نایاب حسن
’’غبارِ خاطر‘‘کے آخری خط میں مولانا نے موسیقی کے فنی و تاریخی پہلووں پرنہایت دلچسپ و معلومات افزا گفتگو کی ہے،اس کے ساتھ ساتھ اپنی کہانی بھی بیان کی ہے کہ کس طرح فن موسیقی کی تعلیم و تربیت حاصل کی ،اسی ضمن میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بارآگرے کا سفرہوا اور وہاں کچھ دن قیام بھی رہا،اس دوران کی اپنی مصروفیات کے بارے میں لکھتے ہیں:’’اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں، جب رات کی پچھلی پہر شروع ہونے کو ہوتی،توچاند پردۂ شب ہٹاکر یکایک جھانکنے لگتا،میں نے خاص طورپر کوشش کرکے ایسا انتظام کررکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج چلاجاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا،پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہوجاتا‘‘۔(ص:308)یہ تو16؍ستمبر1943قلعۂ احمد نگر سے لکھے گئے خط کی عبارت ہے،اسی مضمون کی عبارت مولانا کے خطوط کے دوسرے مجموعے’’کاروانِ خیال‘‘میں بھی تحریر ہوئی ہے،وہ خط مولانانے26؍اکتوبر1940کو کلکتہ سے لکھا ہے،اس میں الفاظ کچھ الگ ہیں۔(ص:88)
ہارون الرشیدصاحب ’’انتساب‘‘والی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اولاً تو یہی اعتراف کرنے کو تیار نہیں کہ آزاد کبھی آگرہ گئے ،پھر اعتراض ہے کہ اگر گئے بھی،تو تاج محل کی چھت پر کیوں جاتے تھے،جبکہ وہ نیچے سے تاج کو زیادہ اچھے سے دیکھ سکتے تھے ? فرماتے ہیں:’’وہ کہتے ہیں کہ میں تاج محل کی چھت پر بیٹھ کر ستار بجایا کرتا، کبھی کسی نے انہیں آگرہ میں دیکھا ہی نہیں،ان کے ساتھ کبھی کوئی گیا ہی نہیں، انہوں نے کبھی اس کا ذکر ہی کسی سے نہیں کیا کہ ستار بجانے کے لیے تاج محل کی چھت پر جایا کرتے، پھر ایسی بھی کیا آفت پڑی تھی کہ تاج محل کی چھت پر ستار بجائیں، تاج محل نیچے ہے، آپ اسے دیکھ ہی نہیں رہے اور چھت پر ہلکان ہورہے ہیں‘‘۔☺
خاص ’’غبارِ خاطر‘‘کے خطوط یا مولاناکے ملکی و بیرونی اسفار پردسیوں لوگوں نے لکھاہے،تحقیقی نقطۂ نظر سے بھی اور تنقیدی زاویے سے بھی،مگر آج تک (میرے محدود علم ومطالعے کے مطابق) شایدکسی نے یہ نہیں کہایا لکھا کہ مولانا کبھی آگرہ نہیں گئے،ہارون صاحب کو اگر یہ ’’اہم ترین‘‘بات معلوم ہوئی ہے،تو یوں مُضحِک انداز میں بیان کرنے کی بجاے سنجیدگی اور متعلقہ ذرائع کی نشان دہی کے ساتھ بیان کرنا تھا،انھوں نے ایک بڑا دعویٰ کیا ہے اور علم وتحقیق کی دنیا میں ایسے بے دلیل کے دعوے کی کوئی وقعت نہیں ہوتی؛بلکہ یہ دعویٰ خود ان کے اپنے ہلکے پن کی دلیل بن جائے گا۔دوسری بات یہ کہ مولاناتاج کو دیکھنے کے لیے چھت پر نہیں چڑھتے تھے؛بلکہ جیسا کہ خود ان کے خط کی عبارت سے واضح ہے،وہ ڈھلتی رات میں طلوع ہونے والے چاند کی جمال انگیزی کو محسوس کرنااور اس کے حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ جگہ موزوں تھی۔
چوتھی بات:
اسی طرح مذکورہ سوال کے سطور یا بین السطور میں کہیں بھی مولانا حسین احمد مدنی کا ذکرنہیں ہے،مگر موصوف کے طنزوتعریض کارخ’’غالباً بے اختیارانہ‘‘ مولانا مدنی کی طرف بھی ہوگیا ہے،کہتے ہیں:’’ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ مولانا حسین احمد مدنی کا نام بغیر وضو کے نہیں لینا چاہیے‘‘۔وہ صاحب کون تھے،اس کی نشان دہی کرناتھی،یوں گول مول بات کرکے کسی شخصیت پر کیچڑ اچھالنا اپنے دل کے چور کو ظاہر کرنا ہے؛کیوں کہ ظاہرہے ہندوپاک ہی نہیں،دنیابھرمیں کہیں بھی پایاجانے والا مولانا حسین احمد مدنی کا کوئی بھی باہوش معتقد ایسا نہیں سوچ سکتا،اگر خدانخواستہ ان کے کسی معتقد کا ایسا عقیدہ ہے یا وہ ایسا سوچتاہے،تو وہ اس کی اپنی کج فکری ہے اور قطعی غلط ہے،مگر کیا اس کی وجہ سے مولانا حسین احمد مدنی کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑیں گے؟موصوف مذکورہ بے سرپیرکی بات نقل کرنے کے بعد اپنے دل کی اصل بھڑاس یوں نکالتے ہیں:’’حسین احمد مدنی کو شیخ العرب والعجم کہتے ہیں،عرب و عجم کے شیخ تو بس آخری رسول ﷺتھے یا سیدنا ابراہیمؑ ،جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا’’میں آپ کو تمام انسانوں کا امام بنادوں گا‘‘۔ جنابِ عالی!یہ تووہی بات ہوئی کہ مارے گھٹنا،پھوٹے سر،کیا حسین احمد مدنی کو’’ شیخ العرب والعجم‘‘ اُنہی معنوں میں کہا جاتاہے،جہاں آپ اسے کھینچ کر لے جانا چاہ رہے ہیں؟اب ہم یہ تونہیں کہہ سکتے کہ جناح صاحب کو’’قائدِ اعظم‘‘یعنی سب سے بڑا لیڈرکیوں کہا جاتاہے؟مسلمانوں کے اصل لیڈراورسب سے بڑے راہنما تو نبی اکرمﷺ ہیں اور دیکھاجائے تواپنے منطوق و مفہوم کے اعتبار سے ’’قائدِ اعظم‘‘ تو ’’شیخ العرب والعجم‘‘سے خاصا’’بھاری بھرکم‘‘خطاب ہے۔لیکن چوں کہ سب کو پتا ہے کہ جناح صاحب کو ’’قائدِ اعظم‘‘کس Senseمیں کہا جاتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ہرطبقہ بلاتفریقِ مسلک و فرقہ انھیں ’’قائدِ اعظم‘‘کہتا اور لکھتا ہے اور کسی کا ذہن کبھی اس طرف نہیں گیا کہ مسلمانوں کے قائدِ اعظم تواصلاً نبی پاکﷺکی بابرکت ذات ہے،ٹھیک یہی معاملہ’’شیخ العرب والعجم‘‘کا بھی ہے۔ عربی زبان میں ”شیخ ”کے ایک معروف معنی توعمردراز اور ضعیف العمرکے ہیں، جبکہ علمی حلقوں میں اس کادوسرامتداول معنی ہے استاذ، ماہرِ علوم وفنون وغیرہ اور آج کل مخصوص سیاسی خطابات کے سابقے یالاحقے کے طورپربھی اس کا استعمال ہورہاہے، اسلامی تاریخِ علم وفکرمیں ”شیخ الاسلام ”ایک دینی منصب رہا ہے اوراس کامطلب یہی ہے، وہ شخص جواسلامی علوم وافکار میں درک رکھتاہو، جیسے کہ حافظ ابن تیمیہ وغیرہ اورمولانا حسین احمدمدنی کوجولوگ ”شیخ العرب والعجم ”کہتے ہیں، تووہ اسی لیے کہ انھوں نے عرب (مسجدنبوی)وعجم (دیوبند)میں علمِ حدیث پڑھایا ہے، جو معنی آں جناب نے لیایالینا چاہاہے،اس طرف تودنیا بھرمیں شایدہی کسی کا ذہن جائے۔اسی طرح ’’شیخ‘‘اور ’’امام‘‘میں ایک واضح فرق ہے،’’شیخ‘‘کے مفہوم میں علمی،فکری ،سیاسی یا سماجی وجاہت کا مفہوم پائے جانے کے باوجودعام طورپر یہ اس کے مفہوم کا حصہ نہیں ہے کہ جو شیخ ہوگا ، تمام لوگ اس کی اتباع بھی کریں گے،جبکہ امام کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ شخص جس کی اقتدااور پیروی کی جائے،جب حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالیٰ کی جانب سے لیے گئے امتحانات میں کامیاب ہوگئے ، توانھیں بدلے کے طورپریہ خوش خبری دی گئی کہ انھیں لوگوں کا امام بنایا جاتا ہے،حضرت ابراہیم ؑ کو فوراً ہی اپنی اولاد کا خیال آیااور کہا’’میری اولاد کو بھی‘‘ توجواب آیاکہ ’’میرا یہ وعدہ(آپ کی اولاد میں سے) ظالموں کے لیے نہیں ہے‘‘ (البقرہ،آیت:124)محترم ہارون الرشید صاحب نے یہاں بھی اپنی علمی ہیبت جتانے کے لیے غلط استدلال سے کام لیاہے۔
اس جواب کے اخیر میں ان کا کہنا ہے کہ:’’ضرور مولانا حسین احمد مدنی متقی آدمی ہوں گے،قابلِ احترام،مگر ایسا کیاکارنامہ انھوں نے انجام دیاہے؟کوئی ایک جملہ ہی سنادیجیے‘‘۔ ہارون صاحب کے انٹروڈکشن میں ان کی جو خصوصیات گنوائی گئی ہیں،ان میں ایک یہ بھی ہے کہ’’ ان کی نثر میں دلکش کلاسیکی انداز کے ساتھ تاریخ،ادب اور قرآن و سنت کی ایقان افروز جھلکیاں ملتی ہیں‘‘،یعنی ایک صحافی ہونے کے باوجود ان کے مضامین میں قرآن وسنت کے اقتباسات اور حوالے وغیرہ آتے رہتے ہیں،جوگویاان کاایک ”امتیازی وصف ”ٹھہرا،دوسری جانب حسین احمد مدنی ہیں،جنھوں نے دس سال سے زائد حرمِ مدنی میں حدیثِ نبوی کا درس دیا اور اس کے بعد لگ بھگ تیس سال تک دارالعلوم دیوبند میں بھی علمِ حدیث پڑھاتے رہے،اب متحدہ قومیت کی وکالت کرنے کی بناپر اگر حسین احمد مدنی کی سیاسی سرگرمیاں، قیدوبند کے مشقت آمیزلمحات اور ملک بھر کے مسلمانوں میں حصولِ آزادی کی تڑپ پیدانے کرنے کی تگ و دوآپ کے یہاں کوئی معنی نہیں رکھتی،توآپ جیسے اسلامی ملک کے پکے مسلمان کو کم ازکم حسین احمد مدنی کی علمِ حدیث کی خدمت کوتوکسی خانے میں رکھ لینا چاہیے!
آخری بات:
خلاصہ یہ ہے کہ آزاد یا حسین احمد مدنی کے بارے میں انھوں نے جوکچھ بھی فرمایا ہے،وہ نہایت ہی لچر اور سطحیتِ فکرونظر کا” شاہکار “ہے اورنہ معلوم انھوں نے کس زعم میں یہ فرمایا ہے اور ان کا مقصد کیا ہے،سمجھ نہیں آتاکہ اس طرح بے سرپیرکی اڑاکر آخر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟آپ کو اپنا یا اپنے ہیرو کا قد اونچا کرنا ہے،توکیا ضروری ہیکہ اس کے مقابلے میں کسی دوسرے کو بونا ثابت کرکے یہ کام کیا جائے، پھر یہ کہ آپ سورج کو غبار آلود کرنے لگ جائیں یا چاند پرتھوکنے لگیں،تو یہ کوئی عقل مندی تھوڑی ہوئی،آپ اپنے یا اپنے ہیروکے مثبت کارناموں کواُجالیے، اُچھالیے اورآپ اپنے میں مست رہیے،ہم اپنے میں مست ہیں،لکھنے اور بولنے کو کس کے پاس کیا نہیں ہے،خواہ مخواہ اس طرح کے شگوفے چھوڑنے سے کیا فائدہ،پھریہ کہ اگراس قسم کے موضوعات پراظہارِ خیال کاشوق ہی ہے، توپھرتنقید وتجزیہ کامعروضی ومنطقی سٹائل اختیارکرناچاہیے، جبکہ آں محترم کے الفاظ، بیان کے تیور اورنکیلے طرزِ اداسے صاف محسوس ہوتاہے کہ خودبھی متعلقہ شخصیتوں کی تحقیرکررہے ہیں اورسامنے والے کویہ تاثربھی دے رہے ہیں کہ میری باتیں سو فیصد سچ ہیں ۔





