پیاری ماں! تیری عظمت کو سلام۔ہر دن ہے خاص تیرے نام

شمس تبریز قاسمی
(ملت ٹائمز)
Muslim Motherماں وہ عظمت اور نعمت ہے جس کا دنیا میں کوئی متبادل نہیں ہے ۔ماں اولاد کے لئے گلاب کی خوشبو ، پیاس میں ساگر ،قدم قدم کی رہبر ۔ کامیابی کا زینہ اور نیک خواہشات کا سرچشمہ ہے۔ جن کے سر سے مایہ کا سایہ اٹھ گیا ان کا سب کچھ اجڑگیا ۔دنیا تاریک اور سونی ہوگئی ۔ ویرانی اور بربادی کی کیفیت حاوی ہوگئی ۔جس گھر میں والدین ہوں ، وہ گھر رحمت خداوندی کا آستانہ ہوتا ہے ماں باپ کی دعاؤں سے بلائیں ٹلتی ہیں۔جس شخص کو خدا اور ماں کے ساتھ ان دونوں کا رابطہ مل جاتا ہے اس کی زندگی کا ہر لمحہ کامیابی وکامرانی سے ہم کنار ہوتا ہے ۔ دنیا اس کی قدم چومتی ہے اس کی اخروی زندگی کو اچھائی کی پیشن گوئی مل جاتی ہے ۔
حضرت موسی علیہ السلام کا انتقال ہوا ۔ حضرت موسی علیہ السلام خدائے پاک سے ہم کلام ہونے کے لئے کوہ طور پر تشریف لے گئے تو اللہ رب العزت نے فرمایا موسی ذرا سنبھل کے آنا اب وہ ہستی دنیا میں نہیں رہی جو تمہارے یہاں آنے پر سجدے میں ہم سے دعا گو رہتی تھی ’’ اے سارے جہانوں کے مالک میرے بیٹے سے کوئی چوک ہوجائے تو اسے معاف کردینا ‘‘۔
ماں کے عالمی دن کو منانے کا مقصد عوام الناس کو ماں کے رشتے کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینا ماں کی محبت اجاگر کرنا اور اس عظیم ہستی کے لیے عقیدت، شکرگزاری کے جذبات کو فروغ دیناہے ۔یوم مادر منانے کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے ۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر یوم مادر قرار دیا۔ دنیا کے تمام ممالک مئی کے دوسرے ہفتے میں آنے والے اتوار کو ماؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ چند ممالک میں ماں کا عالمی دن مئی کے دوسرے اتوار کی بجائے کسی اور دن منایا جاتا ہے ،مثلاََناروے میں فروری کے دوسرے اتوارجارجیا 3مارچ،افغانستان اور کئی ممالک میں 8 مارچ کو۔
یوم مادر منانے کا یہ رواج اب صرف مغربی ممالک میں محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ مسلم ملکوں میں بھی یہ کلچر بہت ہی عام ہورہا ہے ۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان نے تو اس تہذیب کو فروغ دینے کی ذمہ داری اپنے ہی سرلے لی ہے ۔ ان کے یہاں آج کے دن بڑے بڑے کانفرنس اور جلسے منعقد کیئے جاتے ہیں جس میں ماؤں کی عظمت کا ترانہ گایا جاتا ہے ۔ان سے محبت و عقیدت کا اظہا کیا جاتا ہے ۔ ان کے مسائل ختم کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں ۔میری معلومات کے مطابق ہندوسان کے مسلم معاشرے میں یوم مادر منانے کا یہ سلسلہ الحمداللہ نہیں ہے ۔ اکثریت تو ان ماؤں کی ہے جنہیں یوم مادر کی ہی خبر نہیں ہے ۔ تاہم کلی طور پر ہم انکار نہیں کرسکتے ہیں کیوں یہاں بھی ایسے مسلمانوں کی ایک وافر مقدار موجود ہے جن کے لئے مشعل راہ اسلامی تہذیب اور قرآن وحدیت کی تعلیمات کے بجائے مغرب افکا روخیالات ہیں ۔ وہ اپنی زندگی کے شعبہ میں مغربی طرز کو ہی اپنانے ہیں اس لئے آج وہ بھی اپنی ماں کو آئی لو یو کہ کر اور پھولوں کا گلدستہ پیش کرکے پورے سال کے لئے چھٹی لے لیں گے ۔
ماں کی عظمت و محبت کا قائل سب سے زیادہ اسلام ہے ۔ قرآن کریم نے ماں کی خدمت اور ان کے احترام کو صراحت کے ساتھ اجاگر کیا ہے ۔پوری دنیا ئے انسانیت کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے’’ ولا تقل لہما اف و لا تنھر ہما و قل لہما قولا کریما‘‘کہ والدین کو اف تک مت کہو۔یعنی کوئی بھی اسی بات مت کہو جو ان کے لئے باعث ناگوار ہو۔ انہیں جھڑکومت ۔ ان کے ساتھ پیارو محبت کے سے بات کرو۔حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار تمہاری ماں ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر بیان کرتی ہیں کہ میری ماں مشرکہ تھیں۔ وہ میرے پاس آتیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر دریافت کیا۔ اجازت ہو تو ان سے سلوک کروں۔ آپ نے فرمایا ضرور اپنی ماں کے ساتھ سلوک کرو۔حکم تو یہ بھی ہے کہ اگر ماں حیات نہ ہو تو خالہ سے حسن سلوک کرو۔ خالہ بھی حیات نہ ہو تو ماں کی عزیز ترین سہیلی سے ماں والا حسن سلو ک کیا کرو اور اگر اسکی سہیلی بھی موجود نہ ہو تو جب کبھی تمہیں ماں کی ہمشکل کوئی عورت نظر آ جائے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ درجہ وہی ماں والا ملے گا۔
لیکن افسوس کہ قرآن کریم کے اس واضح ارشاد اور احادیت پاک کے ایک وسیع ذخیرہ کے باوجود مسلم معاشرہ نے ماں سے اظہار محبت کرنے کے لئے مغرب سے ایک دن مستعار لے لیا ہے۔ ان ہی کا طرز اور طریقہ بھی اپنا لیا ۔مسلم دنیا اس دن کانفرنس منعقد کرکے ماں کی عظمت پر بحث و مباحثہ کرتی ہے ۔صحافیوں او رقلم کاروں کو بھی ماں کی عظمت پر لکھنے کا خیال اسی دن آتا ہے۔ اخبارات کو خصوصی گوشہ شائع کرنے کے لئے اسی دن کا انتظار رہتا ہے ۔ پورے سال اس موضو ع پر انہیں بھی لکھنے اور شائع کرنے کا خیال نہیں آتا ہے ۔ یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ ایک آدمی کی زندگی کے شب وروز کا ہر ہر لمحہ ماں کے ساتھ خاص ہونا چاہئے ۔ ان کی خدمت اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہئے ۔ ان کی رضامند ی کے حصول کی فکر کرنی چاہئے ۔ آج کاوہ مسلم معاشرہ جو یوم مادر منارہا ہے اور ماں کے فضائل بیان کرنے میں رطب اللسان ہے۔ یہ ماں کی خدمت نہیں ہے ماں کی محبت نہیں ہے ۔ ماں کی محبت اور خدمت کا تعلق عملی زندگی سے ہے جب تک پریکٹیکل طور پر ماں کی خدمت نہیں کی جائے گی ان کی زندگی کے مطلوبہ اسباب انہیں فراہم نہیں کئے جائیں گے۔ان کے قدموں میں سر نہیں جھکائیں گے ۔ ان کے چہروں سے غم کے آنسوخشک نہیں کئے جائیں گے اس وقت تک ماں سے محبت کا دعوی فضول ہے ۔ یہ سارا عمل کا رعبث اور لغو ہے ۔ کچھ دانشوارن بڑے ہی فخر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ خدابھلاکرے اس کا جس نے اس دن کی شروعات کی ہے کیوں اسی بہانے ماں کو یاد کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ ورنہ مصروفیت ایسی ہوتی ہے کہ ماں کا کبھی خیال ہی نہیں آتا ہے ۔
ماں ہماری کائنات ہے ۔ ان کے آنچل میں ہمیں سب سے زیادہ سکون ملتا ہے ۔ ان کی وجود ہماری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ان کا سایہ ہماری زندگی سب سے انمول اثاثہ ہے ۔ہم صرف مئی کے دوسرے اتوار کو نہیں بلکہ ہر اس دن یوم مادر مناتے ہیں جس دن سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں جاکر طلوع ہوتا ہے ۔ ہماری ماں کو بھی اسی کا علم ہے کہ میری اولاد کا رابطہ زندگی کے ہرپل میرے ساتھ ہے ۔ ہر دن اور ہر وقت ماں کے لئے خاص ہے ۔ مئی کے دوسر ے اتوار اور یوم مادر کی اصطلاح کا ہمارے یہاں کوئی تصور نہیں ۔
خدائے عزوجل کی بارگاہ میں یہ دعاء ہے کہ میری ماں کا سایہ تادیر مجھ پر برقرار رہے ۔ ان کی شفقت و عنایت کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے۔ ان کی خدمت کی توفیق ہمیں سداملتی رہی ۔یہی میری زندگی کی تمنا ہے مجھے اپنے حصے میں میری ماں مل جائے یہی میرینہ دیرینہ خواہش ہے ۔آپ قارئین کی خدمت میں ہم دست بستہ یہ عرض گزار ہیں کہ آپ اپنی دعاؤں میں میری ماں کو یاد رکھیں ۔ ان کی صحت یابی کے لئے دعاء فرمائیں ۔ خدائے پاک والدین کی شفقت و عنایت کا سلسلہ تادیر مجھ پر قائم فرمائے ۔ ہمیں ان کی خدمت کی توفیق عطا فرمائیں ۔ جانے انجانے میں میرا کوئی بھی عمل ان کے لئے باعث تکلیف نہ بنے ۔ وہ ہمیشہ مجھ سے خوش رہیں ۔ میرے لئے میری ماں کا رابطہ میرے خدا سے ہمیشہ برقرار رہے ۔(آمین ثم آمین)
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہو دعابھی ساتھ چلتی ہے
(مضمون نگار معروف کالم نویس اور ملت ٹائمزکے چیف ایڈیٹر ہیں )

SHARE