیکن اس کا ایک خاص انداز ہے ، اور چوں کہ ہرشخص کو ہرزمانے میں مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اور ہر شخص میں یکساں فہم و بصیرت نہیں ہوتی کہ کلام اللہ اورسنتِ رسول اللہ سے اپنے حالات کے مطابق ہر ہرمسئلے میں رہنمائی حاصل کر سکے ، اسی لیے ا للہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں یعنی علومِ اسلامی کے ماہرین کو یہ توفیق بخشی ہے کہ وہ قیامت تک جدید مسائل کو قرآن و سنت کی بنیادوں پر حل کرتے رہیں گے ، جو کہ وقت اور حالات کی اہم ترین ضرورت ہے ۔کیوں کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کہ دین کی تکمیل ہو چکی اور حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں،نیز قیامت تک انسانوں کی ہدایت صرف قرآن و سنت میں موجود ہے ، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمانہ اور وقت کبھی ٹھہرنے والی چیز نہیں، جس کے پیشِ نظر انسانی سوسائٹی اور ارتقا کے مراحل تبدیل ہوتے رہتے ہیں، تو اس مسلسل تغیر پذزندگی میں انسانی معاشرے کی رہنمائی کے لیے جن مسائل میں قرآن وسنت کی واضح رہنمائی موجود نہیں ، اُن میں قرآن وسنت کی روشنی میں اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرنے کا یہ عمل جاری رہنا چاہیے ۔اس حوالے سے صحابیِ رسول حضرت معاذ بن جبلؓکی مشہور روایت کی ترتیب بھی یہی ہے کہ جب انھیں یمن کا عامل وقاضی بنا کر بھیجا گیا تو انھوں نے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کے بعد اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کی بات کہی، جس پر رسول اللہ ﷺنے خوشی کا اظہار فرمایا۔وفاتِ نبی کے بعد صحابہ ¿ کرامؓنے اسی اصول کے مطابق نئے پیش آمدہ مسائل کا نہ صرف حل کیا، بلکہ باقاعدہ طور پر اس کے اصول وضوابط بھی طے کیے ۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعوداور بعض دیگر اکابر صحابہ ¿ کرام رضی اللہ عنہم کے متعدد ارشادات سے اس کی نشان دہی کرتے ہیں۔ صحابہ ¿ کرامؓ کے علاوہ چوں کہ کسی کوچشمہ ¿ نبوت سے فیض یابی کا شرف حاصل نہیںکہ مزاجِ رسول کو سمجھے ، اس لیے جدید مسائل کے حل میں قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور نئے پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کو غلط رخ پر جانے سے بچانے کے لیے مجتہدینِ امت نے انفرادی واجتماعی کوششیں کیں، جس کے نتیجے میں حنفی، مالکی، شافعی ، حنبلی وغیرہ مکاتبِ فکر وجود میں آئے ، جنھوں نے پوری امت کی قیادت و رنمائی کا فریضہ انجام دیا، اور فی زمانہ بھی ’اجتہاد‘ کا یہ دروازہ کھلا ہوا ہے جس کی احوط صورت اجتماعی اجتہاد ہے ، لیکن اس کا عمل اُنھیں دائروں میں محیط ہے جو مسلمہ فقہی مکاتب میں طے شدہ ہیں،اور یہ فطرت کے عین مطابق ہے ۔
دورِ حاضر اور اجتماعی اجتہاد
