رحمتِ نبوی ﷺ کے چند گوشے

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے ، یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں ، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا ، وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین، ( الانبیاء : ۱۰۷) —– اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے ، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں ، اورشاہد ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو ، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے ، آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے ، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے ، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔
ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا ، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پرستی کے یہ ایک انقلابی عقیدہ ہے ، خدا کا انکار انسان کو غیرذمہ دار ، گناہوں کے بارے میں جری اور مادہ پرست بنا دیتا ہے ؛ کیوںکہ اسے جواب دہی کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور دنیا اس کے لئے محض عشرت کدہ ٔ حیات ہوتی ہے ، گویا انسان خدا کی بندگی سے آزاد اور لذت و عیش کا غلام بن جاتا ہے ، شرک انسانیت کی تذلیل ہے ، کیوںکہ مشرک ادنیٰ سے ادنیٰ شئ کے سامنے بھی پیشانی جھکانے میں کوئی حیا محسوس نہیں کرتا ، مشرک خدا کے بجائے مخلوق سے نفع و نقصان کی اُمیدیں وابستہ کرلیتا ہے ، اس لئے اس میں توہم پرستی پیدا ہوتی ہے ، اسے قدم قدم پر نحس اور بے برکتی کے خطرات پریشان کرتے رہتے ہیں اور معمولی چیزوں کے خوف سے بھی اس کا دل بیٹھا رہتا ہے ، اللہ کے ایک ہونے کے تصور سے انسانیت کی تکریم اور اس کا اعزاز متعلق ہے ، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اس کی پیشانی غیراللہ کے سامنے جھکنے سے ماوراء ہے اور خدا نے اس کو پوری کائنات پر فضیلت بخشی ہے ، اسی لئے قرآن ہمیںبتاتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں سے بھی حضرت آدم کو سجدہ کرایا ، اور اس طرح انسانی کرامت و شرافت کو ظاہر فرما دیا ، عقیدہ توحید نے انسانیت کو اوہام پرستی سے نجات دلایا ؛کیوںکہ توحید پر ایمان رکھنے والا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مخلوق اسے نفع و نقصان پہنچانے سے عاجز ہے ، توحید کا عقیدہ انسان کے اندر خدا کی محبت اورخدا کا خوف پیدا کرتا ہے اور یہ خشیت اور خدا کے راضی کرنے کا جذبہ فرائض کی ادائے گی اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہے اور وہ دنیا کو قصر عشرت سمجھنے کے بجائے محل امتحان سمجھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے ، اس لئے توحید کا عقیدہ انسانیت کے لئے بہت بڑی نعمت اورسامان رحمت ہے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانیت کو حاصل ہوا ۔
گو حضور ا سے پہلے بھی انبیاء نے توحید کی تعلیم دی اور بہت سے مصلحین نے بھی شرک کی تردید و انکار کا فریضہ انجام دیا ، لیکن حضرت نوح ؑ سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک ہمیشہ انسانیت پر مشرکانہ فکر کا غلبہ رہا ، یہاں تک کہ جو مذاہب توحید کا علم لے کر اُٹھے ، وہ خود بھی شرک کے رنگ میں رنگ گئے ، یہودی اصلاً موحد تھے ، لیکن یہود کے بعض فرقوں نے حضرت عزیرؑ کو خدا کا شریک قرار دیا ، عیسائیوں نے تو حضرت مسیح کی الوہیت کو اپنے عقیدہ کا بنیادی جزو ہی بنالیا ، ہندو مذہب میں بھی توحید کا عنصر موجود ہے ، مگر انھوں نے خود اپنے لاتعداد خدا تخلیق کر لئے ، بودھ مذہب کی بنیاد مذہب کے شارحین کے خیال کے مطابق خدا کے انکار پر ہے ، لیکن بودھ مذہب کے متبعین نے خود بودھ جی کی پرستش شروع کردی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی فکر کو اس طرح غالب فرمایا کہ وہ قیامت تک کے لئے ایک غالب فکر بن گئی ، یہاں تک کہ جن مذاہب کی اساس شرک پر تھی ، ان میں بھی ایسی تحریکات اٹھیں جو توحید کی داعی تھیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت ِ رحمت کا دوسرا مظہر ’’ انسانی وحدت ‘‘ کا تصور ہے ، آپ کی بعثت سے پہلے قریب قریب دنیا کی تمام تہذیبوں اور مذاہب میں انسان اور انسان کے درمیان تفریق اور کچھ لوگوں کے پیدائشی طورپر معزز اور کچھ لوگوں کے حقیر ہونے کا تصور موجود تھا ، یہودی اسرائیلی اور غیر اسرائیلی میں تفریق کرتے تھے اور جو لوگ حضرت یعقوبؑ کی نسل سے ہوں ان کو پیدائشی طور پر افضل و برتر جانتے تھے ، ایران کے لوگوں کا خیال تھا کہ جولوگ بادشاہ کی نسل سے ہوں وہ خدا کے خاص اور مقرب بندے ہیں بلکہ خدا کا کنبہ ہیں ، ہندوستان کا حال تو شاید سب سے خراب تھا کہ انسانیت کو مستقل طورپر چار طبقوں میں تقسیم کردیا گیا تھا ، کچھ لوگوں کے بارے میں تصور تھا کہ وہ خدا کے سر سے پیدا کئے گئے ہیں ، کچھ لوگ خدا کے بازو سے ، کچھ کی پیدائش خدا کے ران سے ہوئی ہے اور کچھ کی پاؤں سے ، یہ برہمن ، ویش ، کھتری اور شودر کہلاتے تھے ، شودر اتنا بدقسمت گروہ تھا کہ تاریخ عالم میں شاید ہی ایسی اجتماعی اور قومی مظلومیت کی مثال مل سکے ، ان پر تعلیم کا دروازہ بند تھا ، ان کے لئے کچھ ذلیل سمجھنے جانے والے پیشے مخصوص تھے اور وہ اونچی ذاتوں کے لئے پیدائشی غلام سمجھے جاتے تھے ، کم و بیش یہی حال دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف قوموں میں تھا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی وحدت کا تصور پیش کیا اور پیدائشی طور پر افضل و برتر اور حقیر و کہتر ہونے کے تصور کو رد فرمادیا ، آپ ا نے صاف اعلان کیاکہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر محض رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی فضیلت نہیں ، بلکہ فضیلت کا معیار انسان کا تقویٰ اور اس کا عمل ہے ، اس اعلان نے عرب کے معزز قبائل اور حبش و روم کے بلالؓ و صہیبؓ کو ایک صف میں کھڑا کردیا ، بلکہ یہ عجمی نژاد غلام جو کبھی حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ، زعماء عرب کے لئے وجہ رشک بن گئے اور حضرت عمر فاروقؓ جیسے فرمانروا بھی انھیں اپنے ’’ سردار ‘‘ کے لفظ سے مخاطب کرتے تھے ، یہ آپ ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ہی تفریق و امتیاز کی زنجیریں کٹنے لگیں، انسانی مساوات کے نعرے ہر سو بلند ہوئے اور دنیا کی مظلوم و مقہور قوموں کو پیدائشی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی اور اگر کہیں کسی انسان گروہ نے اپنی شقاوت اور جور و جفا سے اس ظلم کے سلسلہ کو جاری بھی رکھا ، تو ان کو ہر طرف سے طعن و تشنیع کے الزام سننے پڑے اورمظلوموں کو ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا موقعہ فراہم ہوا ، یہ آپ کی رحمت عامہ کا ایسا پہلو ہے کہ کوئی صاحب بصیرت اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔
اس وحدت انسانی کے تصورنے زندگی کی تمام شعبوں پر اپنا اثر ڈالا ، تما م لوگوں کے لئے ہر طرح کے پیشہ کا دروازہ کھل گیا اور پیشوں کی تحقیر و تذلیل کا تصور ختم ہوا ، علم کی روشنی عام ہوئی اور ہر ایک کے لئے تعلیم کا دروازہ کھلا ، سماجی زندگی میں ہر ایک کے لئے باعزت طریقہ پر زندگی بسر کرنے کاموقع فراہم ہوا ، جرم و سزا کے باب میں انصاف کا قائم کرنا ممکن ہوا اور ہر ایک کے لئے اپنی تہذیب اور اپنی روایات کا تحفظ ممکن ہوسکا ، لیکن اس انسانی وحدت کے تصور نے سب سے زیادہ اثر سیاسی نظام پر ڈالا ، اسلام سے پہلے پوری دنیا کے سیاسی اُفق پر ملوکیت کا تصور چھایا ہوا تھا اور اس کے مقابلہ میں کوئی اور نظام سیاست عملاً موجود نہیں تھا ، ظہورِ اسلام کے وقت جتنی معلوم طاقتیں تھیں وہ سب ملوکیت کی نمائندہ تھیں، روم میں بادشاہت تھی ، ایران میں بادشاہت تھی ، حبش میں بادشاہت تھی ، یمن میں بادشاہت تھی ، ہندو چین کے علاقوں میں بھی چھوٹے بڑے راجا تھے ، غرض پوری دنیا بادشاہت کے آمرانہ نظام اور پنجۂ استبداد کے تحت تھی ، یہاں تک کہ یونان کے فلاسفہ نے جس جمہوریت کا نقشہ پیش کیا تھا ، اس میں بھی ’’ اشراف ‘‘ کی حکومت کا تصور تھا اور عام لوگوں کے اقتدار میں شرکت کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔
اسلام نے انسانی وحدت اور مساوات کا جو تصور پیش کیا اس نے محض خاندانی بنیاد پر حکومت و اقتدار کے ارتکاز اور فرمانروائی کے تصور کو پاش پاش کردیا اور جمہوریت کے تصور نے غلبہ حاصل کیا ، چنانچہ آج صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں جمہوری نظام قائم ہے جو اسلام کے تصور خلافت سے مستعار اور اپنی بعض خامیوں کے باوجود انسانی وحدت و مساوات کا علمبردار ہے ، یہاں تک کہ آج یا تو بادشاہت کا وجود ہی نہیں ، یا ہے تو محض دستوری اور علامتی بادشاہت ہے ، اور اگر کہیں جبراً آمرانہ ملوکیت باقی ہے تو وہ پوری دنیا کی نگاہ میں قابل تحقیر اور لائق ملامت ہے ۔
رحمتِ نبوی کا تیسرا اہم پہلو علم کی حوصلہ افزائی ہے ، آپ جس سماج میں تشریف لائے وہاں لوگ اس بات کو سرمایۂ افتخار سمجھتے تھے کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ، وہ بہت ہی فخر کے ساتھ اپنے ’’ اُمّی ‘‘ ہونے کی بات کہتے تھے ، آپ ا نے تعلیم و تعلم کی حوصلہ افزائی فرمائی اور علم کو بلا امتیاز و تفریق ہر طبقہ کے لئے عام فرمایا ، پھر آپ نے علم کے معاملہ میں دین اور دنیا کی کوئی تقسیم نہیں کی ، بلکہ ہر وہ علم جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہو خداسے اس کے لئے دُعاء فرمائی اور فرمایا کہ علم و حکمت کی جو بات جہاں سے مل جائے ، اس کی طرف ایسا لپکنا چاہئے ، جیسے انسان اپنی گم شدہ چیز کے لئے لپکتا ہے ، الحکمۃ ضالۃ المؤمن، ( ترمذی : ابواب العلم ، حدیث نمبر : ۲۶۸) آپؐ نے مسلمانوں کے بچوں کو بدر کے مشرک قیدیوں سے تعلیم دلائی اور مدینہ میں یہودیوں کی درس گاہ ’’ بیت المدراس ‘‘ میں تشریف لے گئے ، جس سے علم کے باب میں آپ کی فراخ قلبی اور کشادہ چشمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس سے نہ صرف یہ کہ علم کا دور دورہ ہوا ، بلکہ غیر سائنٹفک کی جگہ سائنٹفک فکر کا غلبہ ہوا اور توہمات کی زنجیریں کٹیں ، شرک چوں کہ مخلوقات کو معبود کا درجہ دیتا ہے اور جو معبود ہو اس کی عظمت اور اس کا احترام تحقیق و تجسس میں مانع بن جاتا ہے ؛ اس لئے وہ علمی ترقی اور تحقیق وسائنس کے ارتقاء میں رکاوٹ بن جاتی ہے ، توحید چوں کہ مخلوقات کے معبود ہونے کی نفی کرتی ہے ، اس لئے کائنات کی تما م اشیاء پر غور و فکر ، بحث و تحقیق اور تفحص و تجسس کا راستہ کھلتا ہے اور انسان علم میں جتنا آگے بڑھتا جائے اور کائنات کے حقائق پر جو پردے پڑے ہوئے ہیں ، ان کو جس قدر اٹھاتا جائے وہ اسی قدر توہمات سے آزاد ہوتا جاتا ہے ۔
پس اسلام نے علم و تحقیق کی راہ کھولی ، مخلوق کی مبالغہ آمیز عظمت دلوں سے نکالی اور اوہام کا پردہ چاک کیا ، اسلام سے پہلے لوگ عورتوں کو ، جانوروں میں گدھے کو ، پرندوں میں اُلّو کو ، مہینوں میں شوال اور صفر ، کو دنوں میں چہارشبہ کو منحوس تصور کرتے تھے اور خود اپنے لکھے ہوئے پانسوں پر کامیابی اور ناکامی کی اُمیدیں قائم کرتے تھے ، نحس کے سلسلہ میں اور بھی بہت سے تصورات تھے ، جو عربوں میں پائے جاتے تھے ، ہندوستان وغیرہ میں آج بھی یہ تصور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں پر بھی مسلط رہتا ہے ، بلکہ خود یورپ میں بھی عام لوگ توہمات میں مبتلا ہیں ، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس توہم پرستی کی تردید فرمائی ، اُصولی طورپر اس بات کو واضح فرمایا کہ نفع و نقصان کس مخلوق سے متعلق نہیں ، بلکہ یہ خالق کے ہاتھ میں ہے ، اور جن جن باتوں کے بارے میں نحس و بے برکتی کا تصور تھا صراحت کے ساتھ ان کی تردید فرمائی ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت عامہ کا ایک اہم پہلو ہے ، جس نے انسانیت کو توہمات کی بیڑیوں سے نکال کر علم و تحقیق کی دنیا میں پہنچایا اور اس تحقیق نے نئی نئی ایجادات و اختراعات کی تحریک کی ، جس کے مظاہر اور جس کے فوائد آج ہمارے سامنے ہیں ۔
اسلام سے پہلے اہل مذاہب نے دین اور دنیا کا بٹوارہ کر رکھا تھا اور دین و دنیا کی اس تقسیم نے قانون فطرت کے خلاف بغاوت کر رکھی تھی ، نکاح کو بری بات سمجھا جاتا تھا ، قرب خداوندی کے لئے تجرد کی زندگی ضروری سمجھی جاتی تھی اور مرد و عورت کے فطرت تعلق کو بہرصورت گناہ باور کیا جاتا تھا ، کسب معاش کی محنتوں کو دین الٰہی اور رضائے خداوندی کے خلاف گمان کیا جاتا تھا ، یہا ںتک کہ رہبانیت کے غلبہ کا عیسائیت میں ایک ایسا دور بھی گذرا ہے کہ لوگ نہانے ، دھونے ، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو استعمال کرنے کو بھی للہیت کے خلاف سمجھتے تھے اور دسیوں سال غسل سے مجتنب رہتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا ایک اہم بات رہبانیت کے اس تصور کا خاتمہ ہے ، آپ ا نے تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے حدود میں رہتے ہوئے دنیا سے نفع اُٹھانا بھی دین کا ایک حصہ ہے ، ’ دین ‘ دنیا سے نفع اُٹھانے میں حلال و حرام کی تمیز کا نام ہے نہ کہ دنیا کو ترک کردینے کا ، چنانچہ آپ نے نکاح کرنے کا حکم دیا اس کو اپنی اور انبیاء کی سنت قرار دیا اور تجرد کی زندگی کو ناپسند فرمایا ، کسب معاش کو ایک اہم فریضہ قرار دیا اور اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ، صفائی ستھرائی کی تعلیم دی اور کوئی ایسا حکم نہیں دیا جو انسانی فطرت سے متصادم ہو ؛ بلکہ انسانی فطرت میں جو تقاضے اور داعیے رکھے گئے ہیں ان سب کو جائز رکھا گیا اور کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا جو فطرت انسانی کے خلاف ہو ۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت عامہ کے وہ پہلو ہیں ، جنھو ںنے انسانی تاریخ پر گہرے اور دور رس اثرات ڈالے ہیں ، جن کے ذریعہ انسانی کرامت و شرافت بحال ہوئی ، جن کی وجہ سے انسانیت عدل و مساوات اور اخوت و بھائی چارگی کی نعمت سے سرفراز ہوئی اورتفریق کی مصنوعی دیواریں جن کی وجہ سے زمین بوس ہوئیں ، جن کے باعث انسان نے اوہام کے بجائے عقل و خرد سے کام لینا سیکھا ، اور ان میں علم و تحقیق کا حوصلہ پیدا ہوا جس نے انسان کو معتدل ، متوازن ، قانونِ فطرت سے ہم آہنگ اور تمام انسانی ضروریات کو پوری کرنے والا نظام حیات عطا کیا ، انسانیت قیامت تک اس کے لئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی احسان مند رہے گی اور ’’ ما أرسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘ کے مژدۂ خداوندی اور شہادت الٰہی کا اعتراف کرتی رہے گی ، و صلی اللہ علی خیر خلقہ محمد واٰ لہ واصحابہ اجمعین ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں