نایاب حسن
بعض شخصیتیں اتنی قدآور اور اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے اِس قدر وسیع الجہات ہوتی ہےں کہ زمانے کی نگاہیں ہزار کوششوں اور دعووں کے باوجودان کے اصل مقام و مرتبے کاصحیح اندازہ نہیں لگاپاتیں، یہ الگ بات ہے کہ احوال، اوقات اور مقامات کے حسبِ حال ان کی کوئی ایک صلاحیت زیادہ نکھر کر سامنے آجاتی اور اسی کی حیثیت سے معاصرین میں اُن کی شناخت کی جاتی ہے،اسلامی تاریخ میں کئی ایسی شخصیتیں ہیں ،جنھیں بعض خاص علمی یاعملی شعبوں میں نمایاں کارناموں کی وجہ سے اُن ہی شعبوں کے ساتھ خاص کردیا گیا ؛حالاں کہ ان کے علوم و افکار کی بے کرانی اس سے کہیں زیادہ کی متقاضی تھی۔ہندوستان کی علمی وفکری تاریخ میں شیخ الہند مولانامحمود حسن کی ذات ایسی ہی ہمہ جہت تھی۔ وہ دیوبند کے اصل باشندے بھی تھے اور وہاں قائم ہونے والے دارالعلوم کے اولین طالب علموں میں سے بھی تھے،اُن کی پیدایش 1851ء میں بریلی میں ہوئی تھی،جہاں اُن کے والد مولانا ذوالفقار علیؒ ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولس کے عہدے پر فائز تھے ،1874ء میں اُنھوں نے دارالعلوم دیوبند سے سندِ فضیلت حاصل کی اور اُن کی وفات 30 نومبر 1920ء کوہوئی، اُن کی کل زندگی ستر، ایکہتر سال پر محیط ہے اورکاروانی زندگی تقریباً نصف صدی پر، اِس پورے عرصے میں اُنھوں نے اتنے اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ اُن میں سے ہر ایک مستقل ریسرچ کا موضوع اور تحقیق کا عنوان بنایا جاسکتا ہے، اولاً وہ اپنی مادرِ علمی کے مدرس اور پھر صدر المدرسین و شیخ الحدیث بنائے گئے اور اِس عہدے پر رہتے ہوئے اُنھوں نے باکمال اصحابِ علم و فضل کی ایسی کھیپ تیار کی کہ اُس کا فردفرداپنی ذات میں انجمن ثابت ہوا،اُن کے علمی فیضانات سے سیراب ہونے والے علامہ انورشاہ کشمیریؒ،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ،امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ،علامہ شبیر احمد عثمانیؒ،شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ،سلطان القلم مولانا سید مناظراحسن گیلانیؒ اوراُن جیسے سیکڑوںایسے نام ہےں،جن کی تابانیِ فکر، تعمقِ نظراورجہدوعمل کی قابلِ رشک خونے اسلامیانِ ہند میں حرکیت و فعالیت کی روح پھونکی۔شیخ الہند ایک باکمال مصنف بھی تھے اور گواُن کی سرگرمیوں کی وسعت نے ان کے قلم کو خاطر خواہ جولانیوں کا موقع نہیں دیا،مگر اِس کے باوجود اُنھوں نے جو لکھا،وہ نقش کالحجر تھا،اُن کی تحریریں پڑھیے،تووہ ماضیِ مرحوم کے اُن محققین کی یاد دلاتی ہےں،جن سے اسلامی کتب خانہ ثروت مندہے اور جن پر مسلمانوں کو بجاطورپر فخر ہے، وہ ایک انتہائی متدین عالم ہونے کے ساتھ زمانے سے باخبری کے بھی نہ صرف قائل تھے؛بلکہ اُن کی نگاہ واقعتاً ملکی و عالمی سطح پر بدلتے سیاسی،تہذیبی و تاریخی منظرنامے پربھی تھی،یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے ادارے کی انتظامیہ کی بعض آراسے اختلاف کرتے ہوئے قومی سیاست مےں عملی حصے داری کا فیصلہ کیا اورآزادیِ وطن کی تحریک میں مساہمت کے ساتھ اُس وقت کی واحد اسلامی خلافت(خلافتِ عثمانیہ)کے تحفظ و بقا کی جنگ میں بھی حتی المقدور حصہ لیا،جنھوں نے اُن کی صحبت سے فیض اٹھایا اور اُن کے شب روز کی زندگی میں اُن کے ساتھ رہے یا اُنھیں قریب سے دیکھا اور پرکھا، اُن کا چشمِ دید بیان ہے کہ مولانا محمود حسن کا جسمانی ڈھانچہ انتہائی نحیف و نزار تھا،مگر اللہ نے اپنے اُس بندے میں عزم،حوصلہ،قوتِ ارادی،خوداعتمادی و ولولولہ خیزی کا ایسا فولاد رکھ دیا تھا کہ وہ اپنے معاصرین کے لیے باعثِ صد رشک ہوگئے تھے،گردشِ دوراں کی سنگینیوں سے ٹکرانا اُن کا محبوب مشغلہ اورحادثوں کی جاں گسل موجوں میں بھی صبرورضا کے نغمے گنگنانا اُن کی جدوجہدکا عنوان تھا، اِسی طرح اُن کی فکر میں گیرائی کے ساتھ اُن کی نظر مےں قدرت نے بھرپور وسعت بھی دی تھی،وہ کسی بھی مسئلے پر اپنی رائے کا اگر بر ملا اظہار کرتے تھے،تواگراُن کے کسی بھی معاصر(خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا) کی جانب سے کوئی معقول رائے ظاہر کی جاتی،تو نہ صرف اس کی تایید و تحسین کرتے؛ بلکہ اُس پر عمل آوری کی بھی تلقین کرتے تھے،وہ اپنے اَسلاف کی مانندتصوف و سلوک اور حدیث کی تعبیر مےں” احسان و عبدیت“ کے بھی اعلیٰ ترین مرتبے پر بھی فائز تھے اوراپنے خدا سے ہم کلامی کے لیے اُن کے پاس جلوت مےں خلوت کی کیفیت پےدا کرنا اور اس سے محظوظ ہونا بالکل آسان تھا،عام اَحوال کجا،جیل کی تنہائیوں اور مشقت آمیزیوں مےں بھی نہ تو اُن کی سحرخیزی کی عادت چھوٹتی تھی اورناہی کلامِ الہی میں غور و تدبر کا وظیفہ،الغرض حضرت شیخ الہند کی ذات واقعتاً ہمہ جہت تھی،اُس کے مختلف اور متنوع گوشے تھے اور ہر گوشہ ایک دوسرے سے انتہائی ممتاز بھی تھا اور مکمل بھی۔شیخ الہندکی ذات میں اقبال کے اُس” مردِ بزرگ“ کا پرتوصاف طورپر جھلکتا ہے،جس کے بارے میں اُنھوں نے فرمایا ہے:
اُس کی نفرت بھی عمیق،اُس کی محبت بھی عمیق
قہربھی اُس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق
پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں
ہے مگر اُس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق
انجمن میں بھی مُیسر رہی خلوت اُس کو
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا،سب کا رفیق
مثلِ خورشیدِ سحر فکر کی تابانی میں
بات میں سادہ و آزادہ،معانی میں دقیق
اُس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا
اُس کے اَحوال سے محرم نہیں پیرانِ طریق
