نایاب حسن
موجودہ صدی اطلاعاتی و علمی انقلاب کی صدی ہے، ذرائعِ معلومات و ابلاغ کی نت نئی صورتوں نے ہماری نگاہوں کے سامنے ایک ایسی رنگا رنگ کائنات بسا دی ہے ، جس میں علم و تحقیق ، فکر و تدقیق اور خبر و نظر کے تمام تر شعبے ہر صاحبِ ذوق انسان کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں، اطلاعاتی ٹکنالوجی کی دم بدم ترقیات نے انسان کی رسائی اَخبار و حوادثِ عالم سے لے کر علوم و فنون کی جملہ شاخوں تک نہایت ہی آسان کردی ہے، انٹرنیٹ اِس وقت معلومات کا جامِ جہاں نما کہا جاسکتا ہے، اس کے اِفادی پہلؤوں کو کام میں لاکر کوئی بھی انسان، تحریک اور اکیڈمی و ادارہ منٹوں اور سیکنڈوں میں اپنی باتیں دنیا کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک پہنچا سکتا ہے، انٹرنیٹ کے سہارے ہمعصر صحافت اپنے عروج اور بلندیوں کے نئے آفاق و جہان دریافت کررہی ہے، اس وقت دنیا بھر کے بیشتر بڑے چھوٹے اخبارات کے ’’ ای ایڈیشنز “ بھی دستیاب ہیں،جن کے صفحات انگلیوں کی معمولی جنبش سے ہمارے سامنے کھل جاتے اور دنیا میں کہیں بھی واقع ہونے والے واقعات و حادثات اور تغیرات سے باخبر کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ ہی کی بہ دولت ذریعۂ ابلاغ کی ایک نئی شکل سوشل میڈیا کی صورت میں وجود پذیر ہوئی ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری زندگی میں اہمیت اختیار کر رہا ہے، یہاں خبروں اور معلومات کے لئے کروڑوں افراد آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ وکی پیڈیا پر سوشل میڈیا کی یہ تعریف کی گئی ہے:
”کمپیوٹر کی وساطت سے استعمال ہونے والی ایسی ٹکنالوجیز، جو ورچوَل کمیونٹیز اور نیٹ ورکس کے ذریعے کسی اطلاع، فکر، ملازمت سے متعلق امور اور دیگر اشیا کو تخلیق و اشاعت کی سہولت فراہم کرتی ہیں“۔
(https://en.wikipedia.org/wiki/Social_media#Definition_and_classification)
ٹوئٹر اور فیس بک اس دور کی مقبول ترین سوشل سائٹس ہیں، جن کے کروڑوں صارفین دنیا بھر میں موجود ہیں۔ فیس بک پر موجود لوگوں کو اگر ایک ملک کی آبادی قرار دیں، تو یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے ، جبکہ کئی عالمی سیاسی رہنما یا آرٹسٹ ایسے ہیں،جن کے ٹوئٹر فالوورز جرمنی، ترکی، جنوبی افریقہ، ارجنٹائن، مصر اور کینیڈا جیسے ملکوں کی آبادی سے بھی زیادہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر قسم کی بات کی جاسکتی اور ہر نسل اور رنگ کے لوگ اپنی پسند کے مطابق ایسے لوگ ڈھونڈ سکتے ہیں، جن کے ساتھ تعلقات کئی بار حقیقی زندگی کے تعلقات میں بدل جاتے ہیں۔ آپسی بات چیت اور باہمی روابط کے فروغ میں بھی سوشل میڈیا اہم کردار ادا کررہا ہے اور اس کی بہ دولت تعلقات اور دوستی کی ایک ایسی نئی صنف سامنے آچکی ہے کہ دولوگ جسمانی اعتبار سے سیکڑوں ؛ بلکہ بسا اوقات ہزاروں میل دور ہونے کے باوجوداپنے کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،ٹیبلیٹ ،اسمارٹ فون یاآئی فون وغیرہ کی سکرین کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب بھی ہوسکتے ہیںاور وہ آپس میں اسی طرح بات چیت کرسکتے ہیں،جیسے کہ حقیقت میں دو ملنے والے ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ کے 3.2 بلین مجموعی صارفین میں سے 46.1 فیصدلوگ ہروقت آن لائن رہتے ہیں اور فیس بک پر فی سیکنڈ 5 لوگ نیا اکاؤنٹ بناتے ہیں، جبکہ موبائل پر انٹرنیٹ کی سہولت کی وجہ سے ٹوئٹس، فیس بک پوسٹس اور گوگل سرچز کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے، ایک اندازے کے مطابق فی سیکنڈ 54 ہزار 907 گوگل سرچز، 7 ہزار 252 ٹوئٹس، اڑھائی لاکھ سے زائد ای میلز اور یوٹیوب پر سوا لاکھ سے زائد ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔ اس انٹرنیٹ سیکنڈ کو بڑھایا جائے تو ساڑھے تین لاکھ ٹوئٹس فی منٹ ہوتی ہیں اور اس طرح ایک سال میں 200 ارب ٹوئٹس کیے جا رہے ہیں، جبکہ پہلا ٹوئٹ 21 مارچ 2006ء کو کیا گیا تھا۔ لائیو اعداد و شمار کے مطابق فی سیکنڈ بھیجی جانے والی لاکھوں ای میلز میں سے 67 فی صد اسپیم یعنی اشتہاری اور فالتو ای میلز ہوتی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر گوگل کو 3 ارب مرتبہ سرچ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ 1998ءمیں جب گوگل سروس پیش کی گئی، تو اس سال روزانہ صرف 10 ہزار سرچز ہوتی تھیں۔
ٹویٹس اور ای میل سے ہٹ کر ہر سیکنڈ میں انسٹاگرام پر 729 فوٹو اپ لوڈ کیے جا رہے ہیں اور اسکائپ پر 2,177 کالز کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیٹ اور ایلیکسا پر فی سیکنڈ 286 ووٹ کاسٹ کیے جاتے ہیں اور 23 کمنٹس پوسٹ ہوتے ہیں، دوسری جانب نیٹ فلیکس نے حیرت انگیز اعداد و شمار پیش کیے ہیں؛ کیونکہ اس کے 80 لاکھ صارفین فی سیکنڈ 1,450 گھنٹے کی ویڈیو اور ٹی وی شوز دیکھتے ہیں۔ واٹس ایپ کو موبائل میسیجنگ کی دنیا کا بادشاہ تصور کیا جاتا ہے اور اس بات کی تصدیق ایک حالیہ سروے میں بھی ہوئی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ انٹیلی جنس کمپنی سمیلر ویب کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق واٹس ایپ دنیا کے 109 ملکوں میں استعمال کیا جانے والا سب سے بڑااور بہترین موبائل میسیجنگ ایپ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں موجود 94.8 فیصد اینڈرائیڈ موبائل فونز میں واٹس ایپ موجود ہے، جہاں اس کا روزانہ اوسطاً 37 منٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کمپنی نے 187 ملکوں میں سروے کیا اور 109 ملکوں میں یہ صف اول پر رہا، دنیا کے 55.6 فیصد موبائل فونز میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
مجموعی طور پر اس وقت سیکڑوں سوشل سائٹس ہیں،جو کسی نہ کسی خصوصیت میں ایک دوسرے سے ممتاز ہیں اور انھیں مخصوص ممالک یا لوگوں میں مقبولیت حاصل ہے، ہندوستان میں بھی سوشل میڈیاکے طورپر استعمال ہونے والی بہت سی سائٹس ہیں، البتہ ان میں دس مشہور ہیں اور ان سے عام طور پر لوگ واقفیت رکھتے ہیں۔ ان سوشل سائٹس میں فیس بک، واٹس ایپ، فیس بک میسنجر، گوگل پلس، سکائپ، ٹوئٹر، ہائک میسنجر، لنکڈاِن، انسٹاگرام اور وی چیٹ شامل ہیں۔ ہندوستانی ٹوئٹر یوزرس کی تعداد 26.7 ملین، فیس بک استعمال کرنے والوںکی تعداد 241 ملین ، واٹس ایپ یوزرس 200 ملین، انسٹاگرام یوزرس کی تعداد 33 ملین، لنکڈان یوزرس کی تعداد 42 ملین ہے، ان کے علاوہ دیگر سوشل سائٹس کے استعمال میں بھی عالمی سطح پر ہندوستانی صارفین کی تعداد عموماً دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے۔
اردو زبان اور سوشل میڈیا:
