شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اگرچہ اس بات پر پوری اُمت ِمسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے کہ رسول اللہ ا پر سلسلۂ نبوت تمام ہوچکا ہے ، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی شخص آپ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کوئی اس دعویٰ کو قبول کرتا ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے باہر ہے ؛ اس لئے مسلمانوں کے تمام مکاتب ِفکر سنی ، شیعہ ، دیوبندی ، بریلوی ، مقلدین ، غیر مقلدین اس بات پر متفق ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جو اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا ،وہ بالکل غلط تھا، اور جو لوگ ان کے نبی یا مصلح ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیںاور جنھیں مسلمان قادیانی کہا کرتے ہیں ، یہ مسلمان نہیں ہیں ، یہ مسلمان فرقوں اور جماعتوں میں سے ایک جماعت نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ایسا گروہ ہے ، جس نے محمد رسول اللہ اکی ختم نبوت کے خلاف بغاوت کی ہے اور انھیں اعداء اسلام کی طرف سے اسلام کو کمزور کرنے اور شریعت محمدی پر حملہ کرنے کے لئے اُٹھایا گیا ہے ؛ اسی لئے یہود و نصاریٰ سے لے کر ہمارے ملک کے فرقہ پرستوںتک اسلام سے بغض رکھنے والے تمام لوگ ان کی پشت پر ہیں ۔
لیکن اس حیثیت سے کہ تمام انسان حضرت آدم و حوا کی اولاد ہیں اور رسول اللہ انے فرمایا کہ اللہ کے تمام بندے بھائی بھائی ہیں : ’’العباد کلھم إخوۃ‘‘ ( ابوداؤد ، کتاب الوتر ، باب ما یقول الرجل إذاسلم ، حدیث نمبر : ۱۵۱۰) قادیانی حضرات بھی ہمارے انسانی بھائی ہیں اور اس حیثیت سے ہمدردی کے مستحق ہیں کہ ان کی بڑی تعداد ناواقفیت ، ناسمجھی اور صحیح صورت حال سے بے خبری کی وجہ سے گمراہی کا شکار ہوگئی ہے، اور جس شخص کو راستہ معلوم ہو، اس کا فریضہ ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھائے اور گڑھے میں گرنے سے بچائے ؛اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ قادیانیوں کی بڑی تعداد جو باپ دادا کے موروثی مذہب کے لحاظ سے اس پر قائم ہے ، یا دین سے واقف نہ ہونے اور قرآن و حدیث سے نابلد ہونے کی وجہ سے دھوکہ دینے والوں کا شکار ہوگئی ہے ، ان کو صحیح راستہ پر لایا جائے ، وہ اس جہت سے یقیناََہماری ہمدردی کے مستحق ہیں ، یہ تحریر اسی نقطۂ نظر سے لکھی جارہی ہے ، یہ کلمۂ نصح و محبت اور دوستی و خیر خواہی کی سوغات ہے ، جو اُن کے ایک بہی خواہ کی طرف سے ان کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ، کاش یہ حضرات اسے خالی الذہن ہوکر غیر جانب داری کے ساتھ پڑھیں ، آخرت کوسامنے رکھیں ، قیامت کے دن کی رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے فکر مند ہوں اور اس درمندانہ درخواست کو ایک دوست کا تحفۂ محبت سمجھ کر قبول کریں ۔
کسی شخصیت کو پرکھنے کے لئے سب سے اہم چیز اس کی ذاتی زندگی ہوتی ہے ، محمد رسول اللہ اجب نبی بنائے گئے تو آپ نے اپنے آپ کو قوم پر پیش کیا کہ میں نے تمہارے درمیان بچپن اور جوانی گزاری ہے اور عمر کے چالیس سال بِتائے ہیں ، تم نے مجھے سچا پایا یا جھوٹا ؟ اور امانت دار پایا، یا خیانت کرنے والا ؟ ہر شخص کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ آپ سراپا صدق و امانت ہیں ،کوئی انگلی نہ تھی جو آپ کے کردار پر اُٹھ سکے اور کوئی زبان نہ تھی جو آپ کی بلند اخلاقی کے خلاف کھل سکے ، مرزا غلام احمدصاحب قادیانی کی دعوت کے سچ اور جھوٹ کو جاننے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ ان کی زبان و بیان ، اخلاق و کردار ، لوگوں کے ساتھ سلوک و رویہ اور صدق و دیانت کا جائزہ لیاجائے ، کہ کیا ان کی زندگی انسانیت کے سب سے مقدس گروہ انبیاء کرام کی زندگی سے میل کھاتی ہے یا اس کے برعکس ہے ؟
۱۔ نبوت کا مقصد اور انبیاء کی تمام کوششوں کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑا جائے ، بندوں کے دل میں اس کے رب کی عظمت و محبت پیدا کی جائے اور انھیں اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس کا طریقہ سکھایا جائے ؛ اس لئے ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نہیں نکل سکتی جو اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہو ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے سامنے اسلام کا تعارف کرایا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی وہ ہے کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہ شفا عطا فرماتا ہے : ’’ إِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنَ‘‘ ( سورۃ الشعراء : ۸۰) غور کیجئے کہ اس فقرے میں کس قدر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا لحاظ ہے ، ہے تو بیماری اور شفا دونوںاللہ ہی کی طرف سے ؛ لیکن بیماری ایک ناپسندیدہ کیفیت ہے اور صحت و شفا ایک مرغوب اور پسندیدہ بات ہے ؛ اس لئے شفا کی نسبت تو صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہ اللہ ہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے ؛ لیکن بیمار کرنے کی نسبت صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں فرمائی اور یوں کہا کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو اللہ مجھے شفا عطا فرماتے ہیں ۔
رسول اللہ اکے سامنے ایک صاحب نے خطاب کرتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ ا کو شامل کرتے ہوئے کہا : ’’ من عصاھما‘‘ جو ان دونوں کی نافرمانی کرے ، تو حالاںکہ معنوی اعتبار سے یہ فقرہ درست تھا ؛ لیکن چوںکہ بظاہر اس میں اللہ اور رسول کے ایک درجے میں ہونے کا شائبہ پیدا ہوتا ہے ؛اس لئے آپ نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ کیسا بدترین خطیب ہے جس نے اللہ اور رسول کو برابر کردیا : ’’ بئس ھذا الخطیب ‘‘ ۔ ( مسلم ، عن عدی بن حاتم : ۸۷۰)
رب کے معنی پروردگار کے بھی ہے ،اسی معنی میں یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کے مقابلہ میں ’’ عبد ‘‘ ہے ، جس کا معنی بندہ کے ہیں ؛ لیکن عربی زبان میں رب کے معنی مالک اور عبد کے معنی غلام کے بھی ہیں، اس معنی کے اعتبار سے غلام اپنے آقا کو رب اور آقا اپنے غلام کو عبد کہا کرتے تھے ؛ لیکن چوںکہ اس میں خدائی اور بندگی کے معنی کی مشابہت تھی ؛اس لئے آپ نے اس بات سے منع فرمایا کہ غلام اپنے مالک کو رب اور مالک اپنے غلام کو عبد کہہ کر پکارے ، ( بخاری ، عن ابی ہریرہؓ : ۲۵۵۲) — یہ ایک مثال ہے کہ رسول اللہ ا کو اللہ تعالیٰ کی شان اور مقام کا کتنا زیادہ لحاظ تھا ؛اسی لئے قرآن مجید نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے جو اسماء حسنیٰ ہیں، ان ہی سے اللہ کو پکارو ، ( اعراف : ۱۸۰) اور اسماء حسنیٰ سے وہ ذاتی وصفاتی نام مراد ہیں جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں ، علماء نے لکھا ہے کہ ان کے علاوہ کسی اور نام سے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے ؛ کیوںکہ ہوسکتا ہے کہ بندہ اپنی دانست میں اچھی صفت اور اچھے نام کا ذکر کرے ؛ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہو اور وہ غیر ارادی طورپر اس کا مرتکب ہوجائے ۔
اب دیکھئے کہ مرزا صاحب اللہ تعالیٰ کی شان میں کیسی شوخیاں کرتے ہیں کہ زبان و قلم پر لانے سے بھی دل لرزتا ہے ؛ لیکن حقیقت حال سے واقفیت کے لئے نقل کیا جاتا ہے :
اللہ کی سب سے بڑی شان یہ ہے کہ اللہ معبود اور انسانی کمزوریوں سے ماوراء ہے ، وہ عبادت کرتے نہیں ہیں ؛ بلکہ عبادت کئے جانے کے لائق ہیں ؛ لیکن مرزا صاحب کے عربی الہامات کا مجموعہ جس کو ان کے مرید منظور الٰہی قادیانی نے ’’ بشریٰ ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے ، اس میں وہ کہتے ہیں :
قال لی اﷲ إنی أصلی وأصوم وأصحوا و أنام ۔( البشریٰ : ۱۲؍۹۷)
مجھے اللہ نے کہا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزے بھی رکھتا ہوں ، جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔
غور کیجئے کہ اس میں ذات باری تعالیٰ کی کس درجے کی اہانت ہے کہ معبود کو عبد بنادیا گیا ،نیندایک انسانی کمزوری ہے،اللہ تعالیٰ کے لئے اس کوثابت کیاگیا، عربی الہامات کے اسی مجموعے میں مرزا صاحب کا ایک الہام اس طرح منقول ہے :
قال اﷲ : إنی مع الرسول أجیب أخطیٔ وأصیب إنی مع الرسول محیط ۔( البشریٰ : ۲؍۷۹)
خدا نے کہا کہ میں رسول کی بات قبول کرتا ہوں ، غلط کرتا ہوں اور صواب کو پہنچتا ہوں ، میں رسول کا احاطہ کئے ہوئے ہوں ۔
گویااللہ تعالیٰ بھی- نعوذباللہ- غلطی کرتے ہیں،اس طرح کے اور بھی کئی نمونے مرزا صاحب کی عربی اُردو تحریروں میں موجود ہیں ، یہاں تک کہ ان کا بیان ہے کہ خدا نے ان سے کہا : أنت من ماء نا ،’’تو ہمارے پانی سے ہے ‘‘ ۔ ( انجام آتھم : ۵۵)یعنی مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ نعوذ باللہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں اور اس نازیبا دعوے کے لئے تعبیر بھی کتنی نازیبا استعمال کی ہے کہ گویا جیسے ایک انسان دوسرے انسان کے پانی سے پیدا ہوتا ہے ، اسی طرح گویا ان کی پیدائش ( ہزار بار نعوذ باللہ ) اللہ تعالیٰ سے ہوئی ہے ۔
مرزا صاحب نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا ؛ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایسی شرمناک بات کہتے ہیں کہ اگر حق و باطل کو واضح کرنا مقصود نہ ہوتا تو کسی مسلمان کے لئے اس کو نقل کرنا سرپر پہاڑ اُٹھانے سے بھی زیادہ گراں خاطر ہے ، مرزا صاحب کے ایک معتقد قاضی یار محمد قادیانی لکھتے ہیں :
حضرت مسیح موعود ( مرزاصاحب ) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا ۔ ( اسلامی قربانی : ۳۴)
یہ تو ان کے مرید کا بیان تھا ، خود مرزا صاحب کا بیان ہے :
مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں ، بذریعۂ اس الہام کے مجھے مریم سے عیسیٰ بنادیا گیا ، اس طورسے میں ابن مریم ٹھہرا ۔ ( کشتی نوح : ۲۷)
لیکن مرزا صاحب کو اس پر بھی تشفی نہیں ہوئی اور انھیں اس میں بھی کوئی باک نہیں ہوا کہ اپنے آپ کو خدا قرار دیں ؛ چنانچہ ایک موقع پر لکھتے ہیں :
میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں ، میں نے یقین کرلیا کہ میں وہی ہوں ۔ ( آئینہ کمالات اسلام : ۵۶۴)
قادیانی حضرات ٹھنڈے دل سے سوچیں اور خالی الذہن ہوکر غور کریں کہ نبی تو کیا کوئی ادنیٰ گنہگار شرابی وکبابی مسلمان بھی بحالت حوش و حواس اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی گستاخیاںکرسکتا ہے ،اورجوایساکرے کیاوہ مسلمان بھی باقی رہے گا؟
۲۔ اللہ کے تمام پیغمبر ہمیشہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتے آئے ہیں ، یہودی حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت یوسف علیہم السلام جیسے انبیاء پر بت پرستی وغیرہ کا الزام لگاتے تھے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نسب پر بھی حملہ کرتے تھے ، ان انبیاء کرام کی حیاتِ طیبہ پر جو غبار ڈال دیا گیا تھا،قرآن مجیداورپیغمبراسلامﷺنے اسے صاف کیا ؛اس لئے قرآن اور پیغمبر اسلامﷺ کی بار بار یہ صفت ذکر کی گئی کہ وہ پچھلے انبیاء اور گذشتہ کتابوں کی تصدیق کرتے تھے : ’’ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘ ۔
مرزا صاحب کو سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایسی پرخاش ہے کہ ان کی شان میں نہایت ناشائستہ اور اہانت آمیز جملے لکھتے ہیں ، بہت سی تحریروں میں سے صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے :
آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے ، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ، مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی ، آپ کا کنجر یوں(فاحشہ عورتوں) سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہوکہ جدی مناسبت درمیان میں ہے ، ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگادے اور زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے ، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے ؟ ( ضمیمہ انجام آتھم : ۷ ، روحانی خزائن : ۱۱؍۲۹۱ ، حاشیہ )
تمام مسلمانوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کو کسی مرد نے چھوا تک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے باپ کے واسطہ کے بغیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ،جو ایک معجزہ ہے ؛ لیکن مرزا صاحب کیسے اہانت آمیز انداز پر اس واقعے کا ذکر کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیے :
اور جس حالت میں برسات کے دنوں میں ہزارہا کیڑے مکوڑے خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام بھی بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس پیدائش سے کوئی بزرگی ان کی ثابت نہیں ہوتی ؛ بلکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا بعض قویٰ سے محروم ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ ( چشمۂ مسیحی : ۱۸، روحانی خزائن : ۲۰؍۲۵۶)
مرزا صاحب نے حضرت آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو افضل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آدم کو تو شیطان نے شکست دے دی (حاشیہ درحاشیہ مسرت خطبہ الہامیہ ملحقہ سیرت الابدال) اور حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ اللہ نے ان(مرزاصاحب) کے لئے اتنے معجزات ظاہر کئے کہ اگر نوح کے زمانے میں دکھائے گئے ہوتے تو ان کی قوم غرق نہ ہوتی ۔ ( تتمہ حقیقۃ الوحی : ۳۷)اسی طرح اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے ، ( براہین احمدیہ : ۵؍۷۶) یعنی حضرت یوسف علیہ السلام سے، مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ اگر ان کے زمانے میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ہوتے تو وہ بھی ان کی اتباع کرتے ۔ ( اخبار الفضل قادیانی : ۳؍۹۸ ، ۱۸ ؍ مارچ ۱۹۱۶ء )
قرآن مجید میں رسول اقدس اکی فضیلت پر جو آیتیں نازل ہوئی ہیں ، مرزا صاحب نے اُن سب کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے ، آخر مرزا صاحب کو اس پر بھی قناعت نہ ہوسکی اور انھوںنے حضور اپر بھی اپنی فضیلت کا دعویٰ کردیا ؛چنانچہ اپنے ایک عربی شعر میں کہتے ہیں کہ محمدﷺ کے لئے توایک گہن ہوا : اور میرے لئے سورج اور چاند دونوں گرہن ہوئے ، ( اعجاز احمدی : ۷۱) اسی لئے قادیانی شعراء اور مصنفین نے کھل کر کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب رسول اللہﷺ سے بھی افضل ہیں ؛ ( نعوذ بااللہ ) چنانچہ ایک قادیانی شاعر اکمل کہتا ہے :
محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
یہ اشعار نہ صرف شاعر نے کہے ہیں؛بلکہ بقول شاعر انھوںنے مرزا صاحب کے سامنے ان اشعار کو پڑھا بھی ہے، خود مرزا صاحب نے رسول اللہ اکے دور کے اسلام کو ہلال ( پہلی تاریخ کا چاند ) اور اپنی صدی کو بدر یعنی چودھویں کا چاند قرار دیا ہے ۔ ( خطبۂ الہامیہ : ۱۸۴)
رسول اللہ اکے سامنے کسی نے آپ کو حضرت یونس علیہ السلام سے افضل قرار دیا تو آپ نے فرمایا : ایسا نہ کہو ، ( لاینبغی لعبدأن یقول اناخیرمن یونس بن متیٰ:بخاری،حدیث نمبر:۳۴۱۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آپﷺ کو افضل قرار دیا تو آپ نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قیامت کے دن دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور لوگ زندہ ہوں گے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کے ستون کو تھامے ہوئے ہوں گے ، نہ معلوم وہ بے ہوش ہی نہیں ہوئے ہوں گے ، یا بے ہوش ہونے کے بعد سب سے پہلے ہوش میں آجائیں گے ، ( بخاری ، عن ابی ہریرہ : ۳۴۰۸) حالاںکہ رسول اللہ کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے ؛ لیکن آپ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں بعض دفعہ بے احترامی کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ؛ لیکن مرزا صاحب کا حال یہ ہے کہ بے تکلف انبیاء کی توہین کرتے اور اپنے آپ کو تمام انبیاء سے افضل ٹھہراتے ہیں— سوچئے ! کیا یہ کسی پیغمبر کا اخلاق ہوسکتا ہے ؟ اور کیا انبیاء کی شان میں کوئی عام مسلمان بھی ایسی بات کہہ سکتا ہے ؟ (جاری)
(ملت ٹائمز)