حضرت شیخ الہند کی زندگی کی تمام تر سرگرمیوں کا محورومرکز عالمی سطح پر مسلم امت کی مشکلات پر قابوپانا اوراس کے زوال و شکستگی کو دورکرنے کی راہ تلاش کرنا تھا،اس کے لیے وہ اسلامی و قرآنی منصوصات وارشادات کی روشنی میں بڑے سے بڑا قدم بلا کسی مصلحت اندیشی کے اٹھانے کے لیے تیار ہوجاتے تھے،عملی زندگی کے بالکل سرِ آغاز میں فضلاے دیوبند کی فکری و ذہنی تربیت کے لیے” ثمرة التربیت“ کا قیام،اُس کے بعد ”جمعیة الانصار“ کی تشکیل اور پھر ”نظارة المعارف القرآنیہ“کی تاسیس اُسی کی مختلف شکلےں تھےں۔اُنھوں نے قومی سیاست اور جدوجہدِ آزادی میں بھی سربراہانہ طورپر اس لیے شرکت کی تھی کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کا کھویاہوا سیاسی وقاراوران کی گم شدہ عظمت و شوکت کی بازیابی چاہتے تھے،اُن سے منسوب ریشمی رومال کی تاریخی تحریک اوربرِّصغیرہند سے لے کرسرزمینِ حجاز،افغانستان اور چین و جاپان تک اس کے جڑے ہوئے سلسلے اور حضرت شیخ الہند کا انتہائی ضعف ونقاہت اوربیماری کے عالم میں سفرِحجاز اورپھرمالٹا کی اسیری؛سب اُن کے اُسی محوری مقصدکی جانب اشارہ کرتے ہیں ،گرچہ ان کی عملی زندگی کے اس اہم ترین گوشے پر توجہ نہیں دی گئی اور یاتوانھیں ایک مجاہدِ آزادی کے طورپر دیکھاگیایا دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث و صدر المدرسین کے طورپر۔
مسلمانوں کے تئیں شیخ الہند کی دردمندی و فکرمندی کس قدر عمیق تھی اوروہ اُن کے جسم کے رگ و ریشے میں کس طرح خون بن کردوڑ رہی تھی،اُس کا اندازہ اُن کی زندگی کی آخری اور تاریخی دو تقریروں سے ہوتا ہے،اُن میں سے ایک اُس وقت کی گئی تھی،جب حضرت شیخ الہند اپنی حیات کے آخری پڑاؤ پر تھے اور بقول امام الہند مولانا آزاد” اُن کا قدبھی اُن کے دل کی ماننداللہ کے آگے جھک چکاتھا“،تین سال دو ماہ تک جزیرۂ مالٹا ميں محبوس رہنے کے بعد 12مارچ 1920ءکو ان کی رہائی ہوئی،15مارچ کو اسکندریہ(مصر)لے جائے گئے اور تقریباً 18روز وہاں رہے،وہاں سے سوئز اور پھر عدن لے جائے گئے اور اس کے بعد آپ کی مکمل رہائی ہوئی،8جون 1920ءکو آپ ممبئی پہنچے اور پھر وہاں سے دیوبند، جہاں ہزاروں معتقدین اور شاگردوں نے آپ کا استقبال کیا،متعلقین تو خوش تھے کہ اُن کے جلیل القدر استاذ و مربی اسارت کی ایک مدت کاٹ کر رہاہوگئے تھے،مگر حضرت شیخ الہند کا ذہن مسلسل یہ سوچ رہاتھا کہ آیندہ مسلمانوں کی دینی شناخت،ملی تشخص اورقومی وقارکی محافظت کا کیاراستہ ہوسکتا ہے؟غالباً انھوں نے اسی موقعے سے دارالعلوم دیوبند میں منعقدہ استقبالیہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اُن خیالات کا اظہار کیاتھا،جنھیں مولانا مفتی محمدشفیع عثمانی نے نہ صرف اپنے دل و دماغ میں محفوظ رکھا؛بلکہ اپنے ایک نہایت ہی قیمتی رسالہ”وحدتِ امت“میں انھیں نقل بھی فرمادیا،حضرت نے اپنی تقریر میں فرمایاتھا:
”میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اِس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں ؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے:ایک اُن کا قرآن کو چھوڑ دینا،دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی؛اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اِس کام میں صرف کروں کہ قرآنِ کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے،بچوں کے لیے لفظی مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں ،بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت مےں اُس کے معانی سے روشناس کیا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے“۔
مفتی شفیع صاحب نے اس اقتباس پر جو نوٹ لکھاہے،وہ بھی سونے پر سہاگے کی حیثیت رکھتاہے:
”قرآن کو چھوڑنا اور آپس میں لڑنا۔غورکیاجائے،تو یہ آپس کی لڑائی بھی قرآن کوچھوڑنے ہی کا نتیجہ ہے،قرآن پر کسی بھی درجے میں عمل ہوتا،تو خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی“۔(1)
حضرت شیخ الہند اپنی تقریباً ساڑھے تین سالہ اسارت کی زندگی میں مسلمانوں کی پراگندہ حالی پر غور کرنے کے بعد جس نتیجے تک پہنچے تھے اور انھوں نے اُسے دور کرنے کا جو نسخہ تلاش کرلیا تھا،اگر وہ زندہ رہتے،تو یقیناً عملی طورپراسے آزماتے اور اس میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ اس کے نتائج انتہائی مثبت اور مفید مرتب ہوتے؛لےکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چند مہینوں کے بعد ہی اُن کی کتابِ زیست مکمل ہوگئی اور اُس سے بھی زیادہ افسوس کی بات ےہ ہے کہ اُن کے اَخلاف مےں سے کسی نے بھی پوری مسلم امت کی فلاح و نجات سے وابستہ اُن کی اِس اہم ترین تجویزپرعمل آوری کی نہےں سوچی،حتی کہ خود دارالعلوم دیوبند میں قرآنیات کی تدریس کے نام پرچندگنی چنی کتابوں کی روایتی تدریس کا رویہ برقراررہا،فضلامےںقرآنِ کریم اور اس کے لطائف و نکات پرتدبروتفکر کی صلاحیت پےدا کرنے کی کوئی منظم اورمعقول کوشش نہیں کی گئی اور جہاں تک مکاتب کے ذریعے قرآن کی لفظی تعلیم کی بات ہے،تو کسی درجے میں اس کا تو اہتمام ہے؛لےکن عوامی سطح پردرسِ قرآن کا رواج نہ صرف ےہ کہ ہمارے حلقے مےں قطعاً رائج نہےں ہے؛بلکہ ایک خاص نظریے سے متاثرہوکر بہت حد تک اُسے ایک عملِ ممنوع اور ایسا کرنے والے کوترچھی نگاہوں سے دیکھنے کا چلن پیدا ہوتا جا رہا ہے، موجودین ومرحومین علماے دیوبند کی طویل ترین فہرست پر نظر دوڑائیں،تومشکل سے دس یا بہت زیادہ بیس ایسے لوگ ملےں گے، جن کے ےہاں درسِ قرآن کی باقاعدہ مجلسیں لگتی تھیں یالگتی ہیں اوراُن میں مدارس کے فضلاسے لے کر جدید تعلیم یافتہ طبقے کے نمایندہ حضرات بھی شرکت کرتے ہیں ، ہہ کس قدر حیرت انگیز حقیقت ہے کہ جس حلقے کے سربراہِ اعلیٰ نے قرآنی تعلیمات کو عوامی سطح پر رائج کرنے کو فلاحِ قوم کاتیربہدف نسخہ بتایاتھا،اُسی حلقے میں میں اس نسخے پر عمل کرنے والے افراداتنے ہیں کہ اُنھیں انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے؛حالاں کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ کم ازکم دیوبند کاتو ہر فاضل،خواہ وہ مدرسہ و مسجدسے وابستہ ہویانہ ہو،عوامی درسِ قرآن کا نظام قائم کرتا اورمسلمانوں کی رہنمائی و رہبری کا فریضہ انجام دیتا۔
اکابرکے تئےں زبانی احترام و تقدیس کا اظہار کرنا اورعوامی و حکومتی سطح پر چند پروگراموں کے ذریعے،ان کی یادمیں کچھ عمارتیں بنواکر،کسی تعلیم گاہ کو ان سے منسوب کرواکریا ان کے نام پر ڈاک ٹکٹ جاری کرواکے ےہ سمجھ لےنا کہ ہم نے ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پےش کردیا کسی طوربھی مستحسن نہےں کہا جاسکتا، اصل ےہ ہے کہ ان کے افکار و پےغامات کی توسیع کی جائے، ان کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور اُن خطوط پر عمل کیا جائے،جنھےں انھوں نے بڑے غور و تدبر کے بعدامت کی راہ یابی و فلاح یابی کے لیے طے کیا تھا،حضرت شیخ الہند اپنے حلقے میں اپنے منفردانقلابی افکارکے اعتبار سے جس قدر بڑے تھے ،جانے یا اَن جانے میں اُن کے اپنوں نے ہی اُن کے ساتھ اُسی قدر ناانصافی کی ،قرآنِ کریم کی تعلیم اور اس کی تعلیمات کی ترویج کے حوالے سے وہ کس قدر فکرمند تھے،اس کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ انھوں نے عاہم فہم زبان مےں مسلمانوں کے سامنے قرآن کا ترجمہ و تفسیرپےش کرنے کے لیے مالٹا کی اسیری کے دوران ہی ایک منصوبہ بنایا اوروسائل و سہولیات کی عدمِ دستیابی کے باوجوداُسی دوران قرآن کے ترجمہ و تفسیر کا سلسلہ شروع کردیاتھا،جسے ان کی وفات کے بعد اُن کے تلمےذِ اجل علامہ شبیر احمد عثمانی نے مکمل کیا۔
حضرت شیخ الہند کی دوسری تاریخی و انقلاب انگیز تقریروہ ہے،جو اُنھوں نے علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس کے موقعے پر کی تھی ،ان کی حالت اس وقت اتنی ناگفتہ بہ تھی کہ وہ کھڑے ہوکر کچھ بولنے پر قادر نہیں تھے ،چلنے پھرنے تک سے معذور تھے؛لےکن ان کے دل میں اپنی قوم کے مستقبل کے تئیں اس قدرفکرمندی و دردمندی تھی کہ انھوں نے اندیشۂ جاں سے بے پروا ہوکراس اجلاس میں شرکت کی(جسمانی نقاہت اور شدتِ مرض کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپ نے دیوبند سے علی گڑھ تک کا سفر لےٹے لےٹے کیااورانھےں ڈولی مےں بٹھاکر مجلس تک لایا گیا،ےہ29اکتوبر1920ءکی تاریخ تھی اور اس کے ٹھےک ایک مہےنے بعد 30نومبرکو ان کا انتقال ہوا) اور ان کی صدارتی تقریرعلامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھ کر سنائی تھی،اس تقریرکے الفاظ کیا ہےں،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ الہند نے اپنے لخت ہاے دل بکھےر کر رکھ دیے ہیں ،شاید انھیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ امت کی صلاح و فلاح کے لیے جو راستہ وہ اختیار کرنا چاہتے ہےں،اس پرخود ان کے متلعقین پر بھی راضی نہےں ہوں گے؛ اس لیے انھوں نے ایک قومی تعلیم گاہ (جس مےں دینی علوم کے ساتھ اسلامی ماحول میں رائج عصری علوم بھی پڑھائے جائیں ) کے قیام کی نہ صرف تاکید کی؛بلکہ اس جلسے میں آپ نے اپنی معذوریوں اور امت کو درپےش ضرورتوں کو بیان کرنے کے بعد بصراحت فرمایا:
