امریکہ و اسرائیل آگ سے کھیل رہے ہیں، اور ہم … ؟

 ڈاکٹر یامین انصاری
جب سے ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ میں مسند صدارت سنبھالی ہے، اسی وقت سے اسرائیل کے ناپاک عزائم اور شیطانی منصوبوں کو جیسے پر لگ گئے ہیں۔اسرائیل اور امریکہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ کر رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ انھوں نے یروشلم کے تعلق سے جو متنازع فیصلہ کیا ہے، وہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عرب ملکوں اور مسلم حکمرانوں کی اتنی حیثیت نہیں کہ ا ن سے آنکھ بھی ملا سکیں۔ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ وہ یروشلم پر مکمل کنٹرول بھی کر لیں گے، پھر بھی مسلم حکمرانوں کی جانب سے مذمتی بیان بازی اور میٹنگوں سے آگے کچھ نہیں ہونے والا۔ لیکن ہاں اگر ، ان کے غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلوں سے عالم اسلام کے عوام میں جو بے چینی اور غم و غصہ پیدا ہوگا، اس سے ضرور کچھ مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے مسلم عوام کے غیظ و غضب کا شکار امریکہ اور اسرائیل بھی ہو جائیں اور وہ مسلم حکمراں بھی، جو بظاہر قبلہ اول کی بازیابی اور اس کے تحفظ کے لئے گھڑیالی آنسو بہاتے نظر آ تے ہیں۔ اگر مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات پر یقین کریں تو المیہ یہ ہے کہ انہی گھڑیالی آنسو بہانے والے مسلم حکمرانوں کی ایما پرمریکہ نے ایک جھٹکے میں وہ فیصلہ کردیا، جس کی ہمت گزشتہ ۰۷ برسوں سے کوئی امریکی صدر نہیں کر سکا تھا۔
یروشلم کو صہیونی اور ناجائز ریاست اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کر کے یقیناً ٹرمپ نے عالمی امن کو تباہ کرنے والا جن بوتل سے باہر نکال دیا ہے۔در اصل ٹرمپ نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف وہ اپنے صدارتی انتخاب میں کئے گئے وعدے کو پورا کرکے دکھانا چاہتے ہیں تو دوسری جانب صہیونیوں کے دل جیت کر امریکہ میں اپنی کم ہوتی مقبولیت کو روکناچاہتے ہیں۔ صہیونیوں کو بخوبی علم تھا کہ اگر اسرائیل اور خاص طور پر یروشلم کے حوالے سے کچھ اقدامات کرنے ہیں تو ایک سنکی اور دیوانہ صفت انسان کو تیار کیا جائے۔ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لئے ٹرمپ کی صورت میں انھوں نے ایک شخص کو ڈھونڈ نکالا۔کیوں کہ گزشتہ ۰۷ برسوں کے دوران صہیونی لابی کے دباو¿ میں یہ خواہش تو کئی امریکی صدور کی تھی کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کی دار الحکومت تسلیم کرےں اور اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیں۔حالیہ سابق امریکی صدور بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما نے بھی عمل در آمد کرنا چاہا،لیکن وہ اتنی ہمت نہیں کر سکے ۔ کیوں کہ یہ بد بختانہ فیصلہ تو ٹرمپ کے حصے میں آنا تھا۔ ٹرمپ نے یوں تو اپنے ناپاک عزائم کا اظہار اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی کر دیا تھا۔ کھلی مسلم دشمنی پر مبنی انتخابی مہم میں انھوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دار الخلافہ بنانے کا وعدہ کیا۔ امریکہ میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا اشارہ دیا۔ دیگر ملکوں سے آنے والے مسلمانوں پر قدغن لگانے کا اعلان کیا۔ خاص طور پر کچھ ملکوں کو نشانے پر لیا گیا اور ان کے شہریوں پر سفری پابندیاں لگا دی گئیں۔ غرض یہ کہ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران جو وعدے کئے تھے، وہ محض انتخابی وعدے ہی ثابت نہیں ہوئے، بلکہ ٹرمپ نے ان وعدوں پر عمل در آمد کر کے اپنی مسلم دشمنی پر مہر لگائی۔
در اصل گریٹر اسرائیل کا قیام دنیا بھر کے یہودیوں کا دیرینہ خواب ہے۔ ۷۹۸۱ءمیں گریٹر اسرائیل کا نقشہ تیار ہوا تھا۔ اس نقشہ میں ایک سانپ ان تمام علاقوں کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں پہلے برطانیہ اور اب امریکہ اسرائیل کا اصل مددگار ثابت ہوا۔ اگرگریٹر اسرائیل کے منصوبے کو شیطانی منصوبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔شیطانی منصوبہ اس لئے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اس منصوبے کے تحت پہلے اس خطہ میں ایک بڑی اور خوفناک جنگ کرنا چاہتے ہیں۔تجزیہ نگار اسے تیسری عالمی جنگ کا نام بھی دیتے ہیں۔اس کے بعد یہاں پر واقع مسلمانوں کے دو اہم ترین مقدس مقامات مسجد اقصیٰ اور قبة الصخرہ کو منہدم کرنا، پھر معبد کی تعمیر اور اس کے بعد حضرت داﺅد علیہ السلام کی تاج پوشی کے لئے استعمال ہونے والے پتھر (تھرون آف ڈیوڈ) کو نوتعمیر شدہ معبد میں رکھے جانے کا منصوبہ ہے۔ قبة الصخرہ وہ سنہری گنبد والی عمارت ہے، جو اکثر تصاویر میں دیکھی جاتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کا گھر یا مسجد جسے یہودی معبد کہتے ہیں، اس پہاڑی پر تعمیر فرمایا تھا۔ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیﷺ معراج میں جب بیت المقدس سے صدرة المنتہیٰ کے لئے تشریف لے گئے۔ آپ کا براق جس چٹان سے آسمانوں کی جانب روانہ ہوا تھا، عبدالملک بن مروان نے اس چٹان پر ایک گنبد بنوایا، جسے قبة الصخرہ کہتے ہیں۔ اردن کے شاہ حسین مرحوم نے اس گنبد پر سونے کی چادر چڑھائی تھی جس کا وزن تقریباً ۵۳ ٹن بتایا جاتا ہے اور یہودیوں نے یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ یہ سونا ایک دن ہمیں نئے معبد کے لئے کام آئے گا۔ قبة الصخرہ کے ساتھ مسجد عمر تھی، وہاں اب مسجد اقصیٰ ہے۔مسلمانوں کے لئے یہ دونوں مقدس مقامات یروشلم میں ایک پہاڑی پر واقع ہیں۔ اس پہاڑی کو یہودی ’ٹیمپل ماﺅنٹ‘ یا معبد کی پہاڑی کے نام سے پکارتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں کل ڈیڑھ کروڑ یہودی ہیں، جس میں سے صرف ۵۳ لاکھ اسرائیل آ کر آباد ہوئے ہیں۔ ابھی ان کا اصل مقصد دنیا بھر کے تمام یہودیوں کو اسرائیل لاکر آباد کرنا ہے۔
وہیں دوسری جانب پوری دنیا میں مسلمانوں کی کل آبادی ایک ارب ۰۵ کروڑ بتائی جاتی ہے۔ان اعدادوشمار کی روشنی میں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہونے کے باوجود ایک کروڑ پچاس لاکھ یہودی ایک ارب پچاس کروڑ مسلمانوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ کیوں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم تعداد میں اتنے زیادہ ہونے کے باوجود ہر جگہ رسوا ہو رہے ہیں، ہر جگہ پسپا ہو رہے ہیں، ہر سمت ہم پر یلغار ہو رہی ہے،لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر بے سر و سامانی کی حالت میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب بھی کوئی چاہتا ہے، ہمیں ذلیل و خوار کر دیتا ہے، جب چاہتا ہے ہمارے خون کا پیاسا بن جاتا ہے، نہ ہماری عزت و عصمت محفوظ ہے اور نہ ہی ہماری زندگیاں محفوظ ہیں۔ کیوں، آخر کیوں؟ کیا ان سب کے لئے دشمنان اسلام ہی ذمہ دار ہیں؟ کیا اسلام اور مسلمان اتنے کمزور ہیں کہ ان کے خلاف ہونے والی ہر سازش کامیاب ہوتی جا رہی ہے۔ ان سب باتوں کا جواب کون دے گا؟ کیا مسلم حکمرانوں کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان سوالات کے جوابات تلاش کریں، مسلمانوں کوجو مسائل در پیش ہیں انہیں حل کریں، جن مشکلات سے مسلمان دوچار ہیں، کیا انہیں دور کرنے کا کوئی راستہ ان حکمرانوں کے پاس نہیں ہے؟ نہیں،ایسا بالکل نہیں ہے۔ ان حکمرانوں کے پاس مسائل حل کرنے کی قوت بھی ہے، صلاحیت بھی ہے، وسائل بھی ہیں اور افراد بھی ہیں۔ لیکن کمی ہے تو بس اتفاق کی، اتحاد کی، قوت ارادی کی اور آخرت کی فکر کی۔ دنیوی جاہ و منصب کی چاہ میں انھیں نہ اسلام کی فکر ہے، نہ مسلمانوں کی۔ انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اسلامی تشخص اور مذہبی مقامات کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔ گزشتہ پانچ چھ برسوں کے دوران پورے عالم اسلام میں جس طرح کی سیاسی اتھل پتھل اور انارکی کا ماحول ہے، اس سے کیا نتائج نکالیں جائیں؟ ایک ایک کرکے ملک کے ملک کھنڈہر میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے ہی اپنوں کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ عوام خاک و خون میں نہا رہے ہیں۔ کیا ان سب حالات کے لئے ہم غیروں کی سازش کہہ کر اپنا پلہ جھاڑ سکتے ہیں؟ کیاہماری عقلوں پر پرتھر پڑ گئے ہیں کہ ہم اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو پہچان نہیں سکتے اور انہیں ناکام نہیں کر سکتے۔آخر ہم اس قدر بے عمل کیوں ہو گئے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدتوں کے مراکز سازشوں کے اڈوں میں تبدیل ہو گئے۔ کیا اس روئے زمین پر بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمان ڈیڑھ کروڑ یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے خدائی مدد اور ابابیلوں کے انتظار میں ہیں۔
(کالم نگار معروف صحافی اور روزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹر ہیں )