محمد عمران
موجودہ عالمی منظرنامہ اسلام مخالف نظریات پرقائم نظر آتا ہے۔مسلمانوں کی مخالفت کے لئے موضوعات فرضی طور پر گڑھ لئے جاتے ہیں۔ کوئی حادثہ رونماہوتا ہے تو فوری طور پر کسی مسلمان کو یا مسلمانوں کے نام پر بنی تنظیم کو اس کا ذمہ دار قراردے دیاجاتا ہے ،بھلے ہی بعد میں یہ ثابت بھی ہوجاتاہے کہ جو کچھ بھی ہوا تھا وہ محض فرضی اور سازشی تھا اور اس میں مذکورہ مسلمان ملزمین کا کا کوئی قصور نہیں تھا۔اگرتاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوکہ عالمی سطح پر انجام دئے جانے والے زیادہ تر حملے اور انکاؤنٹر وغیرہ فرضی ثابت بھی ہوچکے ہیں۔یہاں یہ بات بھی ہر خاص و عام کے لئے ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ اس مخصوص مخالفت کے مخصوص نظریہ کوفروغ دینے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کی کوئی قید نہیں ہے ۔حالانکہ آج دنیا کے ممالک کے درمیان علاقے اور سرحدوں کے جھگڑے بھی خوب سر اٹھاتے ہیں ،معاشی اور ایٹمی طاقتوں میں ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنے کی بڑے پیمانے پر انتقامی کوششیں کی جاتی ہیں اور اس کیلئے مقابلہ آرائیاں بھی بڑے دم خم کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن جب کسی مسلم ملک ،کسی مسلمان فرد واحد یا مذہب اسلام کے حوالے سے کوئی بھی اہم بات سامنے آتی ہے تو اس کو زیر کرنے اور اس کے مثبت رخ کو منفی سمت دینے کیلئے تمام اسلام مخالف طاقتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجاتی ہیں اور اپنی بساط بھر سرنگوں کرنے کی کوشش کرتی ہیں، چاہے اس کے لئے انہیں کوئی نازیبا،غیر مہذب اور بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ورزی کرنے والا قدم بھی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔اکثر وبیشتر یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ خود اپنے کیے ہوئے گناہوں کاالزام بے قصور مسلمانوں کے سر پر رکھ دیاجاتا ہے ،اور جیسے ہی کسی مسلمان پر قصور کاالزام آتاہے ویسے ہی اسلام مخالف قوتیں بھی ایک ہوجاتی ہیں۔
آج دنیا بھر کے مسلمان بھی سراپا احتجاج ہیں اوروہ اپنی حق گوئی پر بھی قائم ہیں ،لیکن اس کے برخلاف یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ ان کی بات سننے والا بھی کوئی نہیں ہے۔اگر پورے منظرنامے کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگاکہ مسلمانوں کو کامیابی اور حق گوئی سے دور رکھنے کے لئے آج بھی یہود ونصاریٰ اپنی قدیمی روایت پر قائم ہیں ،مسلمانوں کوہی مسلمانوں سے تفریق کرنے کا سبق پڑھاتے ہیں، معمولی عہدے اورکچھ ڈالر کے عوض انہیں خریدلیتے ہیں ، ان کی زبان سے اپنے بول نکلواتے ہیں ،ان کے ہاتھوں سے اپنے ہتھیار چلواتے ہیں اور ان کے نشانے پر بھی مسلمان ہوتے ہیں۔اس طرح قاتل اور مقتول دونوں ہی مسلمان ہوتے ہیں اور بدنام بھی مسلمان ہی ہوتے ہیں۔کچھ بعید نہیں کہ مسلم مخالف کارناموں کو انجام دینے کیلئے کچھ فرضی مسلمان بھی گڑھ لئے جاتے ہیں۔اس سلسلے میں کبھی القاعدہ کاعرج ہوتا ہے تو کبھی داعش کے ستم آلود کارناموں سے دنیا تھرااٹھتی ہے۔اسلامی دنیا چیخ چیخ کرکہتی ہے کہ داعش کوئی اسلامی تنظیم نہیں ہے اور خون بہانے والے لوگ مسلمان نہیں ہیں ،اسلام کا دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں سے کوئی واسطہ نہیں ہے ،اسلام اس کی پرزور مخالفت کرتا ہے اور باہمی اخوت اور اخلاق مندی کا درس دیتا ہے لیکن پھر بھی دہشت گردی کے غیرانسانی کارناموں کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے۔حالانکہ بار بار داعش کے یہودی رخ کی نشاندہی بھی ہوتی رہی ہے لیکن اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دینا چاہتا ہے،اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ یہ محض مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
