غزل مجھ کو عذاب جاں نے سنبھلنے نہیں دیا توبہ کا در کھلا تھا نکلنے نہیں دیا

غزل

مجھ کو عذاب جاں نے سنبھلنے نہیں دیا
توبہ کا در کھلا تھا نکلنے نہیں دیا

اشکوں کے لالے پڑگئے مجھ کو تمام شب
خود کو جو ایک شام پگھلنے نہیں دیا

ہنستے ہوئے لبوں نے تو چاہا تھا چومنا
کمبخت اجنبی نے مچلنے نہیں دیا

بیٹھا رہا میں بزم تمنا میں مستقل
جوش طلب نے مجھ کو ٹہلنے نہیں دیا

بزدل کو کیا خبر ہے کہ اک شخص نے ہنوز
خوف فراعنہ سے دہلنے نہیں دیا

برسا تو وقت میرا سلوں کی طرح مگر
ماں کی دعا نے مجھ کو کچلنے نہیں دیا

احمؔد تمہارے آنسو نے وہ کردیا کمال
دشمن کے ایک گھر کو بھی جلنے نہیں دیا

احمؔدصدیقی
بیوروچیف: ملت ٹائمز و طالب علم اسلامیہ بی ایڈ کالج، پھلواری شریف، پٹنہ