انظر حسین قاسمی
یوں تو انسان کے لئے وقت بڑی قیمتی چیز ہے، عقلمند انسان اس کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرکے اس کو یاد گار بناتا ہے؛ لیکن انسان کی زندگی کے کچھ لمحات ایسے ہوتے جن کولاکھ کوشش کے باوجود نہیں بھولا جاسکتا ، اس طرح کے حسین لمحات یا غم و اندوہ کی گھڑیاں کم وبیش تقریبا ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں، اسی طرح کے کچھ لمحات بندہ کو گزشتہ ماہ نومبر میں میسر ہوئے جو شاید زندگی کے بکھرے اوراق میں ہمیشہ یاد رہے، لیکن بندہ کے لیے یہ لمحے خوشی ومسرت اور غم واندہ دونوں کے ملے جلے کیفیات کی حیثیت سے یاد رہیں گے.
خوشی تو اس وجہ سے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے چاند جیسی ایک بیٹی سے نوازا جسے دیکھتے ہی یوں محسوس ہوا کہ اللہ نے میرے دامن میں دنیا کی ساری نعمتیں ڈال دی ہو، جس کو ایک نظر دیکھ لوں تو دن بھر کی تمام الجھن اور تکان دور ہوجائے سچ ہے دنیا کی ساری خوشیاں ایک طرف اور اللہ تعالٰی کی عطا کردہ اس نعمت کی خوشی ایک طرف.
لیکن جب بھی میں اس وقت کو یاد کر کے خوش ہوتا ہوں تو ایک شخص کی شکل میرے سامنے آموجود ہوتی ہے اور مجھے اپنے معاشرےکی تعلیمی ترقی اور فکری ارتقاء کے دعوے کو آئینہ دکھا دے جاتی ہے، ہوا یوں کہ میں 18نومبر بھاگلپور کے رحمان نرسنگ ہوم میں تھا، رات کے تقریبا 2 بج رہے ہوں گے میں باہری برآمدے میں ٹھنڈک محسوس کررہا تھا، اس لیے وہاں سے نکل کر اندرونی ہال چلا گیا، جو چاروں طرف سے تقریبا بند تھا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کمبل سے اپنے پورے جسم کو ڈھکا ہوا ہے اور پنکھا بھی چلا رکھا ہے، جبکہ وہاں موجود دیگر لوگ ٹھنڈی سے پریشان معلوم ہورے تھے، اسی بیچ میری نظر گارڈ پر پڑی میں نے گارڈ سے کہا کہ یہاں لوگ ٹھنڈی سے کانپ رہے ہیں پھر بھی پنکھا چلایا جا رہا ہے، گارڈ میری بات پر متوجہ ہوا اور پنکھا بند کر دیا، اسی اثنا ایک نقاب پوش دوشیزہ روم میں داخل ہوئی جو خاصا پریشان دکھ رہی تھی اور کھرانٹے میں مستغرق اسی شخص کی طرف متوجہ ہو کر ایک پرچی اس کی طرف بڑھا دی جس پرغالبا ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں اس کی مریضہ کے لیے تجویز کی تھی، میں نے دیکھا کہ اس شخص نے کمبل ہی سے ہاتھ بڑھا کر کچھ روپے دوشیزہ کی طرف بڑھا دی، دوشیزہ پیسے لیکرمیڈیکل اسٹور چلی گئی،پھر کیا دیکھتا ہوں کہ دوشیزہ میڈیکل اسٹور سے واپس آتی ہے اور چیختے ہوئے اس شخص کو اٹھاتی ہے کہ میڈیکل اسٹور بند ہے اور ڈاکٹر یہ دوائی جلد از جلد طلب کررہی ہے خدا را! آپ جلد سے جلد بیدار ہو کر کوئی انتظام کیجئے! ہماری مریضہ کی حالت ڈاکٹر کے مطابق تشویشناک ہے؛ لیکن اس شخص پر دوشیزہ کی فریاد کا کچھ اثر نہیں ہوا، اس ہال میں موجود لوگ یہ منظر دیکھ کر انگشت بدنداں ہوگئے کہ آخر یہ کتنا بےحس انسان ہے اور اگر یہ اتنا ہی بے حس ہے تو پھر اس کو ہسپتال آنے کی کیا ضرورت تھی؟ جب میں نے دیکھا کہ دوشیزہ کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے تو خود میڈیکل اسٹور کی طرف نکل پڑا ، میں نے بھی میڈیکل اسٹور کو بند ہی پایا، پھر میں گارڈ روم کی طرف بھاگتا ہوا گیا اور گارڈ سے کہا:آپ براہ کرم میڈیکل اسٹور کے ملازم سے اسٹور کھولنے کہیں! ایک مریضہ سخت پریشانی میں ہے، کچھ دیر بعد اسٹور کھلا اور دوشیزہ دوائی لیکر اپنے مریضہ کی طرف تیزی سے نکل پڑی، لیکن اس کے بعد بار بار یہ سوال ذہن میں گردش کرتا رہاکہ کیا واقعی وہ شخص اتنی گہری نیند میں تھا کہ اس کے متعلق ایک دوشیزہ اس سے بار بار فریاد طلب کر رہی تھی پھر بھی اس کی آنکھ نہیں کھلی، یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ تھی؟ بالآخر میں اس مریضہ کے متعلق ایک شخص سے دریافت کر ہی بیٹھا کہ فلاں مریضہ کاکیا حال ہے؟ لیکن مجھے جو جواب ملا اس کو سن کر مجھے ایسا لگا جیسے میرے بدن میں کرنٹ لگ گیا ہو، میں اسی جگہ کچھ دیر کے لیے کھڑا کا کھڑا رہ گیا اورمیری نگاہ کے سامنے اپنے معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر گردش کرنے لگی.
مجھے بتایا گیا کہ رات جو شخص کھرانٹے کی مزا لے رہا تھا وہ مریضہ کا شوہر تھا، دراصل یہ اپنی مریضہ کا چیک اپ کرانے آیا تھا، لیکن اس نے معلوم نہیں کس طرح یہ معلوم کرا لیا کہ اس کی بیوی کی رحم میں بیٹی ہے، پھر اس نے قبل از وقت ہی اس کا آپریشن کرادیا تاکہ بچی مادر رحم ہی میں ختم ہو جائے!
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اس کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا وہ سو فیصد عین واقعہ کے مطابق تھا، لیکن اگر واقعی ایسا ہی ہوا جس طرح کہ مجھے بتایا گیا( جیسا کہ سیاق و سباق سے بھی معلوم ہوتا ہے) تو پھر ہمارامسلم معاشرہ کس درجہ دینی وأخلاقی پستی میں جا گرا ہے اور مسلمانوں کا اعتماد اپنے پروردگار سے کتنااٹھ چکا ہے، کیا ہم غیروں کی تہذیب سے اتنا متاثر ہو گئے ہیں اور اپنے تعلیمات سے اس قدردور ہو چکے ہیں کہ ہم اپنی بیٹیوں کو مادر رحم ہی میں مار ڈالتے ہیں اور ان کی زندہ شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے، اس جرم سےپہلے ہمارا دل نہیں کانپتا، اللہ تعالٰی کی وعید(کہ جب زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ کس جرم میں تجھے قتل کیا گیا) ہمارے ہاتھ شل نہیں کر جاتی اور آقاءمدنی صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارت(کہ جو شخص ان بیٹیوں کے ذریعہ آزما یاجائے پھر ان کے ساتھ وہ حسن سلوک کا معاملہ کرے کل قیامت کے دن وہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ ثابت ہونگی) ہمیں اس بات پر متوجہ نہیں کر تی کہ بیٹیوں کو اللہ کی نعمت سمجھ کر انکی پرورش کریں اور اپنے لئے ذخیرہ آخرت بنائیں!
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم جس طر ح اپنی تحریر وتقرير میں سماج کے دیگر خرابیو کو اجاگر کرتے ہیں اس حساس موضوع پر بھی گفتگو کریں! ہوسکتا ہے کہ ہماری کوشش سے سماج میں تبدیلی آئے اور بیٹی کو زحمت کے بجائے رحمت اور کانٹے کی جگہ پھول تصور کیا جائے!
میں نے کانٹوں کو بھی سینے سے لگایا ہے ندیم
لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں





