تین طلاق پر پابندی کیلئے قانون سازی شریعت میں کھلی مداخلت،عورتوں کے مسائل مزید دشوارہوں گے :مسلم پرسنل لاءبورڈ

حیدرآباد (ملت ٹائمزپریس ریلیز)

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری و ترجمان مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے حکومت کی طرف سے تین طلاق پر مکمل پابندی کے مجوزہ قانون پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلاق کا مسئلہ ایک مذہبی مسئلہ ہے، جب کسی عورت کو طلاق دی جائے تو وہ اس مرد کے لئے حرام ہوجاتی ہے، تین طلاق کو غیر معتبر قرار دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان دونوںکو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے، اور وہ ایک ایسے عمل کے مرتکب ہوں، جو اسلام کی نظر میں سخت گناہ ہے، اور زنا میں شامل ہے، دستور کی دفعہ 25کے مطابق ملک کے ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے، اور دستور بنانے والوں نے اسے شہریوں کے بنیادی حقوق میں جگہ دی ہے، اس لئے حکومت کا یہ اقدام ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی سازش ہے، اس میں شبہ نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ اور بے جا عمل ہے، اور یہ قانون شریعت کا غلط استعمال ہے؛ لیکن قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے سرے سے اس قانون کو ہی ختم کردینا نامعقول بات ہے، ہمارے ملک کے قانون میں ایمرجنسی کی گنجائش ہے، 1976ءمیں اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا، اس کی وجہ سے اگلے انتخاب میں برسراقتدار پارٹی کو شکست فاش ہوئی اور اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں آئیں، انہوں نے ایمرجنسی کی مذمت ضرور کی؛ لیکن قانون کو برقرار رکھا، اسی طرح بعض حالات میں مرکزی حکومت کے مشورہ پر ریاستی حکومت کو برخواست کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے، مرکزی حکومتیں اس گنجائش کا غلط استعمال کرتی رہی ہیں اور عدالتوں نے بار ہا اس پر پھٹکار لگائی ہے؛ لیکن قانون کے اس غلط استعمال کی وجہ سے خود قانون کو ختم نہیں کیا گیا؛ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ جب شریعت میں تین طلاق دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے اور خود مسلمان عورتوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، تو وہ اس پر پابندی لگاکر دستور کے تقاضوں کو پامال نہ کریں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ خود بھی طلاق اور بالخصوص تین طلاق کے بے جا استعمال کو روکنے کی کوشش کررہی ہے اور اس نے ملک بھر میں اصلاح معاشرہ اور تفہیم شریعت کی مہم چلا رکھی ہے، حکومت اگر واقعی مخلص ہے تو اس کو اس سلسلے میں بورڈ سے مشورہ کرنا چاہئے اور شریعت اسلامی کے دائرہ میں رہتے ہوئے طلاق کے بے جا استعمال کو روکنے اور مطلقہ کی مشکلات کو حل کرنے کی سعی کرنی چاہئے، حکومت نے اگر اس طرح کا قانون بنایا، جس کا اس نے عندیہ دیا ہے تو اس سے عورتوں کےلئے مزید دشواریاں پیدا ہوں گی اور مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور الجھ کر رہ جائے گا، مولانا رحمانی نے مزید کہا کہ اگر حکومت نے اپنے اعلان کے مطابق قانون بنانے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ کے ذریعہ اسے روکنے کی کوشش کی جائے گی اور اسے عدالت میں بھی چیلنج کیا جائے گا۔