ہم میڈیا کے لیے استعمال کیوں ہوتے ہیں؟

مولانا برہان الدین قاسمی 

کوئی بھی انسان کسی ایک موضوع پر بار بار دوسروں کی طرف نہ خواہی مشورہ پسند نہیں کرتا ہے، مسلّم اور بڑے اداروں کو بہت زیادہ بہار سے مشورہ دینا بالکل مناسب نہیں، جمعیت کیا کرے، پرسنل لا بورڈ کیا کرے، ندوۃ کیا کرے اور دارالعلوم کیا کرے؟
ان اداروں میں بھی اسی زمانے میں رہنے والے، ہم سے بہتر یا کم از کم ہمارے جیسےحضرات موجود ہیں. وہ باقاعدہ سسٹم کے تحت کام کرتے ہیں، ان اداروں میں بھی مضبوط تنظیمی ڈھانچہ موجود ہےاور وہ سب کام کر رہے ہیں، ان پر بھروسہ کریں اور ان کو اپنا کام اپنے طریقے سے کرنے دیں،  یہی ان اداروں کے ساتھ محبت اور عقیدت کا مناسب تقاضا ہے، ہاں اگر کوئی بہت ضروری مشورہ ہے تو اس کو مناسب جگہ تک پہونچا کر چھوڑ دیں۔
میرے خیال میں دارالعلوم کو کسی میڈیا ترجمان کی بالکل ضرورت نہیں؛  دارالعلوم کوئی پولیٹیکل پارٹی نہیں کہ اس کو بہت زیادہ میڈیا کوریج یا ہر چھوٹے موٹے مسئلہ میں موقف رکھنا چاہیے. تعلیمی ادارہ ہے اسی پر ہی مکمل توجہ ہو اور سب کی کوشش بس یہی ہونا چاہیئے. جہاں ضرورت ہو آفیشل پریس ریلیز یا پھر مہتمم صاحب خود بات کریں اور ایسا ہی ہورہا ہے. اس سے زیادہ میڈیا بازی خود ادارے کے لئے اور امت کے لئے نقصان دہ ہوگا۔
کس کو ترجمان رکھیں گے؟ وہ خود ہی ایک بڑا مسئلہ نہیں بن جائے گا؟ اب تک دو مرتبہ کچھ حد تک یہ تجربہ ہو چکا ہے اور دونوں ہی مرتبہ ان ترجمانوں کی ترجمانی یا تو مناسب نہیں رہی یا انہوں نے اس پوزیشن کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کی۔
ہمیں کیوں لگتا ہے کہ ہر بات سے دارالعلوم یا اسلام بدنام ہو جارہا ہے،  ہمارا مذہب اور ہمارا ادارہ اتنا کمزور نہیں ہے کہ جھونکوں سے گھبرا نے لگے۔
ابھی حال میں جن صاحب نے دیوبند سے پدھما وتی فلم پر نیوز چینل کے لیے انٹرویو دیا تھا، جس کو غلط انداز سے دارالعلوم کی طرف منسوب کیا گیا ہے، یہ تو ان صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس بات کی اسی وقت وضاحت کرتے کہ وہ کون ہے اور ان کا دارالعلوم سے آفشیئلی کوئی رشتہ ہے بھی کہ نہیں. اگر اس وقت اس کا موقع نہیں تھا یا بعد میں ان کو لگا کہ رپورٹر نے غلط بیانی سے کام لیا تو ان کو فوراً ریکارڈیڈ فون اور تحریری طور پر چینلز سے ہی اس کی وضاحت اور معذرت کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا. چاہے وہ معذرت نہ کرتا لیکن وہ اس بیان اور ان کے مطالبہ کو دوسرے میڈیا اور سوشل میڈیا میں رکھ سکتے تھے، اس صورت میں کوئ اور صحافی ان کے بارے میں غلط ہیڈنگ نہیں لگاتا، نہ ان کو بار بار وضاحت کرنی پڑتی اور نہ ہی کچھ حضرات کو ایسا لگتا کہ دارالعلوم دیوبند کو بھی وضاحت پیش کرنی چاہئے۔
