ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند

مولانا ندیم الواجدی
بلاشبہ یہ صرف اس امت کی خصوصیت ہے کہ نبی آخر الزماں رسالت مآب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی اللہ کی آخری آسمانی کتاب قرآن کریم چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح وہ نازل ہوئی تھی اور قیامت تک اس میں کسی تحریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے، قرآن کریم شریعت اسلامیہ کا پہلا مصدر اور منبع ہے جس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا نظام بنا دیا ہے کہ دشمنان اسلام اگر چاہیں بھی تو اس نظام میں دراندازی نہیں کرسکتے، شریعت اسلامیہ کا دوسرا مصدر اقوال رسول اور افعال رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس مصدر شریعت کو حدیث کہا جاتا ہے سب سے پہلے صحابۂ کرامؓ نے اپنے جذبۂ عشق ومحبت سے سرشار ہوکر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال خدمت انجام دی اور وہ اس طرح کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہر ہر لفظ کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں نہ صرف آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ارشادات کو حرز جاں بنایا بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل اور ہر فعل کو اپنی آنکھوں میں بسایا، پھر ان تمام اقوال وافعال کو دوسروں تک پہنچایا، اس طرح حفاظت حدیث کا ایک مضبوط نظام وجود میں آیا، بعد میں آنے والوں نے پورے ذخیرۂ حدیث کو سامنے رکھ کر اس کی مختلف پہلوؤں سے خدمت انجام دی، امت تا قیام قیامت ان علماء و محدثین کے بارِ احسان سے سبک دوش نہیں ہوسکتی، جمع و ترتیب اور تدوین کا وہ کونسا پہلو ہے جو ان محدثین کی نظروں سے اوجھل رہا، ان حضرات نے اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل مجموعے تیار کئے ، آج ہزاروں جلدوں پر پھیلی ہوئی حدیث کی یہ کتابیں اسلامی لائبریری کا قابل فخر سرمایہ ہیں اور امت ان سے برابر استفادہ کررہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی، گذشتہ چودہ صدیوں پر محیط طویل عرصے میں صرف اسی ایک فن کی کتابوں کا جائزہ لیں تو ہم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے کہ ہر آنے والے نے حدیث سے استفادے کی راہ آسان کرنے کی خاطر کچھ نیا اور کچھ الگ کرنے کی کوشش کی ہے، خدا کا شکر ہے کہ یہ امت ابھی بانجھ نہیں ہوئی آج بھی ایسے اہل علم موجود ہیں جو قرآن وحدیث کی خدمت کو اپنا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے ذریعے علومِ قرآن اور علومِ حدیث کی جو خدمت انجام دی جارہی ہے دوسرے مذاہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
پڑوسی ملک سے خبر آئی ہے کہ وہاں کے ایک دینی ادارے میں پندرہ سال سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ الگ ہی انداز میں کام ہورہا ہے، پندرہ سال کی شبانہ روز محنت کے بعد جو منفرد کام ہوا ہے اس کی کچھ تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں دل چاہا کہ آج کے کالم میں اس کو موضوعِ گفتگو بنایا جائے۔
سلطنت علم کے بے تاج بادشاہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کے نام نامی اسم گرامی سے کون واقف نہیں ہے، بلاشبہ وہ عالمی علمی شخصیات میں سرفہرست ہیں، دنیا بھر میں ان کی شہرتوں کا سفر جاری ہے، انہوں نے درس وتدریس، تصنیف و تالیف اور وعظ و تقریر کے ذریعے دین کی مختلف النوع خدمات انجام دی ہیں اور آج بھی وہ مختلف جہتوں میں خدمت انجام دینے کے لئے تازہ دم نظر آتے ہیں، ان کی زندگی کا انتہائی روشن اور تابناک پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی ہیں، کثرت اسفار اور تدریسی مشاغل کے باوجود جو تصنیفی و تالیفی کام وہ کررہے ہیں اسے دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور رشک بھی آتا ہے، ان کی غیر معمولی علمی خدمات کو ہم امت محمدی کے اعجاز اور حضرت مولانا کی کرامت ہی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
مولانا محمد تقی عثمانی کی علمی صلاحیتوں کا تازہ شاہ کار ’’المدونۃ الجامعۃ للأحادیث المرویۃ عن النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ ہے۔ یہ شاہ کار مجموعۂ احادیث تقریبا چالیس جلدوں پر مشتمل ہوگا، ابھی اس کی پہلی جلد منظر عام پر آئی ہے، مولانا محمد تقی عثمانی نے اس کام کی کچھ تفصیلات اپنے ماہ نامہ ’’البلاغ‘‘ کے ذریعے ہم تک پہنچائی ہیں، جن کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کتنا بڑا کام ہورہا ہے، اور کس قدر خاموشی کے ساتھ ہورہا ہے، جو کام حکومتوں کی سرپرستی میں بڑی بڑی اکیڈمیوں کے ذریعے انجام دیا جانا تھا وہ ایک دینی مدرسے کے معمولی شعبے میں چند افراد مل کر کررہے ہیں، بلاشبہ یہ بھی حدیث نبوی کا اعجاز ہی کہلائے گا کہ آج بھی اہل علم حدیث کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں اور اسے عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔
مولانا محمد تقی عثمانی نے اپنے اس تعارفی مضمون میں لکھا ہے کہ آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے ان کے ایک دوست نے جو اپنا نام بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے یہ تجویز پیش کی کسی طرح تمام احادیث پر ایسے نمبر پڑ جائیں جو عالمی سطح پر مسلّم ہوں، اس وقت اگر کسی حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے تو جس کتاب میں وہ حدیث موجود ہے یا تو اس کے صفحہ نمبر کا حوالہ دیا جاتا ہے یا اس کتاب اور باب کا ذکر کردیا جاتا ہے جس میں وہ حدیث بیان کی گئی ہے، بعض کتابوں میں احادیث پر نمبر بھی ڈال دئے گئے ہیں، کبھی حوالے کے لئے وہ نمبر لکھ دئے جاتے ہیں، بسا اوقات وہ حوالہ حدیث نکالنے کے لئے کافی نہیں ہوتا، پھر احادیث کی تخریج کے وقت بہت سی کتابوں کا ذکر کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود کچھ کتابیں چھوٹ جاتی ہیں، ان صاحب کی تجویز یہ تھی کہ بلاتشبیہ جس طرح قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دینے کے لئے سورت نمبر اور آیت نمبر کا حوالہ دے دینا کافی ہوتا ہے اور یہ نمبر نسخوں کے اختلاف سے بدلتا نہیں ہے اسی طرح کسی حدیث کا حوالہ دینے کے لئے صرف حدیث کا نمبر ذکر کردینے سے اس حدیث کی تمام تفصیلات یکجا دستیاب ہوجائیں تو یہ بڑا کام ہوگا، اس تجویز پر غور کرنے کے لئے ۵/ اور ۷/ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ کو مکہ مکرمہ میں ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کے علاوہ ان کے برادر اکبر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، ڈاکٹر مصطفی اعظمی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ڈاکٹر عبد الملک بن بکر القاضی، شیخ محمد الطحّان، ڈاکٹر عبد الستار ابوغدہ اور شیخ نظام یعقوبی جیسے اہل علم اور ارباب فضل وکمال شریک ہوئے اور اس کام کا خاکہ تیار کیا گیا اور منہج طے کیا گیا، ان حضرات نے یہ بھی طے کیا کہ یہ عظیم کام دار العلوم کراچی میں ہو، اور مولانا محمد تقی عثمانی اس کام کی نگرانی کریں، اس طرح دار العلوم کراچی میں ’’قسم موسوعۃ الحدیث‘‘ کے نام سے ایک مستقل شعبے کا قیام عمل میں آیا، دار العلوم کراچی کے چند فضلاء کی خدمات حاصل کی گئیں اور مولانا نعیم اشرف کو اس شعبے کا ناظم مقرر کیا گیا۔
کام کا یہ طریقۂ کار طے کیا گیا تھا کہ حدیث کی ان کتابوں سے جو متداول ہیں اور جن کا حوالہ بہ کثرت دیا جاتا ہے تمام احادیث ان کے جملہ طرق سے لے لی جائیں، یہ کُل اسّی کتابیں ہیں، ان کے مؤلفین نے تمام روایتیں اپنی سند سے ذکر کی ہیں اور احادیث کا بیشتر ذخیرہ ان ہی کتابوں میں پایا جاتا ہے، ان اسّی (۸۰)کتابوں کے علاوہ بھی حدیث کی بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن کے مؤلفین اپنی سند سے حدیث بیان کرتے ہیں، اگرچہ ان کا زیادہ حوالہ نہیں دیا جاتا، مگر ان میں بھی حدیث کا بڑا ذخیرہ ملتا ہے، ایسی کتابوں کی تعداد سات سو انیس (۷۱۹) تک پہنچتی ہے، ان کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرکے ان سے وہ احادیث الگ کرلی جائیں جو سابقہ اسّی(۸۰) کتابوں میں موجود نہیں ہیں، مختلف طرق کے متون میں اگر کوئی اہم اختلاف ہو تو اس کو بھی ذکر کردیا جائے اور ان کی اسنادی حیثیت کے متعلق اگر متقدمین کی کوئی رائے کہیں مذکور ہو تو اس کو بھی حدیث کے ساتھ بیان کردیا جائے، اس طرح کل سات سو ننانوے (۷۹۹)کتابیں ہوئیں، جن میں سے اکثر مطبوعہ شکل میں دستیاب ہیں اور کچھ کے مخطوطے ہیں، احادیث کے تتبع اور تلاش کے دوران کچھ ایسی احادیث بھی سامنے آئیں جو ان کتابوں میں نہیں تھیں، مگر حدیث وتفسیر کی شروح میں ان کا ذکر ملتا ہے کام کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے ان کتابوں کو بھی شامل کیا گیا ایسی کتابوں کی تعداد ایک سو گیارہ (۱۱۱) تھی، اس طرح نو سو دس (۹۱۰)کتابوں کو سامنے رکھ کر کام کا آغاز کیا گیا۔
حدیث کی جمع و ترتیب کے دوران یہ سوال بھی سامنے آیا کہ احادیث کا مجموعہ حروف تہجی کی ترتیب سے تیار کیا جائے یا ابواب کی ترتیب پر، کافی غور وخوض کے بعد یہ طے ہوا کہ ابواب کی ترتیب ہی مناسب رہے گی، کیوں کہ احادیث اور خاص طور پر فعلی احادیث کے مختلف طرق کے متن کیوں کہ مختلف ہوتے ہیں، اس لئے حروف تہجی کی ترتیب مفید نہیں ہوگی بل کہ ان کے لئے ابواب کا مروّج طریقہ ہی مفید وموزوں رہے گا، چناں چہ ابواب قائم کئے گئے اور ہر باب کے تحت احادیث جمع کی گئیں، ہر حدیث کے تمام طرق اور مختلف طرق سے مروی تمام متن ایک ہی جگہ ذکر کرنے کا اہتمام کیا گیا، البتہ یہ رعایت کی گئی کہ ابواب قائم کرنے میں کسی فقہی یا کلامی مذہب کی کوئی چھاپ نہ ہو، حدیث کی تخریج میں یہ اصول اپنایا گیا اور پوری کتاب میں اسی اصول کا تتبع کیا گیا کہ جو حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ مضبوط اور قابل اعتماد ہو اس کو ’’حدیث مختار‘‘ قرار دے کر پہلے ذکر کیا جائے، اسی طرح وہ حدیث اگر کسی طریق میں سب سے زیادہ جامع سیاق میں آئی ہو اس کو الطریق الاجمع کے عنوان سے سند کے ساتھ نقل کیا جائے، پھر جس صحابی سے وہ حدیث مروی ہے اس کی روایات کے تمام طرق جس حدیث کی کتاب میں بھی آئے ہوں ان سب کو ذکر کیا جائے، اگر ان میں الفاظ کا کوئی اہم اختلاف ہو تو اسے بھی بیان کردیا جائے، اس کے بعد اس ’’حدیث مختار‘‘ کو ایک عالمی نمبر دے دیا جائے، بعض اوقات ایک ہی حدیث ایک سے زیادہ صحابہؓ سے مروی ہوتی ہے، ایسی تمام روایات کو بھی جمع کرنے کا اہتمام کیا جائے اور اُن کو بہ طور شواہد ذکر کرکے ان کو فرعی نمبر دے دئے جائیں، مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے تعارفی مضمون میں کام کی نوعیت پر روشنی بھی ڈالی ہے، اور اس کو ایک مثال سے واضح بھی کیا ہے، جس سے کام کی نوعیت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت اور افادیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔
کتاب کا پہلا باب ایمانیات پر مشتمل ہے اور اس باب میں جو حدیث سب سے پہلے لائی گئی ہے وہ مشہور حدیث: إنما الأعمال بالنیات۔ ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث حضرت عمرؓ سے مروی ہے اور اس کو حدیث کا سب سے صحیح طریق قرار دیا جاتا ہے، چناں چہ اس کو ’’حدیث مختار‘‘ قرار دے کر سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، پھر اس کے جتنے طرق صحیح بخاری اور دوسری کتابوں میں موجود ہیں ان کو اکٹھا کیا گیا ہے، اور اگر کہیں لفظ کا کوئی اختلاف ہے اس کو بھی ذکر کردیا گیا ہے، اس حدیث کو نمبر (۱) دیا گیا ہے، اور اس کے باقی تمام طرق کو بھی نمبر ۱ ہی دیا گیا ہے، البتہ نیچے فرعی نمبر بھی دے دئے گئے ہیں، چناں چہ یہ حدیث امام ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت کی ہے اس کو ۱/۱ نمبر دیا گیا ہے، پھر یہ حدیث طبرانی کی معجم کبیر میں حضرت ابو الدرداءؓ سے منقول ہے اسے ۲/۱ نمبر دیا گیا ہے، ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں یہ روایت حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے، اس کو ۳/۱ نمبر دیا گیا ہے، یہ حدیث بخاری کے علاوہ سات کتابوں میں ہے اور ان سب کو الگ الگ فرعی نمبر دئے گئے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ جو حدیث جتنے دستیاب مصادر میں جہاں کہیں مروی ہے وہ اس مدوّنہ میں صرف نمبر کے حوالے سے اپنے تمام طرق اور تمام مختلف اور مشترک متون کے ساتھ دستیاب ہوجائے گی، اب تک سترہ ہزار دو سو بانوے (۱۷۲۹۲) احادیث پر کام ہوچکا ہے، ان کے سترہ ہزار چار سو تریپن (۱۷۴۵۳) شواہد بھی جمع کئے جاچکے ہیں، ان کے مختلف طرق کی مجموعی تعداد تین لاکھ اڑتیس ہزار آٹھ سو سینتس (۳۳۸۸۳۷)ہے، یہ کام مسلسل جاری ہے، احادیث اور طرق احادیث میں بھی برابر اضافہ ہورہا ہے، فی الحال اس کی پہلی جلد جو کتاب الایمان پر مشتمل ہے اور جس میں چار سو تینتالیس (۴۴۳) ’’حدیث مختار‘‘ اور پانچ سو سات (۵۰۷)شواہد اور نو ہزار دو سو چھیاسی (۹۲۸۶) طرق جمع کئے گئے ہیں چھپ کر تیار ہے یہ جلد بیروت کے اشاعتی ادارے دار القلم نے نہایت اعلا معیار کے ساتھ شائع کی ہے، باقی جلدیں بھی ممکنہ تیز رفتاری کے ساتھ شائع ہونے والی ہیں۔
کام کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اور جس نہج سے یہ کام ہورہا ہے، بہ ظاہر وہ بہت محنت طلب معلوم ہوتا ہے، سینکڑوں کتابوں کے لاکھوں صفحات پڑھ کر حدیث تلاش کرنا، پھر اس کے شواہد جمع کرنا، پھر اس حدیث کے مختلف طریقوں کو ڈھونڈنا، پھر متون کے اختلاف کو دیکھنا، یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے، اس کو دیکھ کر حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے لئے تو بس یہ ہی مصرعہ ذہن میں آتا ہے جس کو ہم نے مضمون کا عنوان بنایا ہے۔ ع
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں