مغل بادشاہوں سے زیادہ ہندو بادشاہوں نے مندریں ڈھائی ہیں، حکمرانوں کا مذہب اقتدار کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا ۔ چننئی میں جاری آئی او ایس کے دو روزہ سمینار میں نامور مؤرخین و دانشوران کا اظہارِ خیال

چننئی سے شمس تبریز قاسمی کی رپورٹ

ہندوستانی مسلمانوں کے تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کی 30 سالہ تقریبات سلسلہ کا چوتھا دو روزہ سمینار آج سے ملک کے معروف اقتصادی شہر چنئی میںشر وع ہوگیا ہے جس کا عنوان ہے ” ہندوستان کے موجودہ سیاق، مساوات، انصاف اور بھائی چارے کی جانب ایک مستقبل کی تخلیق بذریعہ تاریخ “ ۔
آئی او ایس کے چیرمین اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر منظور عالم نے اپنے خطبہ میں صدارت میں کہاکہ تاریخ در حقیقت واقعات کا ایک ریکارڈ ہوتا ہے۔ ہم تاریخ کو ایک دو دھاری تلوار بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں مختلف خطرات بھی ہیں اور بہت سے خوش کن امکانات بھی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو لوگ تاریخ کو یاد نہیں رکھتے، تاریخ انہیں بہت پیچھے چھوڑ دیتی ہے، کیونکہ غلط تاریخ کے ذریعہ منفی اور جھوٹا کھیل ہمیشہ نہیں کھیلا جا سکتا اور اسی مقصد کے پیش نظر آئی او ایس تاریخ کے ذریعہ بہتر مستقل کی تعمیر کے منصوبہ پر کام کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ تاریخ کے انداز مختلف ہیں۔ ہم کسی ایک انداز کو اختیار کر کے دوسروں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس کی بے شمار قسمیں ہیں اور سب کسی نہ کسی ناحیے سے آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر علوم کی تاریخ، طب کی تاریخ، فلسفہ کی تاریخ، مذہب کی تاریخ، زمین کی تاریخ، آثار قدیمہ کی تاریخ، سوانح عمریوں کی تاریخ اور خود تاریخ نویسی کی تاریخ۔ اس طرح کے متعدد موضوعات ہیں جو تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں اور ان میں سب سے نمایاں اور ممتاز قدرت کی تاریخ ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ تاریخ میں بے شمار متنازع مقامات بھی آتے ہیں۔ مثال کے طور پر حال میں پیش آنے والے دو تاریخی واقعات ہمارے ملک میں بہت نمایاں طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان دونوں واقعوں پر تاریخ نویسوں اور عام قارئین کے درمیان زبردست مباحثہ جاری ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ تو مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق Audrey Truschke کے ذریعہ لکھی ہوئی کتاب کا ہے اور دوسرا دسمبر کی کسی تاریخ کو ریلیز ہونے والی فلم پدماوتی کا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہاکہ اکثر تاریخ دان جیسے جدو ناتھ سرکار اور آر سی مجوم دار نے اورنگ زیب کو ایک ہندو مخالف حکمراں قرار دیا ہے، بالخصوص مندروں کو گرانے کی اس کی پالیسی کو زیادہ ابھارا ہے۔ اس کے برخلاف سیکولر تاریخ داں اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہندو بادشاہوں نے مغل بادشاہوں سے زیادہ مندریں ڈھائی ہیں۔
معروف مؤرخ پروفیسر کپل کمار (صدرشعبہ تاریخ اگنو دہلی) نے اپنے کلیدی خطاب میں کہاکہ انگریزوں کی پالیسی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی تھی اور اب تقسیم کرنے کیلئے حکومت کی جارہی ہے، انہوں نے کہاکہ ان دنوں تاریخ کا تجزیہ صرف سیاسی ، سماجی اور معاشی طور پر کیا جاتا ہے جبکہ زیادہ ضروی یہ کہ تاریخ کا تجزیہ ماحول کے پس منظر میں کیا جائے، انہوں نے یہ بھی کہ سیکولرزم کا نعرہ ایک ڈھونگ ہے ، دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں مکمل اظہارِ رائے کی آزادی پائی جاتی ہو اور آج بھی ایک طرح سے وہی آمرانہ نظام چل رہاہے ۔ انہوں نے کہاکہ ایک مسلم بادشاہ نے اعلان کیا تھاکہ آج عید پر کوئی بھی قربانی نہیں کرے گا، ہمیں انگریزوں سے ایک ساتھ مل کر مقابلہ کرنا ہے ، کسی نے کیا تو کواتوال نے گرفتار کرلیا، لیکن آج ہندو مسلم کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے ، پروفیسر کپل کمار نے واضح لفظوں میں کہا کہ 15؍اگست کو یوم آزادی کا منایا جانے والا جشن درا اصل ہندوستان کی تقسیم اور اقتدار کے منتقل کئے جانے کا جشن ہوتا ہے ، جشن اس دن کا منایا جانا چاہئے جس دن آزاد ہند فوج کی تشکیل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہاکہ محمد علی جناح کا نظریہ تھا کہ ہندو اورمسلم ہندوستان کی دو آنکھیں ہیں لیکن وہی بعد میں جب یہ کہتے ہیں کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی ہیں تو ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ذہن کیوں اور کیسے بنا ، بہتر مستقبل کی تعمیر کیلئے ہم تاریخ کے اچھے پہلوﺅں کو لیں اور غلط پہلوﺅں کو نظر انداز کردیں، انہوں نے ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کیلئے میڈیا کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ۔
مدارس ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس جی ایم اکبر علی نے اپنے افتتاحی خطا ب میں آئی او ایس کی خدمات اور تاریخ کے موضوع پر سلسلہ وار سمینار منعقد کرنے کی پہل کو سراہا اور انہوں نے چنئی کے نوجوانوں سے اس مہم میں شرکت کرنے اور آئی او ایس کی فکر کو اپنانے کی اپیل کی ۔ جی ایم اکبر علی نے کہاکہ ہندوستان کا موجودہ ماحول بہت خوفناک ہوچکا ہے ، مسلمانوں کے تئیں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں، ایسے میں ریسرچ اور دلائل کی بنیاد پر ہمیں اس کا دفاع کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
دو روزہ سمینار کے مہمان خصوصی پروفیسر اختر الواسع (وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل یونیورسیٹی) نے اپنے خطاب میں کہاکہ میرا ایمان ہے کہ جو کچھ ہندوستان کے مفاد میں ہے وہی ہندوستان کے مفاد میں ہے ، ہندوستان کی 18؍ فیصد آباد ی کو مسترد کرکے ہندوستان کی ترقی کا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ کے بارے میں انہوں نے کہاکہ وہ ایک بادشاہ تھے اور بادشاہ کا مذہب اسلام یا ہندو ازم نہیں بلکہ اقتدار ہوتا ہے، اورنگزیبؒ کی دین اور دنیا پر یکساں نگاہ تھی ، اگر آپ اورنگزیب کو اسلام کا ہیرو سمجھتے ہیں تو سمجھیں میں انہیں صرف ایک بادشاہ سمجھتا ہوں، انہوں نے نہ تو ایک وقت کی نماز قضاء کی اور نہ ہی اپنے کسی بھی بھائی کو زندہ چھوڑا۔ پروفیسر اخترالواسع نے یہ بھی کہاکہ اکبر ، اورنگزیبؒ سمیت کئی مسلم بادشاہوں نے اپنا سپہ سالار ہندﺅوں کو بنا رکھا تھا۔انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ اس ملک کو پاکستان بنانے کی کوشش کرہے ہیں لیکن ہم نہیں ہونے دیں گے، سر سید کے بارے میں صفائی دیتے ہوئے کہاکہ ان کو مصور پاکستان کہا جاتا ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ بسترِ مرگ سے انہوں نے اپنا آخری مضمون لکھا تھا کہ مسلمانوں کو گائے کی قربانی نہیں کرنی چاہیے ۔ ایک اور مہمان خصوصی ڈاکٹر کے سلیم علی (ریٹائرڈ آئی پی ایس ) نے اپنے خطاب میں تاریخ کی اہمیت پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ تاریخ کو ہمیشہ غلط انداز میں پیش کرکے ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر ہادیہ کے کیس کا بھی تذکرہ کیا اور کہاکہ سب کچھ واضح ہونے کے باوجود جس طرح اس معاملے کو الجھایا جارہاہے اس سے مستقبل کے بارے میں سوچنا ضروری ہے اور بیدار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ قبل ازیں آئی او ایس کے جنرل سکریٹری پروفیسر زیڈ ایم خان نے تعارفی خطبہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ آئی او ایس ہندوستانی مسلمانوں کا ایک تھنک ٹینک ادارہ ہے جہاں مسلم مسائل کے تئیں کئے سارے اہم کام انجام دیئے جاتے ہیں جس میں سے ایک سلگتے اور اہم موضوعات پر ریسرچ کرکے لائحہ عمل طے کرنا بھی ہے ، خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے نیو کالج کے پرنسپل میجر زاہد حسین نے کہاکہ ہمارے لئے یہ باعث فخر ہے کہ آئی او ایس کی 30 سالہ تقریباً سلسلہ کا چوتھا اور آخری سمینار ہمارے شہرچنئی میں ہورہاہے ۔ پروفیسر ظفر اللہ خان کلماتِ تشکر پیش کیا ۔
اس موقع پر معرو ف مورخ پروفیسر رفاقت علی خان کی کتاب ” آزادی کی جدوجہد میں ہندوستانی مسلمانوں کا کردار “ کی تینوں جلدوں کا اجراء مدراس ہائی کورت کے جج ایم جی اکبر علی ، جناب اشرف علی اور رفیق احمد کے ہاتھوں عمل میں آیا ، اس کے علاوہ آئی او ایس کلینڈر 2018 کا بھی افتتاحی سیشن میں اجراء کیا گیا۔
واضح رہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے قیام کو 2016 میں 30 سال مکمل ہوگئے ہیں جس کے بعد تاریخ کے ذریعہ بہتر مستقبل کی تعمیر کے عنوان پر سلسلہ وار ہندوستان کے متعدد شہروں میں سمینار منعقد کئے گئے ہیں ، اس سیریز کا یہ چوتھا سمینار ہے جو چننئی کے نیو کالج میں منعقد ہورہا ہے جبکہ فروری کے اخیر ہفتہ میں اس سیریز کا آخری سہ روزہ سمینار دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد کیا جائے گا۔