یا پھر یہ صاحب خود ہی دارالعلوم کے نام سے اپنا نام چاہتے ہیں، جو ان کو نہیں کرنا چاہیے. دارالعلوم دیوبند ایک ادارہ ہے وہ کسی فرد کے بیان پر اپنا وقت کیوں برباد کرے؟ ایسا کب تک اور کہا تک ممکن ہو پائےگا؟ زیادہ سے زیادہ دارالعلوم کے پاس جب اس مسئلہ کو لیکر آفشیئلی کوئی آئےگا تب دارالعلوم اپنی طرف سے مناسب وضاحت کا مکلف ہوگا۔
کوئی دوسراادارہ یا شخص دارالعلوم کے نام سے چندہ کما رہا ہے، تو دارالعلوم کتنوں کا پیچھا کرےگا؟ یہ تو دینے والے کی بھی ذمہ داری ہے کہ دیکھے اس کا مال وہ جہاں چاہتا ہے وہاں پہونچ بھی رہا ہے کہ نہیں، کوئی سرپھرا مفتی شہر دیوبند سے اگر غلط فتوی دیتا ہے تو اس میں بھی دارالعلوم کیا کرسکتا ہے؟ یہ تو لینے والے اور دینے والے جانے،  کیسی اور کی غلط حرکت کو دارالعلوم اپنا سر درد کیوں بنائے؟
جیسا کہ مولانا دریابادی صاحب نے لکھا ہےکہ علمائے دین فلموں پر تبصرہ کرنے سے اپنے آپ کو تو روک سکتے ہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا ہے کہ ہم خود انتخاب کریں کہ ہمیں کس مسئلہ پر انٹرویو دینا ہے اور کس پر نہیں؟ اور جب دینا ہے تو اپنی شرط پر ہی دینا ہے،  کیوں نہ ہم تحریری طور پر پر بات کریں کہ اگر میری بات کی ایڈیٹنگ کی گئی  تو ٹیلیکاسٹ سے پہلے اس کو مجھے دیکھا نا لازم ہوگا؟
ایسا بالکل ہوسکتا ہے؛ ابھی اسی مہینہ میں، میں نے ایسا ہی کیا،  ایڈیٹنگ کے بعد مجھے لگا کہ بات میں نے جو کیا ایسا چینل پیش نہیں کررہا ہے بلکہ میرے پیغام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا گیا ہے۔ ہم نے چینل کو جواب میں کہا کہ میرا انٹرویو چار منٹ کا ہے یا آپ پورا چلائیں یا بالکل نہ چلائیں،  آخر کر اس چینل نے اس انٹرویو کے کوئی بھی حصہ نہیں چلایا جس کو بعد میں، میں نے یو ٹیوب پر آپ لوڈ بھی کر دیا۔
اگر ہم چاہیں تو غلط استعمال سے بچھ سکتے ہیں. اگر کسی کو استعمال نہیں ہونا ہے تو کوئی بھی چینل یا رپورٹر کبھی بھی زبردستی نہیں کرسکتا ہے. تو پھر یم میڈیا کے لیے استعمال ہوتے کیوں ہیں؟
شروع سے ہی سمجھ میں آرہا تھا کہ میڈیا کو پدھماوتی معاملہ میں مسلمان کریکٹرز چاہیے، یہ ایک طرفہ ہندو بمقابلہ ہندو کھیل میں ان کو مزا نہیں آرہا تھا،  ان کو تو ہندو بمقابلہ مسلم گیم ہی سمجھ میں آتا ہے،  پھر بھی اگر ہم کہیں کہ ہمارے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اور ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا تو جناب یہ دھوکہ کھانا اس انٹرویو دینے والے کا شوق ہی ہے. اس طرح کا شوق لا علاج اور بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس مصیبت سے حفاظت فرمائے۔
(مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر اور مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی کے ڈائریکٹر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں