عام آدمی پارٹی: جد و جہد بھرے پانچ سال

ڈاکٹر یامین انصاری

عام آدمی پارٹی نے اپنے قیام کے پانچ سال مکمل کر لئے ہیں۔ اس نئی پارٹی نے اپنے پانچ سالہ سفر کے دوران جتنے نشیب و فراز دیکھے ہیں، شاید کوئی دوسری سیاسی جماعت نے ان حالات کا سامنا نہیں کیا ہوگا۔ اگرچہ پارٹی کے قیام کے دو سال کے اندر ہی ملک کی راجدھانی دہلی کا اقتدار اسے حاصل ہو گیا، جو تاریخی اہمیت کا حامل ہے، لیکن اس کے بعد پارٹی میں یکے بعد دیگرے کئی نا خوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ یہ واقعات پارٹی کی توسیع اور اس کی مقبولیت کے لئے کافی نقصاندہ ثابت ہوئے۔
بدعنوانی مخالف تحریک سے جنم لینے والی عام آدمی پارٹی کو شروع میں ایک ایسی جماعت کے طور پر دیکھا گیا، جو ملک کے بد عنوان اور ناقص نظام کو درست کر سکتی ہے، جو سماج اور سیاست میں اصلاحات کی علمبردار ثابت ہو سکتی ہے ۔ خاص طور پر سماج کے دبے کچلے غریب، مزدور اور متوسط طبقہ میں ایک امید کی کرن روشن ہوئی۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ بد عنوانی مخالف تحریک کے زمانے سے ہی شہری طبقہ کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان، اعلی عہدوں پر فائز اہم شخصیات، بڑی بڑی کمپنیوں سے وابستہ ہونہار پروفیشنلس اور جوش و ولولہ کے ساتھ اپنے دل میں ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر لے جانے کا عزم کئے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پہلے انا ہزارے اور پھر اروند کجریوال کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی کجریوال کے ساتھ کھڑے نظر آئے جو کانگریس اور بی جے پی کے طریقہ کار اوران کے نظریات کے سبب سیاست میں آنا نہیں چاہتے تھے۔ انھیں عام آدمی پارٹی میں ملک کو آگے لے جانے کی صلاحیت اور حوصلہ نظر آیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ۳۱۰۲ءمیں ہوئے دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی ۰۷ میں سے ۸۲ سیٹیں جیت کر دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ اکثریت سے کچھ سیٹیں کم رہ جانے کے سبب اسے کانگریس سے ہاتھ ملانا پڑا، لیکن یہ اتحاد دیر پا ثابت نہیں ہو ا۔ ۹۴ دن حکومت چلی اور پھر دہلی میں صدر راج نافذ ہو گیا۔حکومت بذریعہ لیفٹیننٹ گورنرمرکزکے پاس منتقل ہو گئی۔ اس کے بعد عام آدمی پارٹی نے کافی محنت کی۔ یہ وہ دور تھا جب ملک بھر میں مودی کی لہر چل نکلی تھی۔ اسی دوران ۴۱۰۲ءکے عام انتخابات میں بی جے پی نے نریندر مودی کی قیادت میں شاندار جیت حاصل کی۔ اس کے چند ماہ بعد ہی دہلی میں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہو گیا۔ مودی کا جادو لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس وقت کسی نے سوچا بھی نہیں تھا اور ۵۱۰۲ءکے اوائل میں ہوئے دہلی اسمبلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے مودی لہر کو خاموش کر دیا۔ ان انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے غیر معمولی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ۰۷ رکنی اسمبلی میں ۷۶ نشستیں حاصل کر لیں۔ جہاں خود وزیر اعظم مودی ، ان کے درجنوںکابینی رفقا، درجنوں ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی نے دہلی کے گلی محلوں کی خاک چھانی، وہاں بی جے پی محض ۳ سیٹیں ہی حاصل کرسکی، جبکہ سابق حکمراں کانگریس پارٹی کا تو اسمبلی میں وجود ہی ختم ہو گیا۔ عام آدمی پارٹی کی یہ جیت کوئی معمولی جیت نہیں تھی۔ پارٹی کی اس مثالی کامیابی کی ستائش ملک ہی نہیں، بیرون ملک میں بھی ہوئی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پارٹی نے اچھے دنوں کے بعد برے دنوں کو بھی دیکھا۔ اسی جیت کے بعد پارٹی میں پہلی بار انتشار کھل کر سامنے آ گیا۔ یہاں تک کہ اس کے بانیان میں شامل کچھ بڑے نام بھی پارٹی سے باہر ہو گئے یا انھیں باہر کر دیا گیا۔ اگر تجزیاتی طور پردیکھا جائے تو پارٹی میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کی وجوہات اتنی بڑی نہیں تھیں، بلکہ سمجھداری یہ تھی کہ انہیں پارٹی کے اندر ہی سلجھایا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہاں سب سے پہلے پارٹی لیڈران میں نا تجربہ کاری اور عدم برداشت کا بھرپور مظاہرہ ہوا۔ جو باتیں پارٹی فورم پر ہونی چاہئیں، وہ میڈیا میں اور عوامی مقامات پر ہونے لگیں۔ پارٹی میں شکست و فتح پر غور و خوض پارٹی کی میٹنگوں میں نہیں، باہر کیا جا نے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کجریوال کو پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے چکر میں اپنے دیرینہ ساتھیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پارٹی میں وقفہ وقفہ سے اتفاق رائے کا فقدان نظر آیا۔ کئی بڑے فیصلوں میں پارٹی لیڈران کی نا اتفاقی بار بار سامنے آئی۔ یہاں تک کہ پارٹی کو قومی سطح پر وسعت دینا ہے یا نہیں، اس پر آج بھی پارٹی میں شاید ایک رائے نظر نہیں آتی۔ پارٹی کنوینر اروند کجریوال کا بنارس جا کر نریندر مودی کے خلاف پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ خود کشی کے مترادف ثابت ہوا۔ تجزی نگارو ں نے بھی کجریوال کے اس فیصلے پر سوال اٹھائے۔اس کے بعد پنجاب اور گووا میں پارٹی نے کافی محنت کی، خوب زور و شور سے پارٹی انتخابی میدان میں اتری۔ لیکن اسے وہ کامیابی نہیں ملی، جس کی امید پارٹی لیڈران نے کی تھی۔شاید اس کی وجہ بھی پارٹی کو قومی سطح پر وسعت دینے کے سلسلہ میں لیڈران کا تذبذب رہا ہو۔ اس کے علاوہ مرکز سے مسلسل ٹکراو ¿ کی صورت حال نے بھی عام آدمی پارٹی کے تعلق سے لوگوں کے ذہنوں میں میڈیا کے ذریعہ یہ بات گھر کرنے لگی کہ پارٹی جان بوجھ کر ٹکراو ¿ کی سیاست کرکے وقت ضائع کر رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے راجدھانی میں ترقیاتی کاموں میں رخنہ پڑ رہا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ مکمل ریاست کا درجہ نہیں ہونے کے سبب دہلی حکومت کے پاس اختیارات محدودہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بی جے پی دہلی اسمبلی انتخابات میں ملی شرمناک شکست کو چاہتے ہوئے بھی بھلا نہیں پا رہی ہے۔ اسی لئے مرکز میں بر سر اقتدار ہونے کے سبب بی جے پی نے جیسے عام آدمی پارٹی کی حکومت کو ایک دائرہ میں محدود رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ پہلے نجیب جنگ کے ذریعہ اور اب انل بیجل کے ذریعہ جہاں تک ممکن ہو، دہلی حکومت کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ایسے کاموں میں بھی رخنہ ڈالا گیااور فائلیں روکی گئیں، جو عوام کے مفاد میں تھے۔ پولیس، سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعہ دہلی حکومت کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ غرض یہ کہ ایل جی اور پولیس کمشنر کے دفاتر سیاسی اکھاڑہ نظر آنے لگے۔کجریوال نے بھی بی جے پی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور مضبوطی کے ساتھ اب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ساتھ ہی پارٹی میں بھی کجریوال نے ’اپنوں‘ سے خوب مقابلہ کیا اور آج تک پارٹی پر اپنی مضبوط گرفت بنائے رکھی ہے۔
بہر حال ان تمام شکست و فتح اور نشیب و فراز کے بعد آخر کار پارٹی نے اب لگتا ہے کہ دہلی پر ہی فوکس کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اپنے محدود اختیارات کے باوجوعام آدمی پارٹی کی حکومت دہلی کے عوام کے بنیادی مسائل پر کام کر ر ہی ہے۔ بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں حکومت کے ذریعہ کئے گئے کام دہلی والے خود محسوس کررہے ہیں۔ لیکن کجریوال حکومت نے سب سے انقلابی کام تعلیم اور صحت کے شعبہ میں کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی حکومت کی سب سے بڑی حصولیابی تعلیم اوصحت کے شعبہ میں کئے گئے کاموں کی قومی اور عالمی سطح پر ہونے والی تعریف ہے۔ پارٹی سے اوپر اٹھ کر عام لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’محلہ کلینک‘کا کامیاب تجربہ اور سرکاری اسپتالوں میں بہتر سہولیات نے عام آدمی کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں میں آئی انقلابی تبدیلی نے بھی کجریوال حکومت کی حصولیابیوں میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی طرح نظر آنے والی سرکاری اسکولوں کی نئی عمارتیں، ان اسکولوں میں صفائی ستھرائی کا نظام، پی ٹی ایم یعنی والدین اور اساتذہ کے درمیان شروع ہونے والی میٹنگ کا سلسلہ واقعی قابل تعریف اقدام ہیں۔کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنی نا تجربہ کاری کے سبب عام آدمی پارٹی نے کچھ غلطیاں تو کیں، لیکن تمام رکاوٹوں کے باوجود کجریوال حکومت نے دہلی میں مختلف شعبوں میں کام کرکے دکھا دیا کہ اگر حکومتیں چاہیں تو وہ مشکل حالات میں بھی عوام کے مفاد میں کام کر سکتی ہیں۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں