ہندو تنظیموں کی مسلمانوں پر ظلم و زیادتیاں

چاہت محمد قاسمی
ملک عزیز ہندوستان میں آر ایس ایس اور اسی کے نقش پا پر چلنے والی بہت سی جماعتیں جیسے ہندو مہا سبھا، بجرنگ دل، شیو سینا، وشوہندو پریشد، دُرگا واہنی، ہندوستان یووا، ہندو دَل، رام سینا، رام چرتر سینا، ہندو ویراٹھ سینا، ہندو سینا، اکھنڈ بھارت سمیتی، ہندو جاگرن سمیتی، جے شری رام سیوک سینا وغیرہ کے درمیان مسلمانوں کو ستانے، مسلمانوں کو مٹانے، مسلم قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے، مسلمانوں کی تواریخ کو مسخ کرنے، اور مسلم نوجوانوں پر قتل و غارت گری کے ذریعہ ظلم و زیادتی کرنے، اور مسلم نوجوان عورتوں کی عزتوں کو پامال کرنے میں سبقت لے جانے کی بہت زیادہ کوششیں جاری ہیں۔
گو رکشا کے نام پر مسلمانوں پر اجتماعی تشدد، اجتماعی مسلم مسافرین اور نوجوانان کی قتل و غارت گری ابھی رکی بھی نہ تھی بلکہ کہا جائے کہ اس کی روک تھام کے لیے ابھی تک کوئی دفاعی اقدام بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک شدت پسند ہندو تنظیم ہندو سنگھٹن سمیتی نے 2100 مسلم دوشیزاؤں کو ہندو لڑکوں سے بِہا کر اپنے گھروں کی بہو بنانے کا اعلان کیا، دختران اسلام کی ہندو گھرانے میں شادی کرانے کا مطلب ہے ان کی عزتوں کی پامالی، ان کے ایمان کا خاتمہ، ان کے پریواروں اور خاندانوں کی شرمندگی، ان کے باپ بھائیوں کی رسوائی اور پوری مسلم قوم کی بے بسی۔ ہندو تنظیم کے اس جارحانہ، شدت پسندانہ اور مجرمانہ اعلان سے مظلوم مسلمان دل شکستہ پریشان حال، انگشت بدنداں، حیران و ششدر بے یار و مددگار کھڑے ہوئے تھے اور مسلمانوں نے اس مہلک وار کو روکنے کی کوئی تدبیر بھی نہ سوچی تھی کہ اچانک ایک نئی خبر نے ان کے دلوں پر بجلیاں گرائی، مسلمانوں کی بے بسی میں مزید اضافہ ہوگیا جب معلوم ہوا کہ راجھستان میں ایک ظالم و جابر شدت پسند ہندو نوجوان نے ایک مزدور کو صرف اس لیے بہیمانہ انداز سے قتل کردیا کہ وہ مسلمان تھا، بلکہ اس نے تو حیوانیت اور ظلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے پورے قتل کا ویڈیو بنایا اور نہ یہ کہ صرف فیس بک پر اپلوڈ کیا بلکہ دیگر ہندو نوجوانوں کو بھی اسی ظلم و استبداد پر ابھارا کہ سبھی ہندوﺅں کو مسلم نوجوانوں کے ساتھ اسی طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے اور مسلمانوں کو اسی طرح قتل کردینا چاہیے۔
اف مسلمانوں کے ساتھ اتنے گھناﺅنے افعال اور اتنے برے حالات۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا ہے، ان کا سد باب کیسے ہو؟ اور ان کو کیسے روکا جائے؟ اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسے ظلم و استبداد میں ڈوبے ہوئے مجرمانہ افعال رکنا تو کجا کم ہونے تک کا نام نہیں لے رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے سبھی شدت پسند ہندو تنظیموں میں ایک ہوڑ سی مچی ہوئی ہے کہ کون کس کس طرح مسلمانوں کے دلوں، جذباتوں اور احساسات کو کتنا زیادہ مجروح کرتا ہے۔ اور اس پر طرہ یہ ہے کہ حکمران نہ صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ کہا جائے کہ حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ ملک ہندوستان کا پورا سسٹم ایسی فسطائی جماعتوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
یہ بات اگر چہ کڑوی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ فی الحال تو ان حلات اور مجرمانہ افعال کے رک جانے کی کوئی صورت اور سبیل نظر نہیں آتی ہے، بس اب تو انتظار اس بات کا ہے کہ یہ ظلم کا گھڑا کب پڑھتا ہے اور مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ کب لبریز ہوتا ہے۔