محمد آصف ا قبال
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا نظام انسان کے وجود سے ہے۔اوراگر مان لیا جائے کہ دنیا میں انسان ہی نہ ہوتا تو اِس کا نظام بھی اس شکل میں نہ چلتا جس طرح آج ہم دیکھ رہے ہیں۔اس کے باوجودیہ بات ناقابل یقین اور حیرت و افسوس کی ہے کہ انسانوں کا ایک بڑا طبقہ خود اپنے وجود اور اس کے مراحل سے لاعلم ہے۔ناواقفیت اپنے وجود سے، ناواقفیت اس بات سے کہ وہ دنیا میں کیوں اور کس حیثیت سے آیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے برخلاف جن مذاہب و رسم و رواج یا کلچر سے انسانوں کے گروہ تعلق رکھتے ہیں،وہ اعلیٰ سطح پر ترقیوں کے منازل طے کرنے کے باوجود ،یہ فیصلہ آج تک کرنے سے قاصر ہیں کہ درحقیقت ان کی خود کی حیثیت کیا ہے؟یعنی انسان درحقیقت کیا ہے اور دنیا میں اس کی موجودگی کے کیا تقاضے ہیں۔پھر چونکہ ایک بڑے طبقے نے ہر زمانے میں مذہب سے بیزاری کا رویہ اختیار کیا لہذا مذہب بیزاری ہی کا نتیجہ تھا اور ہے کہ مذہبی تعلیمات کو اس نے کوئی اہمیت نہ دی۔اور سوال کا جواب وہاں تلاش کیا جہاں درحقیقت اس کے پاس کوئی سند نہ تھی،سند تھی تو قیاسات پر مبنی افکار و نظریات کی،جو زماں و مکاں کی تبدیلی کے ساتھ خو د بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔دیکھنا یہ چاہیے کہ آیا وہ کہاں تک کامیاب رہا اور کن حیثیتوں ،تصورات و نظریات میں وہ ناکام ثابت ہواہے۔انہیں کوششوں کی کچھ جھلکیاں یہاں ہم پیش کر رہے ہیں۔صرف اس لیے کہ قاری خود کو اُن تصورات اور افکار ونظریات کے سانچے میں ڈھال کر دیکھے،کہ آیا وہ وہی ہے جو دوسرے اُس کے تعلق سے بحث کرتے نظر آرہے ہیں ؟ یا اُس سے کچھ مختلف؟ممکن ہے یہ باتیں ان لوگون کو سوچنے پر مجبور کریں جو “عقیدہ”سے پرے دیگر افکار و نظریات سے بحث کرتے ہیںیا کم از کم اس کو سمجھنے میں کوشاں ہیں۔
عموماً سائنس اور فلسفہ سے متعلق تقریباً تمام مطالعوں کی ابتدا ہمیں یونانی فلسفہ کی تصانیف میں ملتی ہیں۔ان کے زمانے سے پہلے محض مبہم قیاس آرائیاں ہی دستیاب ہوسکی تھیں۔جن میں سے کچھ خاصی دلچسپ ہیں لیکن ان کی سائنسی اہمیت بہت مشتبہ ہے۔قدیم یونانی مفکروں کے بارے میں بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ جن نظریات سے انہوں نے بحث کی ہے وہ کس حد تک درست ہیں۔ یہ بات صاف ہے کہ انہوں نے اپنی گرد وپیش کی دنیا کے عام پہلوؤں کو علاحدہ علاحدہ کرکے ابتدائی امتیازات پیش کیے ہیں۔ جیسے آگ ،ہوا،پانی اور ٹھوس مادہ جسے انہوں نے زمین کا نام دیا تھا۔یا کشش اور دور دھکیلنے کے رجحانات میں ، دوام اور تغیر میں،وحدت اور کثرت میں،مادے اور ہیت میں اور اعلیٰ ہذالقیاس زندگی کی عام حقیقت،اور خصوصاً انسانی زندگی نے سب سے پہلے ان کو اپنی جانب متوجہ کیا۔انہوں نے اس کا اپنے گرد و پیش کے دوسرے حقائق سے سلسلہ جوڑنے کی کوشش کی۔مثال کے طور پرہیراکلیٹس(Heraclitus)نے بلندی اور پستی کی سمت حرکت کے عام رجحان سے اس کا رشتہ جوڑا۔جو اس کے نزدیک قدرت میں ہر طرف کار فرمانظر آرتاہے۔جیسے ابخرات کے اٹھنے میں اور بارش ہونے میں رات اور دن میں،گرمی اور سردی میں،خواب اور بیدار میں،حیات اور ممات میں ،نشونما اور انحطاط میں،نیکی اور بدی میں،ترقی اور تنزلی میں۔اس طرح کے طریقہ ہائے بحث نے بعض قدیم یونانی فلسفیوں کو جدید نظریہ ارتقاء اور اس کے انسانی زندگی پر عملی انطباق کے بہت سے مسائل تک پہنچایا دیا،لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بالکل ابتدائی دور میں انسانی زندگی کی ناہمواریوں نے خصوصاً اس کے سماجی پہلوؤں کی غیر ہمواری نے ان کو کافی متاثر کیا۔اس کے باجود انہوں نے مشاہدہ کیا کہ آگ کے جلنے کا ایک مقررہ طریقہ ہے،اس کا جو طریقہ یونان میں ہے وہی ایران میں بھی ہے۔یہی بات مجموعی طور پر پودوں کی نشونما،حیوانات کی جبلتوں،سیاروں کی حرکت اور دوسرے قدرتی طرزہائے عمل کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔جن میں بڑی حد تک یکسانیت ملتی ہے۔چنانچہ ان مشاہدوں کے ذریعہ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یکسانیت ہر فطری چیز کی خصوصیت ہے اور اس میں تغیر نہیں ہے۔
اسی طرح پانچویں صدی قبل مسیح کے درمیانی زمانے میں یونان میں معلمین انسانی کی ایک جماعت ابھری جسے عموماً سوفسطائیوں(Sophists)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔انہوں نے فطری انشاء کے درمیانی تضاد کو نمایاں کرے کے پیش کیا۔وہ ایک طرح سے چلتے پھرتے استاد تھے جوہمیشہ سرگرم سفر رہتے تھے۔مختلف مقامات کی سیاحت کے دوران جس چیز نے خاص طور پر انہیں متاثر کیا وہ وہاں کے رواجوں،قوانین اور آئین حکومت وغیرہ کی وسیع نیرنگی تھی۔ان کو دیکھ کر وہ یہ کہنے پر مائل ہوئے کہ کیوں کہ ان کے اندر فطری معروضات کی سی باقاعدگی نہیں ہے اس لیے ان کو محض روایتی سمجھنا چاہیے۔ان کا انحصار انسانی معاہدوں،سمجھوتوں یا محض حکمرانوں کے بے اصول انتخاب پر تھا۔ان کی حقیقی بنیاد اشیاء کی فطری خصوصیات میں موجود نہیں تھی۔اس طرح ان چیزوں کے درمیان جو فطری وجود رکھتی ہیں اور ان میں جن کا وجود انسانی قوانین یا روایتوں پر منحصر ہے واضح امتیاز پیش کیا گیا اور اس کی اہمیت پر سختی سے زور دیا گیا۔
دوسری جانب جب ہم لفظ انسان کو سمجھنا کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی مختلف اوقات میں مختلف فکر و نظر نے یا تو فلسفہ سے کام لیا یا قیاس آرائیوں سے ۔کہیں انسان کی تعریف بے پروں کا دوپایہ جیسی مضحکہ خیز تعریف کی تو کہیں حیوانِ ناطق جیسی تعریفیں ملتی ہیں۔بیک ہاٹ(Bagehot) نے کہا تھا کہ میں ایک روح ہوں جو حیوان کی شکل میں ہے۔اسی طرح فرنیکلن (Franklin) اور کارلائل(Carlyle) نے انسان کو آلات سے کام لینے والا جانور قرار دیا ہے۔مارگن(Prof Llyod Morgan) نے اپنی کتاب Animal Life and Intelligenceمیں کہا،کہ اگر انسان کو آلات سے کام لینے والا جانور تسلیم کر لیا جائے تو وہاں آلات کا بھی وسیع مفہوم لینا ہوگا۔جس میں مشینوں،کتابوں،اداروں اور جانوروں سے کام لینا بھی شامل ہے۔وہیں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ استدلال کی صلاحیت کے باوجود بھی اگر انسان کو ایک مخصوص جسمانی ساخت ودیعت نہ ہوئی ہوتی تو انسانی زندگی وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ایک مکمل عضلاتی اور استخوانی بناوٹ کے بغیر وہ اپنے جسم کو اس طرح سیدھا اور کھڑا نہ رکھ سکتا تھا کہ دوسروں پر حکمرانی اور برتری کا سکہ جماسکے۔انیکسگوراز( Enexgoras)اس بات کا حامی ہے کہ انسان کی افضلیت تمام تر اس کے ہاتھوں کی بدولت ہے۔وہ کہتا ہے کہ اپنے اعلیٰ حواس اور آنکھوں کے بغیرو ہ معروضات کا اتنی صحت کے ساتھ مشاہدہ نہیں کر سکتا تھا کہ انہیں اپنے مقاصد کے مطابق ڈھال سکے۔ہاتھوں کی آزادانہ حرکت کے بغیر اس کے لیے وہ اوزار اور مشینیں بنانا مشکل ہوتا جن سے آج ہم واقف ہیں اور جن کی قدیم شکلوں کو انسان کے جسمانی اعضاء کی توسیع دی ہوئی شکل سے کچھ ہی زیادہ سمجھا جا سکتا تھا۔یہ مفکرین جوانسان اور انسانی ساخت اور اس کی خصوصیات پر بحث کرتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسانی جسم کی انوکھی خصوصیات پر توجہ دیئے بغیر ہم انسانی زندگی کو مکمل طور پر سمجھنے کی امید نہیں کر سکتے۔
گفتگو کے پس منظر میں غور کیجئے جو انسان خود کو انسانِ کامل ہی نہ سمجھتا ہو وہ کس طرح دنیا کے بارے میں صحیح رائے قائم کرسکتا ہے؟اور اگر ایک شخص ، گروہ یا قوم اپنے وجود اورآغاز و انتہا کو دنیا کے وجود اور آغاز و انتہا سے صحیح معنوں میں رشتہ قائم کرنے میں ناکام ٹھہرتا ہے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے لیے یا دیگر افراد و گروہوں کے لیے سود مند ثابت ہوجائے۔لہذا دنیا میں کسی بھی نظام کے قیام و استحکام کے لیے لازم ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنے وجود سے خوب اچھی طرح خود واقف ہوجائے! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری(ملت ٹائمز)
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com