سلیم صدیقی
جب سے یہ خبر ملی ہے کہ: “مملکت توحید” سعودی عرب میں نہ صرف یہ کہ “حلال سینما گھر” کھولنے کی دوبارہ اجازت مل گئی ہے، بلکہ 90 دن بعد: ―مارچ 2018― سے باضابطہ اس کا آغاز بھی ہوجائے گا اور 2030 تک پورے سعودیہ میں 300 سینما ہالز و 500 اسکرینز قائم کی جائیں گی”
تب سے ہی افقِ ذہن پر کئی طرح کے شبہات سوالات بن کر ابھر رہے ہیں کہ: “شرعی سینما گھروں” میں شرعی فلمیں دکھائی جائیں گی کہ غیر شرعی یا پھر دونوں؟
اگر شرعی فلم دکھائی جائیں گی، تو شرعی فلمیں اور انکی ساخت کیسی ہوں گی؟: کیا بے حیائی و بے شرمی اور بیلی ڈانس وغیرہ سب شرعی ہوں گے، کیا بوس و کنار ، گانے و بجانے اور میوزک ، سب شرعی ہوں گے ؟
اداکاروں کی اداکاری اور رقاصاؤں کے رقص و سروداور دیگر فلمی مناظر؛ آیا یہ بھی اسلامی حدود میں( پردے وغیرہ…..) میں ہوں گے ؟
یا پھر اس دل لگی وعشرت پسندی کی رسم میں خدایان مغرب کے ہی اصول وقواعد اور طور طریقوں کا ہی لحاظ رکھا جائے گا؟ یا پھر کچھ اور………. ؟
جب کہ فلموں کے ” لہو و لعب” ہونے میں سب متفق ہیں؛ کیوں کہ اس کے” لہو و لعب” نہ ہونے کے سلسلے میں کسی بھی متدین اسلامی اسکالر کا کسی بھی طرح کا کوئی کلام ہے اور نا ہی کوئی دلیل ـ اور لہو و لعب کے بارے میں قرآن مجید بہت سختی سے بیان کرتے ہوئے، اس میں مبتلا ہونے والے کو “عذاب مہین” کی دھمکی دیتا ہے،
“سورہ لقمان آیت 6” کی تفسیر میں صاحب روح المعانی نے یہ الفاظ لکھے ہیں: “علی ماروی عن الحسن (لہو الحدیث) کل ماشغل عن عبادۃ اللہ وذکرہ من السمر والضاحیک والخرافات والغناء ونحوہا” یعنی: لہو الحدیث میں ہر وہ شئی داخل ہے جو اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر سے غافل کردے جیسے: (فضول) قصہ گوئی ،(بے جا) ہنسی مذاق و خرافاتی باتیں اور گانا بجانا وغیرہ…….. ۔
نیز علامہ حصفکی کا قول ہے: ” استماع الملاہی کضرب قصب ونحوہ حرام لقولہ علیه استماع الملاہی علیها فسق والتلذذ بھا کفر”.
ایک پریشان کن سوال یہ بھی ہے کہ: حلال سینما گھروں میں چلائی جانے والی حلال فلموں کو دیکھیں گے کون حضرات؟: محرم یا نامحرم ؟
جب کہ اس کا عین امکان ہی نہیں بلکہ نا قابل تردید سچ ہیکہ اسکو دیکھنے والے مرد و عورت بھی ہونگے، محرم و غیر محرم بھی ،
اور جوان و بچے بھی ہونگے ـ
تو بھلا بتائیے ” قل اللمؤمنین یغضو من أبصارھم” و قل اللمؤمنات یغضضن من أبصارھن” پر عمل کیسے ممکن ہے؟
کیا لوگ دو شیزاؤں کا بیلی ڈانس دیکھتے ہوئے نظریں نیچی کرلیں گے، حسیناؤں کی دل لبھاتی اداؤں کو دیکھ کر، مصلی بچھا کر صلوۃ التوبہ پڑھنے لگینگے یا پھر اللہ کے ذکر میں مشغول ہوجائینگے، کیا لوگ گانے، بجانے، موسیقی اور رقص و سرود کو دیکھتے سنتے وقت کلمہ طیبہ پڑھ کر ایمان کو جلا بخشیں گے؟ نہیں نہیں، ہر گز نہیں!
کیوں کہ اللہ کے نبی ―صلی اللہ علیہ وسلم― نے کھلے لفظوں میں یہ اعلان فرما دیا کہ:” استماع الملاہی معصیۃ، الجلوس علیہا فسق والتلذذ بہا کفر” کہ گانا بجانا گناہ ہے ،اس جگہ بیٹھنا فسق ہے اور اس سے لذت حاصل کرنا کفر ہے ـ
اسی طرح کی ایک اور حدیث ہے جس کو صاحب مشکواۃ نے “باب بیان الشعر” کے تحت بیان کیا ہے کہ:
نبی اکرم صلی علیہ وسلم کا فرمان ہے: گانے بجانے سے دل میں نفاق ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جیسا کہ پانی سے کھیتی نکلتی ہے ۔
ان تمام روایات و بیانات و تجربات و مشاہدات اور پیش آنے والے حادثات و واقعات کی روشنی میں یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ “فلم” ان تمام چیزوں کا مجموعہ ہے؛ جو مکروہ و ناجائز اور حرام ہوتی ہیں ۔
مثلا: فلموں میں گانا بجانا ہوتا ہے؛ جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں بیان فرما یا ہے کہ گانے سے نفاق ایسا ہی پیدا ہوتا ہے جیسا کہ پانی سے کھیتی۔
فلمی مناظر، بے حیائی و بے شرمی پر مبنی ہوتے ہیں، نامحرم مرد و زن کو دیکھا و سنا جاتا ہے، جب کہ قرآن کریم کا حکم پردے کے بارے میں بالکل صاف ہے کہ: مومن مرد و عورت اپنی نگاہ نیچی رکھیں، نامحرم کو قصدا ہرگز نہ دیکھیں!
نیز بے جا پیسے خرچ ہوتے ہیں؛ جسکے مرتکب کو قرآن کریم نے شیطان کا بھائی بتایا ہے، بے جا وقت بھی ضائع ہوتے ہیں؛ جو کہ اللہ کی پکڑ کا سبب بنتے ہیں ۔
تو پھر فلمیں شرعی کیسے ہوسکتی ہیں؟ شرعی فلم کا مطلب ہے جس کو دیکھ کر ثواب حاصل کیا جاسکے: کیا ایسی فلمیں ثواب کا ذریعہ ہوسکتی ہیں؛ جن میں، شیطانی وسوسوں میں ڈال دینے والے مناظر ہوں، مرد و زن کا اختلاط اور اجنبی مرد و عورت ایک دوسرے سے بوس و کنار ہوں ؟
کچھ دیر کے لیے دماغ کو یہ جواب ملا کہ شرعی فلمیں وہ ہوں گی جن میں دوشیزائیں نقاب حسن الٹ کر دین کی باتیں بتائیں گی ، نرم و نازک اداکارائیں اپنی اداکاریوں کے ذریعے اسلام پر روشنی ڈالیں گی ، نبیوں اور فرشتوں پر فلمیں فلمائی جائیں گی؛ جسے دیکھ کر لوگ پکا مسلمانی سیکھیں گے؛ مگر یہ جواب بھی درد سر بن کر دم توڑ دیا اور اعتراضات نے پھر سے تسلی و تشفی بخش جواب کی جستجو کیلیے ابھارنا شروع کر دیا؛ جس میں اب تک ناکامی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نا آیا؛ جس سے ذہن بھی پریشان اور قلب بھی بے چین ۔
عین ممکن ہے کہ ان سوالوں کا صحیح جواب وقت ہی دے پائے گا ۔
مگر سوال تو سوال ہے: اگر جواب مل جائے تو ہم ایسے سہل و عجلت پسندوں کے لیے بڑی آسانی ہوجائے گی کہ نفس بھی خوش ہوجائے گا اور روح بھی ۔
ویسے تو آل سعود کی اکثریت ہوس پرست ، دین بیزار ، امریکہ کی وفادار اور عیسائی حسیناؤں کے حسن کی گرفتار ہے ؛ اسی لئے وہ موقع بہ موقع سے ایسے ایسے شوشے چھوڑتی رہتی ہے ، جس سے اسلام کی روح پژمردہ ہوتی و اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑتا ہو اور دینی روح ختم ہوتی ہو ۔
امریکہ جیسے اسلام دشمن ملکوں سے اس کی وفاداری اور قطر جیسے اسلامی ملکوں سے غداری، فلسطین کے تئیں بے فکری ، شام کے بے قصوروں پر ہونے والے مظالم پر مجرمانہ خاموشی اور سیسی جیسے ہٹلر کا تعاون کرنے کی کمینگی آمیز پالیسی: یہ سعودی حکومت کے وہ رخ ہیں؛ جس کو وقت، موقع بہ موقع لوگوں کو دکھاتا ہے تاکہ قوم مسلم ان عیاروں سے ہوشیار رہے ۔