مذاہبِ اربعہ کی خصوصیات اور فقہائے محدثین کی خدمات اور ان کی عظمت کا پورا عتراف کرتے ہوئے اور اس فقہی و حدیثی ذخیرے و بیش قیمت اور قابلِ استفادہ قرار دیتے ہوئے اور اس سے بے نیازی و استغنا کو مضر و محرومی کا سبب مانتے ہوئے مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحبؒ بھی اس کے قائل ہیں کہ اجتہاد(اپنی شرطوں اور ضروری احتیاطوں کے ساتھ) ہر دورکی ضرورت، حیاتِ انسانی اور تمدن و معاشرت کی تغیّر پذیری، اور نمو وار تقاکی صلاحیت اور انسانی ضرویات، حوادث و تغیرات کے تسلسل کا فطری تقاضا اور شریعت اسلامی کی وسعت، اس کے من جانب اللہ ہونے اور قیامت تک انسانوں کی رہنمائی اور معاشرے کے جائز تقاضوں کی تکمیلی صلاحیت رکھنے کا ثبوت ہے ، جس کا اظہار اور ثبوت ہر دور میں ضروری ہے اور حاملینِ شریعت کا فرض ہے ۔(تاریخِ دعوت و عزیمت) اور مستحسن امر یہ ہے کہ (کسی خاص ضرورت کے علاوہ) اجتہاد انفرادی کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلے کی چھان پھٹک ہو، تاکہ فقہ اور اصولِ فقہ کے گراں قدر سرمایے سے مکمل استفادہ کیا جا سکے اور اس میں سازشیں اور دسیسہ کاریاں داخل نہ ہوں، اور کسی سیاسی طاقت یا خود مختار حکومت کو رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔(خطبات علی میاں)
فقہ اکیڈمی انڈیا اور ستائیسواں سمینار
یعنی دورِ حاضر میں جدید فقہی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے قرآن و سنت کے ساتھ قدیم فقہ و فتاویٰ سے استفادہ کرنا ناگزیر ہے ، جس کی بہترین مثالیں خلافتِ عثمانیہ کا ’مجلة الاحکام العدلیہ‘ اوربادشاہ اورنگ زیبؒ کا ’فتاویٰ ہندیہ‘ نیز موجودہ دور میں ’الموسوعة الفقہیة الکوتیہ‘ہے ، اور بھارت میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے وجود میں آنے کا سبب بھی یہی ہے ، جس میں ایک طرف حکمِ شرعی کی تطبیق کے لیے محقق علما اور اربابِ افتا کی تحقیق سے فایدہ اٹھایا جاتا ہے اور دوسری طرف صورتِ مسئلہ کی توضیح و تشریح کے سلسلے میں میڈیکل سائنس، معاشیات، سماجیات اور نفسیات کے ماہرین کی معلومات سے بھی حسبِ ضرورت استفادہ کیا جاتا ہے ۔تقریباً ستائیس سالوں سے یہ ادارہ بڑے پیمانے پر ایک خاص نوعیت کی خدمت انجام دے رہا ہے ۔ سال میں ایک بار ملک کے مختلف حصوں میں اس کا سمینار بھی منعقد کیا جاتا ہے ، جہاں اہلِ علم و فن مل بیٹھ کر جدید مسائل پر دلائل کی روشنی میں بحث و مباحثے کے بعد ایک رائے قائم کرتے ہیں، اور اِس ادارے کو ابتدا ہی سے ملک و بیرونِ ملک کے اکابر علما کی سرپرستی حاصل رہی ہے ۔ فقہ اکیڈمی انڈیا کے بانی مشہور عالمِ دین قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ہیں، جب کہ ان کے جانشین، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بحیثیت جنرل سکریٹری اس کارواں کو پورے جوش و ہوش لے کر رواں دواں ہیں۔مفتی عزیز الرحمن فتحپوری، مفتی سعید الرحمن فاروقی قاسمی اور مولانا شاہد ناصری حنفی وغیرہ کے ساتھ شہر کے دیگر علماکی کاوشوں سے ۷۱۰۲ءمیں فقہ اکیڈمی انڈیا کا ستائیسواں سمینار بتاریخ۵۲،۶۲،۷۲نومبر کو حج ہاو ¿س ممبئی میں ہونے جا رہا ہے ، جس میں درجِ ذیل اہم مسائل زیرِ غور ہیں؛حیوانات کے حقوق، مکانات کی خرید و فروخت،عصری تعلیمی ادارے ، طلاق اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل۔شہرِ ممبئی کے حوالے سے ان مسائل کی خصوصی اہمیت ہے اور ویسے تمام ہی مسلمانوں کو ان سے واسطہ پڑتا ہے ۔عروس البلاد شہرِ ممبئی کے لیے خوشی کی بات ہے کہ ان کے شہر میں ایسا عظیم الشان دینی کام ہونے جا رہا ہے ۔
nadeem@afif.in