سائبر سپیس میں اردو زبان کے داخلے کو پندرہ سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا ہے ،مگر اتنی مختصر مدت میں بھی اس زبان نے انٹرنیٹ کی دنیا میں غیر معمولی ترقی حاصل کی ہے، اردو سافٹ ویئر کے علاوہ یونیکوڈ اردو کے ذریعے بھی آسانی سے اظہارِ خیال کی سہولت موجود ہے، دیگر زبانوں کی مانند اردو زبان میں بھی علوم و فنون کاایک بڑا ذخیرہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، مختلف زبانوں کے صحافتی ذرائع سے تحریک پاکر ہند و پاک اور دیگر ممالک سے شائع ہونے والے اردو زبان کے اخبارات و رسائل کی ایک بڑی تعداد ”آن لائن“ ہوچکی ہے اور دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے انسان کے لیے آسان ہوگیا ہے کہ وہ کسی بھی ملک کا کوئی بھی پسندیدہ اخبار یا میگزین کہیں بھی بیٹھ کر بآسانی دیکھ اور پڑھ سکتا ہے، ادبی رسالوں، کتابوں، شاعری کے معتد بہ ذخیرے کے علاوہ متعدد ادبی سائٹس سرگرم ِ عمل ہیں اور انٹر نیٹ کی بہ دولت لوگ عالمی ادبیات سے بھی آگاہی حاصل کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا بھی انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے خیالات و افکار کی ترسیل و اشاعت کا ایک بہت اہم وسیلہ بن چکا ہے، سیاسی مباحث ہوں یا سماجی مسائل، علمی و سائنسی موضوعات ہوںیاادبی عناوین؛ ہرایک موضوع پرلوگ اپنے اپنے ذوق و دلچسپی کے موافق ٹوئٹر، فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور دیگر سیکڑوں سوشل سائٹس کے ذریعے کھل کر اظہارِ خیال کررہے ہیں، کچھ دنوں پہلے تک اردو والے اپنی باتیں رومن رسم الخط میں لکھتے تھے اور اس سے ایک اندیشہ پیدا ہونے لگا تھاکہ کہیں اس طرح اردو رسم الخط کو نقصان نہ پہنچ جائے، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ اندیشہ کافور ہوگیا اور انٹرنیٹ پر دیگر زبانوں کی طرح اردو شائقین کی بھی ایک بڑی تعداد نمودار ہوگئی، جو سوشل میڈیا پر بسہولت اردو زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکتی تھی ، حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ اب بھی سوشل میڈیا پر اردو زبان کا استعمال دوسری زبانوں کی بہ نسبت بہت کم ہے؛ لیکن پھر بھی اردو پڑھنے لکھنے والی نوجوان نسل کا بڑا طبقہ اردو زبان میں سوشل میڈیا کا استعمال کررہا ہے۔ اس سے اردو زبان کوایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اپنے اپنے خاص مقاصد کے تحت لوگوں نے جدید ادب اور نئے ادبی رویوں، رجحانات کو مَس کرنے کے ساتھ قدیم ، کلاسیکل ادب و شاعری کی طرف بھی پورے ذوق و شوق سے رجوع کیا اور نئے زمانے کے مقبول شعرا و اہلِ ادب کے ساتھ ان کے مطالعے میں قدیم عہد کے استاد شعرا و ادبا کی تخلیقات بھی آنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی اردو میں خبروں کے حصول اور عالمی خبروں تک پہنچنے کے لیے بھی سوشل میڈیا ایک تیز تر وسیلہ ثابت ہو رہا ہے ، دسیوں سرگرم نیوز پورٹل ،علمی وادبی بلاگنگ سائٹس کے علاوہ سیکڑوں واٹس ایپ گروپ، ٹیلی گرام چینلس ، فیس بک گروپ معرضِ وجود میں آچکے ہیں ، جو ابلاغ کی ایک نئی صنف کو بہ خوبی برت رہے ہیں اور قارئین تک تیزی سے خبریں، تجزیے ، تبصرے اور نثری و شعری تخلیقات پہنچا رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں اردو زبان کا استعمال ای میل، بلاگ، ٹوئٹر، فیس بک، واٹس ایپ اور یوٹیوب وغیرہ سوشل سائٹس پر تیزی سے بڑھا ہے۔ فیس بک اور واٹس ایپ پر خاص طور سے مشاعروں کی مجلسیں بھی سجنے لگی ہیں، کئی اردو ویب سائٹس ایسے ادبی فورم میں میں تبدیل ہوگئی ہیں، جہاں اردو زبان و ادب کے سنجیدہ مسائل و موضوعات پر بحث و نقاش کی مجلسیں برپا کی جاتی ہیں اور ان مجلسوں میں نئی نسل کے نمایندہ افراد شریک ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بہ دولت اردو زبان و ادب کا دائرہ سرحدوں سے گزرکر عالمی سطح پر پھیل رہا ہے اور مختلف ملکوں کے ادیب و شاعر ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں، بھلے ہی انھیں بالمشافہ ملاقات کا موقع نہ ملے، مگر سوشل میڈیا نے ان کے لیے ایک دوسرے کے خیالات و تخلیقات سے استفادہ کی راہیں کھول دی ہیں، سوشل سائٹس پر جہاں استاد شعرا و ادبا کے تذکرے اور ان کی تخلیقات کی اشاعت تسلسل کے ساتھ جاری ہے، وہیں نئے تخلیق کاروں کو بھی عالمی سطح پر نئے نئے قارئین و سامعین میسر آرہے ہیں۔ سب سے پہلے ٹوئٹر نے بلاگ میں اردو رسم الخط کے استعمال کی سہولت فراہم کی تھی، جس نے اردو داں حلقہ کو تیزی سے اپنی جانب کھینچا اور آج اردو ٹوئٹر استعمال کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس کے علاوہ اب فیس بک اور واٹس ایپ کو بھی مکمل اردو زبان میں استعمال کرنے کی سہولت حاصل ہوگئی ہے۔ اردو زبان میں بلاگ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی ہے، بہت سے لوگ اپنے بلاگس کو الیکٹرانک اشاعت کے ساتھ کتابی شکل میں بھی شائع کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے افراد اور جماعتوں کو ناقابلِ تصور حد تک ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے، ایک شخص جس جگہ جسمانی طور پر موجود ہے، ممکن ہے کہ وہاں وہ ذہنی طور پر موجود نہ ہو؛ لیکن وہ شخص سوشل میڈیا کی بہ دولت اسی وقت ایک ایسی جگہ پر موجود ہوسکتا ہے، جہاں وہ جسمانی طور پر نہیں پہنچ سکتا ۔سوشل کمیونٹی ایک فیملی یا خاندان میں تبدیل ہوچکی ہے؛ چنانچہ آپ کو My Facebook family جیسی تعبیراکثر و بیشتر سننے اور دیکھنے کو ملتی ہوگی ، آپ جیسے ہی فیس بک کھولیں گے سب سے اوپر What’s on your mind لکھا ہوا آئے گا اور پہلے سے گرچہ آپ کے دماغ میں کچھ نہ ہو ، مگر یہ سوالیہ جملہ دیکھتے ہی کچھ نہ کچھ آپ کے دماغ میں آہی جائے گا اور پھر آپ آناً فاناً اس کا اظہار بھی کردیں گے۔ الغرض جدید ٹکنالوجی نے موجودہ انسان کے سامنے اطلاع و روابط کے نئے آفاق کھول دیے ہیں،جن کی وسعت ہماری زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اس کے ساتھ ہی اس نے دنیاے زبان و ادب کے لیے بھی نئے امکانات و ابعاد وا کردیے ہیں۔
لفظیات کو درپیش چیلنجز:
مذکورہ مثبت اور مفید پہلووں کے ساتھ سوشل میڈیا میں اردو زبان کے استعمال کے تعلق سے ایک اور پہلو قابل توجہ ہے ،جس کی طرف عموماً دھیان نہیں دیا جاتا ہے اور اس کا تعلق زبان و بیان کی غلطیوں سے ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہر زبان کا اپنا ایک تہذیبی و تاریخی پس منظر ہوتا ہے،اسی طرح الفاظ کا بھی اپنا ایک پس منظر اورتاثیر ہوتی ہے، کبھی کبھی توایک لفظ کو بولنے کے لب و لہجہ کے اختلاف اور بولنے والے کے چہرے کے خطوط سے بھی بعض الفاظ کے مصداق میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے،اردو زبان میں بے شمار ایسے الفاظ ہیں کہ زبر زیر کے فرق سے معنی و مفہوم بدل جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں پوسٹنگ اور میسجنگ کے علاوہ مکالمے کے لیے بھی عام طورپر تحریری شکل ہی رائج ہے؛ لیکن یہ تحریر با ضابطہ تحریر کے مفہوم میں بھی شامل نہیں کی جاسکتی؛ کیوں کہ یہاں بات کرتے ہوئے لفظ لکھے تو جاتے ہیں، مگر زبان، جملوں کی ساخت، علامات، اشارات وغیرہ عام طور پر وہی استعمال کیے جاتے ہیں،جو عموماً بول چال میں مستعمل ہیں، جبکہ بہت سی دفعہ سوشل میڈیا پر بات چیت کی زبان بالکل ہی الگ ہوتی ہے،یعنی ایسی زبان، جو نہ تو عام بول چال میں استعمال ہوتی ہے اور نہ لکھنے میں استعمال کی جاتی ہے۔انٹرنیٹ اورسوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر کی جانے والی بات چیت کے لیے انگریزی میں Chating یا Chat کا لفظ استعمال ہوتا ہے،وکی پیڈیاپر آن لائن چیٹ کی لمبی تعریف کی گئی ہے ،جس کا اجمال یہ ہے کہ آن لائن چیٹنگ انٹرنیٹ کے واسطے سے دویا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان کی جانے والی کسی بھی قسم کی بات چیت ہے،چاہے وہ صوتی ہو، تحریری ہو، تصویری ہو یا اِموشنز (اِموجیز) کے ذریعے کی جائے۔ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ سوشل سائٹس پر بات چیت کا اطلاق تحریر، آواز، تصویراورایموجیز سب پر ہوتا ہے ،یعنی سوشل میڈیا پر بات چیت میں الفاظ کا تلفظ اور املا دونوں شامل ہیں۔ عربی میں آن لائن بات چیت کے لیے عام طورپر ”دردشة“ مصدر اور اس کے مشتقات کا استعمال کیا جاتا ہے،اردو زبان میں اس کے لیے اب تک باقاعدہ کوئی متبادل نہیں ہے اور یہاں سوشل میڈیا، سوشل سائٹس، فیس بک،پوسٹ ، کمینٹ ، شیئر، ٹوئٹر، ٹوئٹ ، فالو ،فالوورز اور چیٹنگ جیسے خالص انگریزی الفاظ ہی عام طورپر مستعمل ہیں،زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ حسبِ ضرورت انگریزی لفظ کے ساتھ”کرنا“کا مصدری لاحقہ لگادیا جاتا ہے ،جیسے پوسٹ کرنا،ٹوئٹ کرنا، فالوکرنا، چیٹنگ کرنا وغیرہ اورپھر اسی ”کرنا“ سے مختلف افعال بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا میں اردو زبان کے استعمال میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے،اسی رفتار کے ساتھ زبان کی لفظیات میں تبدیلی بھی واقع ہورہی ہے،سوشل میڈیا پر بولے یالکھنے جانے والے الفاظ میں زبان کے صحیح تلفظ اور املا کی صحت کو عموماً دھیان میں نہیں رکھا جاتا، نئی الیکٹرانک تعبیرات کی ایجاد، عام بول چال اور تحریروں میں استعمال ہونے والے الفاظ کے نئے نئے مخفف بنانا، چھوٹے چھوٹے اور مبہم جملوں کو برتنااورتلفظ یا املا کے قواعد کی صریح خلاف ورزی کرنے والے لفظوں کا بے محابا استعمال سوشل میڈیا کی زبان کا خاصہ ہے۔سوشل میڈیا کی اصل اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان انگریزی ہے، مگر یہاں انگریزی کو بھی تلفظ و املا کے کئی مسائل درپیش ہیں،یہ الگ بات یہ ہے کہ انگریزی والے دوسرے اہلِ زبان کے بالمقابل متحرک ہیں؛چنانچہ ان کے یہاں سوشل میڈیا میں استعمال کیے جانے والے الفاظ پر نظر رکھ کر انھیں قبول یا رد کرنے کے تعلق سے فیصلہ کیے جانے میں تاخیر نہیں ہوتی،عموماً دیکھا جارہاہے کہ جو لفظ سوشل میڈیا میں زیادہ چل پڑتا ہے،اسے ڈکشنری میں بھی شامل کرلیا جاتا ہے اور پھر وہ باقاعدہ فصیح اور لکھی پڑھی جانے والی زبان میں بھی استعمال کیا جانے لگتا ہے،اس رویے پر بعض حلقوں میں تشویش بھی ہے؛چنانچہ لندن اسکول براے رابطہ ¿ عامہ کے ایک بلاگ کے مطابق”آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں ہر سال ہمارے معاشرے میں استعمال ہونے والے بہت سے عامی الفاظ کوبھی شامل کرلیا جاتا ہے ،نتیجتاً کسی لفظ کے صحیح یا غلط ہونے کا کوئی معیار باقی نہیں رہ گیا ہے؛کیوں کہ جو الفاظ کل تک مہمل یا غلط سمجھے جاتے تھے،وہی اب صحیح اور موضوع قرار دیے جارہے ہیں، عامی الفاظ اور تعبیرات مسلسل اس ڈکشنری میں شامل کی جارہی ہیں۔2013ء میں tweet,follow, follower, جیسے الفاظ سوشل میڈیا میں بہ کثرت مستعمل ہونے کی وجہ سے اسم اور فعل دونوں حیثیتوں سے شامل کیے گئے“۔) (London School of Public Relations Blog, September 18, 2013 by Nina Jasilek in Social Media
اسی طرح کچھ دن پہلے تک الیکٹرانک ذریعہ ¿ ترسیل کے لیے انگریزی میںE-mailاس طرح لکھا جاتا ہے(یعنیEبڑے حرف میں ،اس کے بعد ڈیش،پھرmail)لیکن پھرemailلکھا جانے لگا اور اب بطور فعلemailedاورemailingبھی بہ کثرت استعمال ہوتے ہیں،tweetedکا لفظ بھی تقریباً عام ہوچکا ہے،بس facebookedکا مارکیٹ میں آنا باقی ہے۔ان کے علاوہ سوشل میڈیا پر انگریزی میں MP, OMG ,LOL ,TC ,WC ,TTYL جیسے جوبے شمار مخففات استعمال کیے جاتے ہیں،انھیں وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں،جو انگریزی زبان میں مہارت رکھنے کے ساتھ سوشل میڈیا کی اس نئی زبان میں بھی درک رکھتے ہوں۔
چوں کہ سوشل میڈیا میں انگریزی زبان کا استعمال زیادہ ہے؛اس لیے اس طرح کی حرکتیں اس زبان میں زیادہ رونما ہورہی ہیں،دوسری زبانوں کو بھی استعمال کی کمیت و کیفیت کے اعتبار سے ایسی مشکلوں کا سامنا ہے۔اردو زبان بھی چوں کہ سوشل میڈیا میں خوب استعمال ہورہی ہے،چاہے رومن رسم الخط میں استعمال ہورہی ہو یا عربی و نستعلیق رسم الخط میں؛اس لیے اس زبان میں بھی سوشل میڈیا سے متعلق تلفظ اور املا کے کئی مسائل سامنے آرہے ہیں ۔ہماری نسل جو سوشل میڈیا کے استعمال کی عادی ہے،وہ زبان کی صحت وغیرہ پر زیادہ دھیان نہیں دیتی،وہ جلدازجلد اور تیز تر وسیلہ اختیار کرکے اپنے روابط و تعلقات کا دائرہ بڑھانا چاہتی ہے،اردو کے ساتھ موقع بے موقع انگلش الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں اوراس طرح سوشل میڈیا میں ایک نئی زبان میں وجود میں آچکی ہے،جسے Urdish کہا جاتا ہے، یہ زبان ایس ایم ایس اور ٹوئٹس میں زیادہ استعمال ہوتی ہے؛کیوں کہ یہاں اظہارِ خیال کے لیے سپیس کم ہوتا ہے، چیٹنگ میں بھی یہی زبان استعمال ہونے لگی ہے، کئی الفاظ کو تو اتنا زیادہ مختصرکرکے لکھا جاتا ہے کہ عام لوگوں کے لیے انھیں سمجھنا نہایت ہی مشکل ہے، ہندوستان کی سطح پر چوںکہ سوشل میڈیا میں عربی یا نستعلیق رسم الخط میں اردو کا استعمال ابھی بہت عام نہیں ہواہے،بہت سے اہلِ زبان بھی رومن رسم الخط میں اردو لکھتے ہیں؛ چنانچہ سوشل میڈیا پربات چیت کرتے ہوئے السلام علیکم کی جگہ ASK اوراس کے جواب میں وعلیکم السلام کی جگہ Wslm عام طوراستعمال ہوتا ہے، بہت سے لوگ مکمل فارمیٹ میں سلام کرنا چاہتے ہیں تو وہ دوچار w کا بھی اضافہ کردیتے ہیں، جس کا مطلب ہے ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ایک لفظ اور سوشل میڈیا کی باہمی گفتگو میں بکثرت استعمال ہونے لگا ہے اور وہ ہے”ہممم“یعنی ”ہ“ اوراس کے بعد دوتین یا حسبِ موقع وسہولت پانچ دس” میم“،یہ دراصل انگریزی سے درآمد کیا گیا ہے،انگریزی زبان میں سوشل میڈیا پر باہمی گفتگو میں hmm کسی بات، خیال یا رائے کی تائید کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، سوشل میڈیا کی اردو دنیا نے بھی اسی معنی میں اس کو اپنا لیا ہے، شروع شروع میں یہ لفظ عموماً دو ایسے لوگ ہی باہمی گفتگو میں استعمال کرتے تھے،جن کے آپس میں گہرے برقی تعلقات ہوتے تھے، مگر بہ تدریج یہ لفظ سوشل میڈیا کی عام بول چال میں بھی استعمال ہونے لگا ہے ۔مختلف قسم کے انسانی جذبات کے اظہار کے لیے الگ الگ الفاظ وضع کیے گئے ہیں،جنھیں حسبِ موقع عام بول چال یا تحریر وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے،مگرسوشل میڈیا میں ان لفظوں کو برتنے کا بھی ایک الگ سٹائل ہے،خوشی یاغم کی کمیت و کیفیت کے اعتبار سے لفظ کے حروف بھی کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں۔مثال کے طورپر21ستمبرکو مشہور بالی ووڈ ہیروئن دیپکاپاڈوکون نے اپنی آنے والی فلم ”رانی پدماوتی“کا پہلاپوسٹر شیئرکیا،جس پر مختلف مشہور فلمی شخصیات نے فوری طورپر اپنے اپنے ردِعمل اور خوشیوں کا اظہار کیا،مگر ڈائریکٹر فرح خان کی خوشی اتنی زیادہ تھی کہ انھوں نے انگریزی کے لفظ Stunnig کے آخر میں آٹھ G کا اضافہ کردیا۔ یہ صورتِ حال اردو زبان کو بھی درپیش ہے؛چنانچہ ایسے مواقع پرسوشل میڈیا میں لفظِ ”زبردست“ میں چار پانچ یا اس سے بھی زیادہ ”ت“ کا اضافہ ایک عام بات ہے۔اردو میں جسمانی یا ذہنی تکلیف کے اظہار کے لیے ایک لفظ استعمال ہوتا ہے”اُف“،بنیادی طورپر یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اسمِ فعل ہے، اس لفظ سے فعل بھی استعمال ہوتا ہے أَفَّ یَؤُفُّ یا أَفَّفَ یُؤَفِّفُ، جس کے معنی ہیں اظہارِ تکلیف کرنا یا اف کہنا۔ فرہنگِ آصفیہ(ج:۱،ص:۱۸۱)میں اسے حرفِ صوت قرار دیاگیا ہے اورمعنی لکھاہے: آہ، اوہ، افسوس، کسی زہریلے جانور کے کاٹ لینے یا دفعتاً تکلیف کی آواز۔ مزید تشریح اس لفظ کی یہ کی گئی ہے کہ ”چوں کہ آتشِ دل کے بجھانے کے واسطے منہ سے یہ آواز نکلتی ہے؛ اس لیے یہ لفظ کبھی آہِ سرد، کبھی اظہارِ درد اور کبھی افسوس کے موقع پر بولتے ہیں“۔سوشل میڈیا میں بھی یہ لفظ ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے،البتہ درد کی گہرائی و شدت کی کمی بیشی کے اعتبار سے حروف کم یا زیادہ ہوسکتے ہیں؛چنانچہ اگر دودوست سوشل میڈیاپر بات چیت کررہے ہیں اور ایک نے دوسرے کوکسی بڑے حادثے کے بارے میں بتایا، تو دوسرا دوست اظہارِ افسوس کے لیے جو لفظ ”اف“ استعمال کرے گا، اس میں پانچ دس یا اس سے کم یا زیادہ ”ف“ ہوسکتے ہیں، انگریزی رسم الخط میں U کے بعد کئیF کے ذریعے اس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ادبی فورمز ،فیس بک یا واٹس ایپ کے ادبی گروپ پرجب کوئی عمدہ غزل یا نثر پارہ نشرکیا جاتا ہے، تو اس پر داد و تحسین کے لیے استعمال ہونے والے عام الفاظ کی بھی شکل و صورت بگاڑ دی جاتی ہے،مثلاً اگر لفظِ” کمال “ لکھاجاتا ہے تو چار پانچ میم یا الف کے اضافے کے ساتھ۔ اس طرح کے خطابی، تعریفی یا مختلف قسم کے جذبات کے اظہار کے لیے بولے جانے والے الفاظ کے استعمال میں دوچارحروف کا اضافہ ایک عام بات ہے۔ الغرض سوشل میڈیا میں لفظوں کے درمیان حروف کے اضافے کا چلن تقریباً عام ہے اور یہ مسئلہ اردو کے ساتھ انگریزی و عربی اوربڑی حد تک ہندی زبان کو بھی درپیش ہے، ظاہرہے کہ الفاظ کو اس طرح برتنا خلافِ قاعدہ و اصول ہے۔ بعض ایسی غلطیاں بھی سوشل میڈیا میں بکثرت نظر آتی ہیں،جو عموماً بے احتیاطی کی وجہ سے سرزد ہوتی رہتی ہیں، مثلاً: ”ر“ اور ”ڑ“ میں فرق نہ کرنا، اسی طرح چیٹنگ کے دوران ”ہ“ اور ”ھ“ میں فرق نہ کرنا اور ”نہیں“ سے ”نون غنہ“ کو غائب کردینا، یہ وہ غلطیاں ہیں جو سوشل میڈیا کے ساتھ خاص ہیں، ان کے علاوہ عام بول چال میں تلفظ میں جو غلطیاں کی جاتی ہیں، جن کی طرف متعدد مقالات میں اشارے کیے گئے ، وہ سوشل میڈیا میں بھی آڈیو، ویڈیو میں عام طور پر سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔
چیلنجز کا مقابلہ کیسے کریں؟
صورت ِ حال کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا میں اس قسم کی غلطیاں عموماًزبان سے ناواقفیت کی بناپر نہیں ہورہی ہیں؛ کیوں کہ سوشل میڈیا کے فورم پر اردو زبان کا استعمال تو زیادہ تر وہی لوگ کرسکتے یا کررہے ہیں،جو اس زبان سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں،جو لوگ اردو نہیں جانتے یا کم جانتے ہیں،ان کے لیے سوشل میڈیا میں اردو کا استعمال آسان بھی نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود ایسی بے تکی غلطیاں کیسے سرزد ہوجاتی ہیں؟اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں زیادہ تر بے احتیاطی کا دخل ہے،سوشل میڈیا پرمکالمے کے دوران دونوں طرف کے لوگو ںکی کوشش یہ ہوتی ہے کہ بات مختصر سے مختصر ہو، اختصار پسندی کے اس زور کی وجہ سے بعض ایسے الفاظ کا بھی مخفف بنالیا جاتا ہے،جو نہ تو حقیقی دنیا کی عام بول چال میں استعمال ہوتا ہے اورنہ تحریر و تقریر میں، ایک طرف اختصار پسندی کا حال تو یہ ہے،جبکہ دوسری طرف بعض الفاظ میں خواہ مخواہ کئی کئی حروف کا اضافہ کردیا جاتا ہے اور اس طرح سوشل میڈیا پر ایک نئی زبان اور الفاظ کا ایک نیاذخیرہ سامنے آتا جارہاہے ،جوصرف وہیں استعمال کیا جاتاہے۔
حالاں کہ سوشل میڈیا میں اردو زبان یااردو الفاظ کے استعمال میں جو غلطیاں رائج ہیں،ان سے محفوظ رہنا کوئی مشکل نہیں ہے،بس ذرا سنجیدگی اور احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ابتدائی اقدام کرتے ہوئے مئی2015ءمیں پاکستان کی کراچی یونیورسٹی کے اشتراک سے سوشل میڈیامیں سرگرم نوجوانوں کے ادارہ”اردوسروس“کے زیر اہتمام پہلی”اردو سوشل میڈیا کانفرنس“کا انعقاد کیا گیا تھا،جس میں سوشل میڈیا پر لکھنے سے لے کر بات چیت کرنے تک کے تمام مسائل و موضوعات پر گفتگو کی گئی ،اسی طرح سوشل میڈیا میں اردو الفاظ کو درپیش مسائل بھی زیر بحث آئے۔اس کانفرنس میں بھی اردوتلفظ کے حوالے سے رائج غلطیوں کی وجہ بے احتیاطی ہی کو قرار دیا گیا اور سوشل میڈیا کے اردو یوزرس کواس طرف توجہ دلائی گئی تھی۔
سوشل میڈیا میں اردو زبان کے استعمال کے وقت چاہے وہ چیٹنگ میں ہو یا بلاگنگ اور پوسٹنگ، زبان و بیان کے اصول کو اسی طرح ذہن میں رکھنا چاہیے،جس طرح ہم حقیقی دنیا میں باہمی گفتگو کے دوران یا کچھ لکھتے وقت اس کا خیال رکھتے ہیں،اس پر توجہ دینا اس لیے ضروری ہے کہ اگر ان غلطیوں کو ناقابلِ اعتنا سمجھتے ہوئے یو ں ہی چلنے دیا جائے،تو دھیرے دھیرے باقاعدہ ایک ایسی زبان وجود میں آجائے گی،جسے ”اُردِش“سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ ریختہ ڈاٹ او آر جی (rekhta.org) نے اردو سیکھنے کے مختصر مدتی کورس کے علاوہ ”آموزش“کے زیر عنوان آن لائن اردو تعلیم کابھی عمدہ کورس شروع کیاہے، جس میں اردو حروف و الفاظ کو لکھنے سے لے کر بولنے اور ان کی مختلف اعرابی شکلوں کو بھی وضاحت کے ساتھ سمجھایاجاتا ہے،جو لوگ اردوزبان سے ناواقف ہیں اور سیکھنا چاہتے ہیں،ان کے لیے تو یہ کارآمد ہے ہی،مگر جو لوگ اردو جانتے ہوئے بھی اردو الفاظ کے تلفظ میں غلطیاں کربیٹھتے ہیں، انھیں بھی ”آموزش“ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان ہندوستان میں اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرم ایک موقر ادارہ ہے،اس کے تحت بھی آن لائن اردو لرننگ پروگرام چلایا جارہا ہے ،ضرورت ہے کہ اس میں سوشل میڈیا پر اردو زبان کو صحیح طور سے برتنے کے اصول و ضوابط سے بھی آگاہ کیا جائے۔
(مضمون نگار آزاد کالم نگار اور دارالعلوم دیوبند کے نوجوان فاضل ہیں )





