احمد شہزاد قاسمی
اگر یہ سچ ہے کہ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے تو یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اسی ہندوستان کا ایک طبقہ بڑی زور شور اور مکمل منصوبہ کے ساتھ اسکے جمہوری چہرہ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ،کچھ لوگ جو ایک خاص تہذیب کو پورے ملک پر مسلط کربے کے عشق میں ،از خود رفتہ ہو چکے ہیں ملک کی جمہوری شان وشوکت اور حسن وجمال کو مخدوش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں ،ملک کا موجودہ منظر نامہ بتا رہا ہے کہ کس طرح لوگ اپنے مخصوص نظریات کو مسلط کرنے کے لئے حب الوطنی کی تعریف وتصور تک میں تبدیلی کر سکتے ہیں ،ملک کے جمہوری نظام کو باقی رکھنا عدل ومساوات کی دہائی دینا آئین وقانون کی پاسداری کرنا امن وسلامتی کو یقینی بنانا اور اس جیسی بہت سی مثبت اور تعمیری چیزوں کا تصور پیچھے چھوٹ گیا اور ان سب کی جگہ صرف بھارت ماتا کی جے نے لے لی بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگایا اور محبِ وطن ہوگئے۔
یہ نعرہ لگا لینے سے آپ کو قانون توڑ نے فسادات کرنے کا کرپشن کرنے کا خواتین کی عصمت دری قومی وذاتی جائیدادوں کو برباد کرنے اور بازادوں کو آگ لگانے کا لائسنس مل جاتاہے ،ان دنوں ایسی ہی حب الوطنی عروج پر ہے جس کے لئے نہ وقت ضائع کر نا پڑتاہے نہ کوئی قربانی دینی پڑ تی ہے بس ان لوگوں کو ڈرانا دھمکانا اور کبھی کبھار پیٹنا ہو تاہے جو ملک کے اس تصور کو قبول نہیں کرتے۔آئندہ 4 اپریل سے 16 کے درمیان مرحلہ وار ملک کی پانچ ریاستوں مغربی بنگال آسام کیرالہ تامل ناڈو اور پانڈ یچری میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں ،ممکن ہے کہ یہ نئی حب الوطنی کا نظریہ ان اسمبلیوں کے انتخابات کے پیشِ نظر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہو ،ابھی تو حب الوطنی کے پیمانہ تک ہی بات ہے قتل وغرت گری کے واقعات بھی رونماں ہو سکتے ہیں ،آگےآگے دیکھئے ہو تا ہے کیا۔۔۔۔۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے بہار اور دہلی
میں مایوس کن اور شکست خوردہ جماعت تلافی مافات کے لئے آنے والی اسمبلی انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلنے کے فراق میًں ہے تاکہ راجیہ سبھا میں پوزیشن بہتر بناکر اپنی پالیسیوں کو من مانے طریقہ سے ملک کے عوام پر مسلط کیا جا سکے ،حالات وتجربات کا فتوی بھی بتاتاہے کہ ملک میں جو فسادات ہوتے ہیں وہ یا تو خالص سیاسی مقاصد کے لئے بعض پارٹیوں کی طرف سے بہانے پیدا کر کے کرائے جا تے ہیں یا بعض لوگوں کی مردم آزار یا خواہ مخواہ کی فتنہ جو طبیعت بے بات کے بتنگڑ بنا کر امن سوز حالات پیدا کردیتی ہے ،اس وقت فسادات کے دونوں سبب موجود ہیں زعفرانی حلقہ سے تعلق رکھنے والے کارنان سے لیکر لیڈران تک کی باڈی لینگویج بتا رہی ہے کہ انکی فتنہ جو طبیعت کسی وقت بھی حالات کو خراب کرکے انار کی پیدا کر سکتی ہے ،رہا دوسرا سبب تو عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جب دہلی میں زبانی اشتعال انگیزی اور بہار میں گؤ ماتا پھیل ہو چکی تو اب وہ ہتھیار آزما یا جا سکتا ہے جو برسوں کا آزمودہ اور نفع بخش ہے عام انتخابات سے قبل مظفر نگر میں اسی ہتھیار سے مر کزی اقتدار کا میدان فتح کرنے والے اس موقع کو گنوانا نھی چاہیں گے ، اسی ماہ کے اواخر میں برادرانِ وطن کے سالانہ تہوار ہولی کے موقع پر فرقہ پرست اپنا مطلب حا صل کرکے اپنے گیم پلان کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں کیونکہ ایسے موقع تناؤ کا ماحول ہوتا جو ماضی میں جھگڑے فسادات میں تبدیل ہوتا رہاہے۔ ہو تا یہ ہے کسی مسلمان کے اوپر رنگ ڈال دیا جاتا ھے یا مسجد کو رنگ آلود کر دیا جاتاھے مسلم محلوں سے ہولی کا جلوس نکال کر ماحول بگاڑنے کی کوشش کی جاتی ھے اس اشتعال انگیزی بدتمیزی اور دھاند لی پر مشتعل ہوکر اقلیت کے کچھ افراد ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جو اکثریت کے شر پسندوں کے شر انگیزی کا سبب بن جاتے ہیں
ہم ردِ عمل کے طور پہ اس خیال میں کر بیٹھتے ہیں کہ ہمارے اوپر ہولی کی گندگیاں ڈالنا اور ہماری مسجدوں کے سامنے ہولی کا ہنگامہ بپا کرنا ہمارے حق کو مجروح کرتا ھے اور ہمارے محلوں اور راستوں کا ہولی کے جلوسی سے محفوظ رہنا ہمارا حق ہے اور ملک کی انتظامیہ پہ اس حق کے تحفظ کی ذمہ داری ہے لیکن نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ شر پسند اگر کوئی فتنہ کھڑا کردیتے ہیں تو انتظامیہ کی مداخلت عام طور پہ الٹا رنگ دکھاتی ھے اور ایک حق کی جگہ ہمارے چار حق مجروح ہوتے ہیں ،اس لئے اس موقع پہ ہمیں ہوشیار باش کے تحت چو کنا رہ کر بیداری وداشمندی کا ثبوت دینا ہے
لوک سبھا میں اکثریت رکھنے والوں کے پاس راجیہ سبھا میں برتری ثابت کرنے اور پھر اسکے نتیجہ میں اپنے نظریات کو مسلط کرنے کا شایدآخری موقع ہے اور پھر یہ بھی ہیکہ اس سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے آئندہ برس ہونے والے یو پی کے چناؤ ضرور متاثر ہونگے جس سے 2019 کے عام انتخابات کا منظر نامہ بھی واضح ہو جائے گا ،اس لئے بہت ممکن ہے کہ آنے والے ریاستی الیکشن کے نتائج اپنے حق میں کرنے کے لئے سیاسی پرٹیاں الیکشن سے عین قبل مذہبی رنگ سے اپنے سیاسی نقشوں میں رنگ بھرنے کی مذموم کوشش کر سکتی ہیں ،ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہمیں انکے مذموم نقشوں میں رنگ نھی بھردینا اس کے لےء ہمیں خا موشی جیسے کار آمد ہتھیار کو استعمال کرنا ھے جو فتنہ پروروں کے تمام مہلک ہتہیا روں کو کاٹ نے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ،خاموشی مرعوبیت اوت مجبورانہ ذہنیت کی نہیں بلکہ ضبط وتحمل کی دور اندیشی کی حکمت وتدبر کی ،غیرت وحمیت کے وقتی تقاضہ اور عزتِ نفس کے جذبہ کو دباکر اس وقتی اذیت کا بوجھ اپنے دل پر لیکر دانشمندی کا ثبوت دینا ہوگا دوسری صورت میں ایسے حالات کے لےء تیار رہنا چاہےء جن سے ایک بڑی تعداد کے جانی ومالی نقصانات کے علاوہ پوری قوم کے سیاسی ومعاشی نقصانات کا ہونا یقینی ہے
موضوع اور وقت کی مناسبت کے پیشِ نظر یہاں مولانا عتیق الرحمان سنبھلی رحمہ اللہ سابق مدیر …الفرقان …وندائے ملت…. کی ایک تجزیاتی تحریر کا اقتباس پیش کر نا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ بات سمجھنے میں آسانی ہو
ہمیں دونوں باتوں کا موازنہ کر نا چاہےء کہ آیا یہ بھتر ہے کہ ہم میں سے دوچار پہ ہولی کا رنگ پڑجاےء مسجد کو رنگ دیا جاےء اور ایک آدہ دن کسی مسجد کے سامنے کسی جلسہ جلوس کا ہنگامہ بپا رہے یا یہ بہتر ہے کہ پولیس کے فرقہ پرست عناصر کو ہمارے گھروں میں گھسنے مجرمانہ زدوکوب کرنے اور دہشت انگیزی کے تمام فن آزمانے کا موقع ہاتھ آجاےء؟حالات کی نزاکت اور 67 سالوں کا تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ پہلی شق پر ہی عمل کرنا ہر طرح سے سود مند ہے یہی دور اندیشی اور حکمت وتدبر کا تقاضہ ہیکہ اگر کسی جان لیوا اور لا علاج مرض کا اندیشہ ہو تو انسان حفظِ ماتقدم کے طور پہ اس سے بچنے کے لئے احتیاط برتے ،ایسے موقع پہ احتیاط علاج سے بہتر والے حکیمانہ قول پہ عمل کرنا ہی داانشمندی ہے ،شریعتِ مطہرہ کا بھی سنہرہ اصول ہے کہ جب دو نقصانوں یا دو برائیوں میں سے کسی ایک کو برداشت کر نا پڑے تو ان میں سے چھوٹی اور قلیل ترین براء اور نقصان کو اپنا یا جائے۔ قوم کے با اثر افراد ملی قائدین مذہبی رہنما نیز میڈ یا سے منسلک اشخاص اپنے اپنے حلقہء اثر میں اپنے اپنے طریقہ سے اس موقع پہ یہ سمجھا کر کہ احتیاط علاج سے بھتر ھے دین وملت کی ایک بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار نوجوان فاضل اور آزاد صحافی ہیں )