اس کو المیہ ہی کہیں گے کہ موجودہ وقت میں شام جیسے اسلامی ملک میں سازشی طریقے سے جس طرح مسلمان ہی آپس میں برسرپیکار ہوگئے ہیں،خانہ جنگی کے شکار ہوگئے ہیں اور وہاں بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کا قتل ہورہا ہے ، اس کے پیچھے روس اور مغربی ممالک کے مسلم مخالف نظریات کی کارفرمائی اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔عراق میں جوہوا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،لیبیا میں جوہوا وہ بھی جگ ظاہر ہے ،ترکی میں جو ہورہا ہے اس سے بھی پوری دنیا واقف ہے۔اگرکسی اسلامی ملک میں کوئی رجب طیب اردگان جیسا مسلمان سربراہ ہوگا تو وہ مغربی قوتوں کو برداشت نہیں ہوگا ،وہاں بھی انقرہ جیسے دھماکے ہوں گے اور مسلمانوں میں خوف کاماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔فلسطین کے مسلمان اور ان کے بچے دہائیوں سے دہائیوں تک مسلسل اپنی بے گناہی کی پاداش میں جام شہادت نوش کرتے رہیں گے لیکن مغرب کی اسرائیل نوازی کاسلسلہ کبھی نہیں تھمے گا، خودانسانی حقوق کی علمبرادی کا دم بھرنے والوں کے سامنے اور انہی کے ہاتھوں فلسطین جیسے اسلامی ملک میں غضب ناک طریقے سے حقوق انسانی کی پامالی ہوتی رہے گی لیکن پھربھی ان کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے بھی دور رکھنے کواپنا فریضہ تسلیم کیا جاتارہے گا۔ میانمار میں مسلمانوں کو اپنی شہریت حاصل کرنے کے لئے پتہ نہیں کب تک ٹھوکریں کھانی پڑیں گی اور پیٹ بھرنے اور تن ڈھکنے میں ملنے والی ناکامیوں کا سامنا کرنے میں اپنے ہی ملک میں بے توجہی کا شکار ہونا پڑے گا۔
صرف اسلامی ممالک میں ہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی جن ملکوں میں مسلمان آباد ہیں ان پر بھی آج طرح طرح کے ستم ڈھائے جارہے ہیں۔ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔اگر عالمی منظرنامے سے ہندوستان کے موجودہ منظر نامے کو جوڑ کردیکھاجائے تو معلوم ہو کہ یہاں بھی وہی تمام طریقے استعمال کرنے کی منظم لیکن مذموم کوشش کی جارہی ہے جو مغربی ممالک کی جانب سے وسط ایشیا کے اسلامی ممالک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کی جاتی رہی ہے۔یہاں سازشی طریقے سے مسلمان نوجوانوں کا تعلق دہشت گردی سے جوڑ دیاجاتاہے ، انہیں خوودساختہ الزامات میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجاتا ہے،جب بھی کوئی حادثہ یاسانحہ انجام پائے اس کاالزام مسلمانوں کے سر جاتا ہے ،حالانکہ عدالتوں سے انہیں باعزت بری ہونے کا پروانہ بھی ملتا ہے لیکن اپنی پرانی روش کے مطابق پھر وہی کام کیاجاتا ہے۔کچھ سال قبل ایک وقت ایسا بھی آیاتھا جب ممبئی اے ٹی ایس کے سابق چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے نے ان تمام سازشوں کے پیچھے سنگھ کی ذہنیت کی کارفرمائی کو اجاگر کیاتھا اور ہندو دہشت گردی کے نام پر سادھوی پرگیہ جیسے لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی ،لیکن آنجہانی کرکرے کی شہادت کے بعد ایک بار پھر وہی روش اپنالی گئی ہے۔موجودہ بی جے پی کی حکومت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ اور زور پکڑ گیا ہے۔مسلمانوں پر آرایس ایس کے نظریات کو تھوپنے کی منظم کوشش ہورہی ہے،کبھی انہیں وندے ماترم گانے کیلئے مجبور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،کبھی سوریہ نمسکار کو اسکولوں میں لازمی قرار دینے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے،کبھی بھارت ماتا کی جئے بولنے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے،کبھی پاکستان چلے جانے کا راگ الاپاجاتا ہے،کبھی لوجہاد کی مذموم ترکیب سے ملک کے اتحاد کو پاراپاراکیاجاتا ہے،کبھی گھر واپسی کانعرہ دے کر پرکھوں کے آباد گھر کو اجاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔جب رواداری کی حدیں پار ہونے لگتی ہیں اور کوئی اس بڑھتی ہوئی عدم روادی پر اپنی فکرمندی کااظہار کرتا ہے تو اس کے محب وطن ہونے پر شک کیاجاتا ہے۔غور طلب امر ہے کہ جس ہندوستان کومسلمانوں نے کندھے سے کندھا ملاکر اپنی قربانیوں سے آباد کیا ہے،اسے سجا سنوار کر خوبصورت اور دلفریب بنایا ہے اسی ہندوستان میں آج مسلمانوں سے تفریق کارویہ اپنایاجارہا ہے۔منظم طریقے سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے مظفر نگر ،بلبھ گڑھ اور ملیانہ جیسے فساد کرائے جاتے ہیں ،مسلمانوں کے جان ومال اور ان کی ملکیت و معیشت کو تباہ برباد کیاجاتا ہے اور مسلمانوں کوہی اس کیلئے مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔کبھی حیوانات کے نام پر اس قدر حیوانیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ گائے کا گوشت رکھنے کے جھوٹے الزام میں دادری کے بے گناہ محمد اخلاق کوان کے گھر میں گھس کر اس بے دردی سے مارا جاتا ہے کہ ان کی موت واقع ہوجاتی ہے ،کبھی بیلوں کے معصوم مسلمان تاجرین کو جھارکھنڈ کے لاتیہار میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیاجاتا ہے اور ان کی لاشیں رسیوں میں باندھ کر لٹکادی جاتی ہیں۔کبھی کوئی مسلمان اگر حکومت کے خاموش رویے پر احتجاج درج کراتا ہے تو اس کو بھی ملک کے غداروں کی صف میں لاکھڑاکرنے کی کوشش ہونے لگتی ہے۔
موجودہ وقت میں امریکی صدارتی امیدوار کی دوڑ میں اپنانام درج کرانے والے مسٹر ٹرمپ بھی مسلمانوں کے خلاف اپنے بیانات دے کرعالمی سطح پر قائم ہونے والے مسلم مخالف نظریات کی حمایت کررہے ہیں اور ایسے مذموم خیالات کی عکاسی بھی کررہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیاکے مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان کے مسلمان بھی اس وقت خوف کے سائے میں زندگی بسر کررہے ہیں، جا بجا اپنا احتجاج بھی درج کرارہے ہیں ۔ ان کا غصہ اور ان کی فکرمندی ایک فطری سی بات ہے اور اس کا اظہار ہوناہی چاہئے ۔ان کے اس احتجاج میں انسانیت پسند اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے والے غیرمسلم افراد اور جماعتوں کی آواز بھی بلند ہورہی ہے لیکن اس کے باجود بھی مسئلہ جیسا تھا ویسا ہی ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی ہورہا ہے۔آخر اس کی کیا وجہ ہے؟چونکہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے اس لئے ایک مسلمان کی حیثیت سے اس مسئلے پر غور کیاجائے تو یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ آج مظالم کے خلاف ا پنے احتجاج کے ساتھ مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنے کی بھی ضرورت ہے،کیونکہ ایسا ان کے ساتھ پہلی بار نہیں ہورہا ہے،انبیاء ورسل کے زمانے میں بھی حق کی صدا بلند کرنے والوں پر منظم طریقے سے مظالم ڈھائے گئے تھے اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔غور طلب امر ہے کہ کیا آج کے مسلمانوں کو حق کی صدا بلند کرنے کی سزا مل رہی ہے یا ان کے حق سے بعد کی وجہ سے ان کے حق کوہی مٹانے کی کوشش ہورہی ہے ؟اسلاف نے حق کی صدا بھی بلند کی تھی اور مستحکم طریقے سے حق پر قائم بھی رہتے تھے ،جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ ان کو سربلندی حاصل ہوتی تھی ۔آج صرف مظالم کی شکایتوں کے انبار لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے احکام خدا کاپابند ہوتے ہوئے حق کی صدا بلند کی جائے گی تبھی اس مسئلے کاحل نکلے گا۔بنیادی طور پرہرمسلمان اپنا محاسبہ کرنے کا ذمہ دار ہے ،اس لئے میں آپ پر انگلی نہ اٹھاؤں،آپ مجھ پر انگلی نہ اٹھائیں بلکہ میں خود کوسچا پکا مسلمان بناؤں اور آپ بھی یہی فکر اوڑھیں،اگر ہم اس میں کامیاب ہوتے ہیں تو دنیا کی کسی بھی طاقت کے لئے مسلمانوں کی تحقیر ممکن نہیں ہوگی۔ جب ایسا ہوجائے گا تو دنیا میں انسانیت بھی عام ہوجائے گی۔اور عالمی منظرنامے میں مخالفت کاوجود بھی باقی نہیں رہ جائیگا۔(ملت ٹائمز)
( کالم نگار اینگلو عربک اسکول کے سینئر استاذ ہیں )