وزیر ثقافت نے یہ کہہ کر بہت سے الحاد پرستوں، دین بیزار سر غنوں ، علماء پر سب وشتم کرنے والوں کو بہترین جواب سجھایا دیا ہے کہ کچھ قدامت پسند علماء کو اس سے پریشانی ہوسکتی ہے مگر اس کی ہمیں پرواہ نہیں ہے۔
ویسے تو عموماً حالات آل سعود کے چہروں پر سے عیاری، مکاری ، بزدلی اور ابن الوقتی کا خول اتارتے رہے ہیں؛ مگر چونکہ آل سعود کے پاس ایسی طاقت ہے کہ بولنے والے کی زبان اور سچ سے پردہ ہٹانے والے کے قلم کو ہمیشہ کے لیے روک دیا جاتا ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ امام حرم اور مفتی اعظم سعودی عرب جیسی شخصیات بھی ٹرمپ جیسے دہشت گرد کو اتحاد کا پیغام بر اور امریکہ جیسے فسادی ملک کوامن کا گہوارہ بتاتے ہیں ، یہ ان کی مجبوری بھی ہوسکتی ہے اور شاید بے ضمیری بھی ، جو ان کو جرات اظہار حق اور تفریق حق و باطل سے محروم کی ہوئی ہے ۔
ایسے میں اگر “شرعی سینما گھروں” کے جواز پر سعودی مفتیان کا فتوی بھی آجائے تو بلا سوچے سمجھے اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
کیوں کہ پوری دنیا کے علمائے کرام کے نزدیک فلم فی نفسہ حرام ہے، بے پردگی و بے حیائی و بے شرمی اور عورت و مرد کا اختلاط حرام ہے ۔
جب سے محمد بن سلمان ولی عہد بنائے گئے ہیں تب سے عجیب عجیب بجانے دیکھنے کو مل رہے ہیں ، کبھی خواتین کو پائلٹ بننے اور ڈرائیونگ کرنے کی کھلی چھوٹ مل رہی ہے، تو کبھی ماڈریٹ اسلام {معتدل اسلام} کا فتنہ برپا کیا جارہا ہے تو کبھی عورتوں کو اسٹیڈیم میں جانے کی رخصت مل رہی ہے اور اب تو حد ہی ہو گئی شرعی سینما اور شرعی فلم کا کھیل بھی شروع ہوگیا ہے ۔
ویسے ان کے والد سلمان بن عبد العزیز بھی کم یہودیت پسند نہیں ہیں، ان کی بھی عیش کوشی ، مغرب پرستی ، بددینی اور غیر اسلامی افکار و نظریات لوگوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سعودی عرب میں ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ جب شہزادہ ولید بن طلال نے اپنی کمپنی کی مدد سے 2006 میں کیف الحال (تم کیسے ہو) نامی فلم بنائی، تو سعودی عرب میں اسے ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔
آج سے پینتیس سال پہلے بھی سعودیہ میں چند فلم ہالز تھے مگر فلم دیکھنے کی اجازت صرف مردوں کے لیے خاص تھی مگر اب خواتین و حضرات سب دیکھ سکیں گے اور شرعی امور انجام دیں گے!!!.
” فلم گھر ” کھولے جانے کی خبر کم تکلیف دہ ہے ، مگر اس کو شریعت کا لبادہ اوڑھانے کی خبر زیادہ تکلیف دہ ہے۔ فلم ہالز پہلے بھی تھے اگر اب کھل رہے ہیں تو کوئی نئی بات نہیں ہے مگر ان کو” شرعی سینما گھر” کہنا ایسا ہی بے جا لگتا ہے جیسا کہ ماڈریٹ اسلام کا شوشہ ۔
البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ شرعی فلمیں بنانے کا یہ سرکاری فیصلہ ماڈریٹ مسلمانوں کے لیے ہو ، جب ماڈریٹ اسلام کے پرستاروں کے لیے الگ بستیاں بسائی جائیں گی تو ان کے لیے “شرعی سینما گھروں ” کا ہونا ضروری ہے ، اگر ایسا ہے تو پھر کوئی بات ہی نہیں ہے:
“بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست”۔
تاہم صورت اور نیت جو کچھ بھی ہو’ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے،اورساتھ ہی جواب طلب بھی ؛ کیونکہ “جواب چاہیے مجھے جواب ڈھونڈتا ہوں میں” ۔