”اے نونہالانِ وطن!جب مےں نے دےکھاکہ مےرے اس درد کے غمخوار(جس سے میری ہڈیا ںپگھلی جارہی ہےں)مدرسوں اور خانقاہوں مےں کم اور اسکولوں اور کالجوں مےں زیادہ ہےں،تومےں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں(علی گڑھ اوردیوبند) کا رشتہ جوڑا“۔
ان کو معلوم تھا کہ ان کا ےہ اقدام ان کے بہت سے شاگردوں اور معاصر اہلِ علم و فضل کی جبینوں کو شکن آلود کردے گا؛اِس لیے فرمایا:
”کچھ بعید نہےں کہ بہت سے نیک بزرگ مےرے اِس سفر پر نکتہ چینی کریں اور مجھ کو اپنے مرحوم بزرگوں کے مسلک سے منحرف بتائےں؛لےکن اہلِ نظر سمجھتے ہےںکہ جس قدر مےں بظاہر علی گڑھ کی طرف آیا ہوں،اُس سے کہےں زیادہ علی گڑھ مےری طرف آیا ہے“۔
آپ نے مجوزہ قومی تعلیم گاہ کا خاکہ پےش کرتے ہوئے اور اُس کے بلند ترین نصب العین کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
”ہماری عظیم الشان قومیت کااب ےہ فیصلہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کالجوں سے بہت سستے داموں کے غلام پےدا کرتے رہےں؛بلکہ ہمارے کالج نمونہ ہونے چاہےےںبغداداور قرطبہ کی یونیورسٹیوں کے اور ان عظےم الشان مدارس کے،جنھوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا،اِس سے پےشتر کہ ہم اس کو اپنا استاد بناتے۔ آپ نے سناہوگا کہ بغداد مےں مدرسہ سلطانیہ کی بنیاد اسلامی حکومت کے ہاتھوں سے رکھی گئی ،تو اُس دن علما نے جمع ہوکر علم کا ماتم کیا کہ افسوس آج سے علم حکومت کے عہدے اور منصب حاصل کرنے کے لیے پڑھا یاجائے گا،تو کیا آپ ایک ایسے کالج سے فلاح کی امید رکھتے ہےں،جس کی امداد اور نظام مےں بڑا قوی ہاتھ ایک غیر اسلامی حکومت کا ہو؟ہماری قوم کے سربرآوردہ لےڈروں نے سچ تو ےہ ہے کہ امتِ اسلامیہ کی ایک بڑی ضرورت کا احساس کیاہے،بلاشبہ مسلمانوں کی درس گاہوں مےں،جہاں علومِ عصریہ کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے،اگر طلبہ اپنے مذہب کے اصول و فروع سے بے خبر ہوں اوراپنے قومی محسوسات اور اسلامی فرائض فراموش کردیں اور ان مےں اپنی ملت اور اپنے ہم قوموں کی حمیت نہایت ادنیٰ درجہ پر رہ جائے،تو یوں سمجھو کہ وہ درس گاہ مسلمانوں کی قوت کو ضعیف بنانے کا ایک آلہ ہے؛اس لیے اعلان کیاگیا ہے کہ ایسی آزاد یونیورسٹی کا افتتاح کیا جائے گا،جو گورنمنٹ کی اعانت اور اس کے اثر سے بالکل علاحدہ اور جس کا تمام تر نظامِ عمل اسلامی خصائل اور قومی محسوسات پر مبنی ہوگا“۔(2)
حضرت شیخ الہند کے خوابوں کی تعبیر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل مےںظہورپذیر ہوئی،اول اول تواس کا تمام تر نظامِ عمل وہی رہا،جو اس کے مخلص بانیوں نے وضع کیا تھا،مگر بہت کم عرصے میں نہ صرف اس کی قوتِ مقتدرہ کے ذہن و فکرمےں تبدیلی آئی؛بلکہ وہ بتدریج ان ہی راستوں پر چل پڑایا اسے چلادیاگیا،جن کی خطرناکی کا اظہار حضرت شیخ الہند نے اپنی افتتاحی تقریر میں کیا تھا،آج ےہ ادارہ بظاہر ایک ملی دانش گاہ ہے،مگراس کی آغوش سے نکلنے والے فضلا بڑے بڑے سرکاری و کاروباری مناصب اور ذاتی منفعتیں تو حاصل کر رہے ہےں، مگر ان سے مسلم قوم کوکچھ فائدہ ہورہاہے یا نہےں،ےہ سب کے سامنے ہے، اب نہ ےہ ادارہ آزادہے،نہ گورنمنٹ کی اعانت سے پاک،نہ اس کا نظامِ عمل اسلامی خصائل پر مبنی ہے اورنہ ہی اس مےں تعلیم پانے والے فرزندانِ اسلام اسلامی و ملی ذمے داریوں سے کماحقہ واقفیت رکھنے والے اوران کوپوراکرنے والے۔ واقعہ ےہ ہے کہ جس طرح دیوبند نے شیخ الہند مولانا محمودحسن جیسے اپنے عظےم سپوت کے ساتھ فراموش کاری کا رویہ برتا،اسی طرح جامعہ ملیہ نے بھی اپنے بانی کے افکاروتخیلات کا عملی مضحکہ اڑانے مےں کوئی کسر نہےں چھوڑی،جس طرح دارالعلوم دیوبند مےں”شیخ الہند منزل“ اور عالمِ نزع سے گزررہی”شیخ الہند اکیڈمی“حضرت شیخ الہند کی بالابلند شخصیت اور ان کے بے کراںافکاروعلوم کا منہ چڑا رہی ہے،اسی طرح جامعہ کا ”بابِ مولانا محمودحسن“بھی ان کے حسین خوابوںکی تضحیک؛بلکہ تغلیط کا باعث ہے۔
آج اگر مجموعی طورپر مسلمانوں مےں بیداری پےدا ہو اور وہ قرآنِ کریم کی تعلیم اور اس کی لافانی ہدایات پر عمل کو اپنی زندگی کا لازمہ بنالےں،تویقیناً ان کے سارے مسائل و مشکلات کا حل انتہائی آسانی کے ساتھ نکل آئے گا،اس کے لیے اولاً ان لوگوں کو کوشش کرنی ہوگی،جو امت کی دینی و مذہبی قیادت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہےں اور اِس گئے گزرے دور مےں بھی جن سے مسلمانوںکاایک معتدبہ اور ہوشمند طبقہ وابستگی مےں اپنی نجات وکامرانی سمجھتا ہے،اسی طرح آپسی اختلافات اور معمولی تنازعات کو سنگین شکل دینے کی بجائے دینی و ملی سطح پر اسی وسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہوگا،جس کے تحت حضرت شیخ الہند نے اپنے زمانے کے سرکردہ علما کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے”جمعیتِ علما“کی بنیاد رکھی تھی اور وہ ےہ چاہتے تھے کہ علما اپنے مسلکی وفروعی اختلافات سے اوپر اٹھ کر امت اور ملت کی سطح پر سوچیں اور مسلمانوں کو درپےش چےلنجز کا حل تلاش کریں۔دورِ حاضر میں بھی اگر علما مےں وہ کشادہ دلی ووسعتِ قلبی پیدا ہوجائے اور وہ ذاتی اغراض اور منفعتوں کے حصول کی بجاے اپنی فکری قوت کومسلم اُمت کی رہنمائی اور اس کے دردکو سمجھنے اور دورکرنے پر مرتکز کردیں، تو عجب نہےں کہ ایک بار پھر مسلمانوں کو ان کاکھویاہوا وقار و اعتبار اورگم شدہ شوکت و عزت و عظمت کا گنجینہ مل جائے۔
حواشی:
(1)مفتی محمد شفیع عثمانی،وحدتِ امت،ص:39-40،ط:مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور 1985ئ
(2) پوری تقریر پروفیسر ظفراحمد نظامی کی کتاب”معمارانِ جامعہ“ط:مکتبہ جامعہ2011ئ، ص:29-41اورڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی مرتب کردہ ”شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی:ایک سیاسی مطالعہ،ط:فرید بکڈپو2011ئ، ص:187-193 پر ملاحظہ فرمائیں۔