حکمرانوں کی کارستانیوں سے غیر محفوظ ہوتی دنیا

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

دنیا جتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اسی قدر غیر محفوظ ہوتی جارہی ہے ، سائنسی ترقیات نے دنیا کو ایسے ایسے ہتھیار دے دیے ہیں کہ حکمرانوں کا مزاج بگڑا اور دنیا منٹوں میں تباہ کرنے کے منصوبے زیر غور آگئے، ماضی میں ہیرو شیما اور نا گا ساکی کاحشر ہم دیکھ چکے ہیں، یہ دونوں شہر تباہ و برباد بلکہ خاکستر ہو گئے اور اس کے اثرات جو انسانی اجسام اور ذہن و دماغ پر پڑے ہیں، اس سے جاپان اپنی تمام تر ترقیات کے با وجود آج بھی باہر نہیں نکل سکا ہے، بھوپال گیس المیہ اگر ذہن میں محفوظ ہو تو وہاں کی تباہی و بربادی بھی خون کے آنسو رلاتی ہے، ہزاروں لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ، حالات یہ تھے کہ لوگ مرتے مرتے بھاگ رہے تھے اور بھاگتے بھاگتے مر رہے تھے، یہ کوئی سوچی سمجھی سازش نہیں تھی، لیکن مہلک گیس نے موت کی نیند سلانے میں تاخیر نہیں کی، اسی طرح ہندوستان میں ہونے والے فسادات نے کتنوں کی دنیا اجاڑ دی، ۲۰۰۲؁ءمیں گجرات کا فساد ، آسام کے کوکرا جھار کا فساد اور ۳۱۰۲؁ء میں مظفر نگر فساد کو ہم بھول نہیں پائے ہیں، جس میں ہزاروں لوگوں کو مار ڈالا گیا، لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے، کبھی قدرتی آفات بھی ہمیں غیر محفوظ بنا دیتے ہیں، سیلاب اور زلزلے خواہ وہ کشمیر کے ہوں یا بہار و اڈیشہ کے، ایسے موقع پر انسان کتنا مجبور نظر آتا ہے، سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہ آفات بھی ہم نے اپنے ہاتھوں لانے کا کام کیا ہے، قدرت کی جانب سے توازن کا جو انتظام کیا گیا تھا ، اسے ہم نے تہہ و بالا کر دیا ، درخت کٹ رہے ہیں، جنگل صاف ہو رہے ہیں، پہاڑ توڑ کر مکان اور سڑکوں کی تعمیر ہو رہی ہے، ہم ترقی یافتہ ہو رہے ہیں، اور زندگی ہلاکت و بربادی کی شاہ راہ پر تیزی سے رواں دواں ہے۔
ہندوستان سے باہر نکل کر دیکھیں تو برما میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جس طرح کیا جا رہا ہے، اسے نسل کشی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے، چار لاکھ افراد سے زائد پناہ گزیں کیمپوں میں پڑے ہیں اور کس مپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں، عراق کا دوسرا بڑا شہر موصل داعش اور عراقی افواج کی طاقت آزمائی سے کھنڈ ر بناہوا ہے ، موصل میں آٹھ قصبے تھے، چھ کا نام ونشان مٹ چکا ہے، نوے فی صد خاندان ایسے ہیں، جنہیں اپنے خاندان کے کسی نہ کسی فرد کی جدائی اور موت کا غم ستارہا ہے، بیس لاکھ آبادی والا یہ شہر اس قدر ویران ہوا کہ اب صرف ساڑھے چھ لاکھ لوگ وہاں موجود ہیں، ساڑھے چار لاکھ امدادی کیمپوں میں گذر بسر کر رہے ہیں، نو لاکھ افراد ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے غذا کی کمی کے شکار ہیں، سر پرسائبان نہیں ، پڑھنے کا انتظام نہیں، بنیادی علاج و معالجہ سے محروم ، ان کی زندگی کتنی غیر محفوظ ہے، اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔
یہی حال شام کا ہے ، ایک کروڑ نوے لاکھ کی آبادی کا یہ شہر بشار الاسد اور دوسرے ملکوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے برباد ہوگیا ہے اور نصف سے زیادہ آبادی کی حیثیت پناہ گزینوں کی سی ہو گئی ہے، جو لوگ ملک چھوڑ کر گیے اس میں ۳۰ لاکھ یمن میں ، دس لاکھ لبنان میں، چھ لاکھ ساٹھ ہزارترکی میں ۲ لاکھ بیالیس ہزار ، عراق میں اور ایک لاکھ بائیس ہزار مصر کے کیمپوں میں کس مپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔
صومالیہ کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے، یہ بھی انسانی آبادی کے لیے غیر محفوظ ہوگیا ہے یہاں کے بہت سارے لوگ یمن کے پناہ گزیں کیمپوں میں پڑے ہیں، جب کہ یمن کو ایران نواز حوثی باغیوں نے تباہ کر رکھا ہے، ان کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ انہوں نے سعودی عرب کی کئی مساجد کونشانہ بنا لیا، یہ احوال و واقعات بتاتے ہیں کہ دنیا کتنی غیر محفوظ ہو گئی ہے ، کچھ کہا نہیں جا سکتا کب ، کیسے حالات پیش آئیں اور کس کو اپنا وطن چھوڑنا پڑے اور کون افواج اور ممالک کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو کر جان ومال عزت وآبرو سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان حالات میں انسانی حقوق کی تنظیم کو آگے آکر کچھ کرنا چاہیے، لیکن وہ صرف مہلوکین کے اعداد و شمار اور مظلومین کے انڈکس بنانے میں لگی ہے، عرب لیگ میں آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہے، ساری حکومتوں کو اپنی بقا کی فکر ہے، اور عرب بہاریہ کے واقعات نے اسے اندر سے ڈرا رکھا ہے، انفرادی طور پر بیش تر عرب ممالک مغربی ممالک کے چشم و ابرو پر رقص کر رہے ہیں، قدرت نے سیال سونا پٹرول کی شکل میں انہیں دیا تھا ، لیکن یہ نعمت بھی دوسروں ہی کے کام آ رہی ہے، باری باری ملکوں کو بر باد کرنے کی مہم چل رہی ہے، عراق ، یمن ، شام ، افغانستان کی دفاعی قوت و طاقت کو ختم کیا جاچکا ہے، القدس کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دے کر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین میں نئی جنگ کا آغاز کر دیا ہے، دوسرے ملکوں کا نمبر بھی آنے ہی والا ہے۔ کون، کب اور کس طرح آپ پر حملہ آور ہو جائے گا، کہنا مشکل ہے ، لیکن حرص و ہوس کے پتلے کو کوئی سا بھی بینر پکڑا کر انسانوں کا قتل عام شروع ہو جاتا ہے، مصر جس کے ہوائی اڈہ کے باب دخول پر بہت موٹے لفظوں میں ”ادخلو مصر ان شاءاللّٰہ آمنین“( مصر میں داخل ہو جاؤ ان شاءاللہ محفوظ رہو گے ) کی عبارت لکھی ہوئی ہے ، وہ بھی غیر محفوظ ہوگیا ہے ، اور جمعہ کے دن مسجدوں میں بم پھٹ رہے ہیں اور گولیاں چل رہی ہیں ، اپنے اپنوں کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں ، پس آئینہ اور پس دیوار کون ہے ، یہ دنیا جانتی ہے ۔
ان حالات میں ضرورت ہے کہ اپنی دفاعی قوت کو مضبوط کیا جا ئے اور اس پر پوری توجہ دی جائے، اے پی جے عبد الکلام نے کہا تھا کہ امن پسند رہنا ضعف کے ساتھ مجبوری ہے اور قوت کے ساتھ امن پسند ہونا ایک شریفانہ عمل ہے، اسی لیے انہوں نے ملک کو میزائل ٹکنالوجی دیا ، نیو کلیائی ہتھیار سے ملک کو خود کفیل بنایا ، آج گاندھی کا یہ دیش ایٹم بم بھی رکھتا ہے اور عدم تشدد کی پالیسی پر کار بند رہنے کا دم بھی بھرتا ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ غذائی اجناس میں گھر میں وصال کے وقت صرف ڈیڑھ سیر جو تھا ، لیکن تلوار آٹھ عدد ، ڈھال آٹھ عدد اور تیر کمان چھ عدد موجود تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امن کے ساتھ جینا چاہیے، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اس پر شاہد ہے، لیکن دفاعی قوت ایسی ہونی چاہیے کہ کوئی آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے، اور وقت آنے پرہم مجبور محض بن کر رہ نہ جائیں، قرآن کریم میں” وأَعِدُّوا لَھُم مااستَطَعتُم“ کہہ کر اسی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ آج پوری دنیا میں جو فساد و بگاڑ ہے، اس کے لیے اسلام کے امن و شانتی کے پیغام کو عام کرنے اور دفاعی قوت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی بصیرت اور مؤمنانہ فراست کے ساتھ دعوت کے کام کو آگے بڑھانے اور اپنے کیرکٹر و کردار کو قرآن و احادیث کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے، اور ان سب کے ساتھ خدا کی نصرت و مدد کا طلب گار بھی ہوناچاہیے ، خدا کی نصرت و مدد ضرور آتی ہے، آئے گی ، لیکن آزمائشوں کے بعد آتی ہے، یہ آزمائشیں کبھی سخت و سست سننے کی حد تک ہوتی ہے اور کبھی خوف ودہشت ، بھوک ، جان و مال اور کھیتوں کو تباہ و برباد کرنے کی حد تک ، ان آزمائشوں میں جو کھرا اترا اور اللہ کی طرف لو لگا ئے رکھا ، اس کی مدد اس طرح ہوتی ہے، جس کا وہم و گمان نہیں ہوتا ، سیرت پاک میں غزوات کے واقعات کو پڑھیے اور اس سے نتائج اخذ کیجئے تو آپ بھی ان گذارشات کی تائید پر خود کو مجبور پائیں گے۔

(مضمون نگار معروف مصنف، نامور عالم دین اور امارت شرعیہ پٹنہ کے نائب ناظم ہیں )