میں کون ہوں !

محمد آصف ا قبال
یہ حقیقت ہے کہ ویدک فکر بڑی گنجلک ہے اس کے باوجود یہی اُس کی خوبی ہے ۔اور چونکہ وہ کہتے ہیں کہ برہمن “خدا”کا پرتوہے،لہذ ا اُسی کو یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ وہ اِس فکر کو نہ صرف سمجھے بلکہ اُس کی تشریح بھی کرے۔ساتھ ہی فکر ی بنیادوں پر قائم ہونے والے”خدائی نظام”کو نافذ کرے۔اس بنیادی نظریہ کے تحت واقعہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں چند اشخاص یا ان کا مخصوص گروہ ہی برترسمجھا گیا ۔اور آبادی کے ایک بڑے حصے کو اِس لائق نہیں ماناگیا کہ وہ “خدائی فکر”کوسمجھ پائیں۔لہذا گنتی میں زیادہ ہونے کے باوجود ،ہرزمانے میں وہ بڑا حصہ فکری بنیادوں پر قائم ہونے والے نظام کے کل پرزوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہا۔گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے جن اقتباسات کو یہاں قلم بند کیا جا رہا ہے وہ “قدیم ہندی فلسفہ”نامی کتاب سے لیے گئے ہیں۔جسے رائے شیو موہن لعل ماتھرنے مرتب کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس سے ہندوستان کے قدیم فلسفیانہ مسائل کو سمجھا جائے ۔اورجو سوال ہم نے گزشتہ ہفتہ اپنی تحریر میں اٹھایا تھا ،یعنی وجود ذات سے واقفیت،اسی کاجواب ویدک فکر میں بھی تلاش کیا جانا ممکن ہو ۔
ہندوستان کا سب سے قدیم ادب وید ہیں۔ان کے متعلق یہ کہنا بہت دشوار ہے کہ ان کے ابتدائی حصے کب وجود میں آئے۔عام طور پریہ بھجن کی شکل میں ہیں جن میں فطری دیوتاؤں کی تعریف کی گئی ہے۔ان میں کوئی بڑا فلسفہ تو نہیں ہے اس کے باوجود ان میں بے حد دل چسپ فلسفیانہ سوالات پائے جاتے ہیں جو کم و بیش کائناتی ہیں۔جن کا اظہار شعرو شاعری اور تخیل سے کیا گیا ہے۔وید کے پہلے دو حصے”برہمن”اور “آرینک”ہیں۔ان میں دو میلان پائے جاتے ہیں۔ایک)رسمی عبادت کی کرشمہ ساز صورتوں کو قائم کرنا۔ اور دوم )صرف ابتدائی عمومی اصولوں کے ذریعہ تصوری طور پر غور و فکر کرنا۔برہمنوں اور آرینکوں کے بعد وید کے آخری حصے نثر میں لکھے ہوئے ہیں جو اُپنشد کے نام سے موسوم ہیں اور ان میں بہت سے فلسفیانہ خیالات پائے جاتے ہیں۔یہ اُپنشد مدلّل بیانات کے مجموعے نہیں ہیں۔لیکن ان میں ایسی صداقتوں کا اظہار ہے جو وجدانی طور پر محسوس کی گئی ہیں۔یہ حصے بلاشبہ حقیقی قوت،توانائی اور ترغیب کا باعث ہیں۔غالباً اس کے بہت سے ابتدائی حصے پانچ سو سے سات سو ق۔م تک کے ہیں۔
ویدک فکر میں دو میلانات پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جو وید کو اپنا ماخذ سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ جو آزاد خیال ہیں۔اِنہیں بالترتیب آستک اور ناستک کہہ سکتے ہیں۔ناستک میلان بعد کے زمانہ کا ہے کیونکہ اس کا آغاز آستک میلان کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوا ہے۔آستک ویدانت کے متعلق یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ قدیم ہندی فکر کا آخری نقطہ عروج ہے اور غالباً یہ ہندوستانی نصب العین کا کامل ترین نمونہ ہے۔ہندوستان کے قدیم باشندے صداقت کی محض دریافت پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ بلکہ یہ کوشش کرتے تھے کہ حق کو اپنے ذاتی تجربے کے ذریعہ عملی جامہ پنہائیں۔اس لیے ان کی رائے میں فقط ذہنی یقین نہیں بلکہ تحقیقِ ذات یا آتم ساکشات کارہی فلسفہ کا منزل مقصود تھا ۔اور جب تک علم ذات کا تشفی بخش جواب حاصل نہ ہوتا وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہتے تھے۔ان کے نزدیک سب سے بڑابنیادی اور انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ “میں کون ہوں”؟ ہستی کے متعلق سوالات حل کرنے کے لیے فلسفہ کے بے شمار نظامات پیدا ہوچکے ہیں لیکن آج تک کوئی فلسفہ جو محض عقل پر مبنی ہو ،ان سوالات کا تشفی بخش جواب نہ دے سکا۔اس قدیم اور عالمگیر ناکامی کا سبب یہ نہیں ہے کہ اس سوال کو حل کرنے والی کوئی روشنی موجود نہیں ہے بلکہ اس سوال سے بڑھ کر ایک اور بنیادی سوال ہے کہ”میں کون ہوں”جس کا پہلے حل ہونا ضروری ہے۔جب وہ حل ہو جائے گا تو کل ہستی عیں شفاف نظر آنے لگے گی۔
آستک فکر کہتی ہے کہ یہ دنیا خود ہستی کی شاہد نہیں ہے۔میں اس کا شاہد ہوں۔میں ہی تو اس کے ہونے کی تصدیق کرتا ہوں۔اس لیے کل کائنات میرے نور ہوش سے چمکتی ہے۔اگر چہ دنیا میں متعدد وجود اور اشخاص بھی میری طرح اس دنیا کی شہادت دیتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں،لیکن ان سب کے ہونے کی شہادت بھی تو میری ہی ہستی ہے۔دنیا کی چمکیلی سے چمکیلی روشنیاں اور کائناتیں میری ہی نظر کی روشنی میں اپنی ہستیوں کا ثبوت رکھ سکتی ہیں۔غرض”میرا ہونا”دنیا کے ہونے کا ثبوت ہے۔اس لیے دنیا کے متعلق”کیا”اور”کیوں” کے سوالات صرف”میں کون ہوں”کے جواب کی روشنی میں ہی حل ہو سکتے ہیں۔آتما کا گیان ہی جگت کے راز کو کھولنے والی کنجی ہے۔مجھ میں مکاں ہے نہ زماں نہ سلسل�ۂ علت و معمول ہے۔میں کسی جگہ نہیں پھر بھی سب مکانوں کا ناظر ہوں ۔میں کسی وقت میں نہیں مگر سب زمانے میرے ساتھ ہی معلوم کی نسبت رکھتے ہیں۔میں نہ کسی کی علت ہوں نہ معلول بلکہ اس کی زنجیروں کو مکاں و زماں میں پھیلا ہوا دیکھتا ہوں۔ “میں”عین وجود (ست)ہوں۔اور عین شعور(چتِ)ہوں۔سب کا شاہد اور سب سے نرالا ہوں۔
روح کے تعلق سے وہ کہتے ہیں،جسے دوسرے الفاظ میں “میں کون ہوں”سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔کہ جب بیداری اور خواب دونوں نہیں رہتے اور بے خبری کی حالت طاری ہوتی ہے تو اس حالت میں بھی”میں”(یعنی روح)برابر موجود رہتا ہوں۔اور اپنے ذاتی نور سے کچھ نہ ہونے کو ثابت کرتا ہوں۔اور بیدار ہونے کے بعد غفلت کی نیند کی شہادت دیتا ہوں۔غرض جو کچھ بھی خیال میں آسکتا ہے یا جس کا بھی زبا ن سے ذکر کیا جاسکتا ہے اس کو ثابت کرنے والا”میں”ہی خالص وجود اور خالص شعور ہوں۔اگر میں اپنے شعور کے نور سے منور نہ ہوتا تو میرے لیے کسی چیز یا حالت کا جاننا یا نہ جاننا کوئی معنی نہ رکھتا۔اسی طرح اگر میری ذات عین سرور نہ ہوتی تو میں کسی شے یا حالت سے آگاہ نہ ہونے کے قابل یا کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا،اور خود زندگی ہی ناممکن ہوجاتی۔اس لیے سرور ہی کل علم،زندگی اور حرکت کی جان ہے۔اشیاء میں کوئی سرور نہیں، سرور تو میری فطرت میں ہے۔اشیا اور حالات میرے سرور کے ظہور کے وسیلے ہیں۔آئینہ میں کوئی چہرہ نہیں ہوتا وہ تو صرف اس لیے پیاراہوتا ہے کہ اپنے چہرے کو منعکس کرتا ہے۔یہی حال آنند کا ہے۔آنند تو اپنا آپ ہے۔ اشیا اور حالا ت اس کو کم و بیش منعکس کرتے ہیں۔جو اشیا،جو کام اور جو حالات میرے اس سرور کو اچھی طرح ظاہر کرتے ہیں طبعاً انہیں کو مرغوب،پسندیدہ اور اچھا خیال کرتا ہوں۔مگر جن میں عکس اچھی طرح نہیں پڑتا ان کومکروہ،ناپسندیدہ اور براسمجھتا ہوں۔خوبی ،نیکی،دھرم وغیرہ سب میرے آنند کے تعلق میں ہی معنی رکھ سکتے ہیں۔
ویدک فکر یہ بھی کہتی ہے کہ وجود اور شعور کے ساتھ ہی سرور بھی ایک بنیادی حقیقت ہے۔آنند ہی کل زندگی کو ممکن بناتا اور نچاتا ہے۔زندگی میں تمام ذہنی اور جسمانی اعمال ،آنند سے ہی ظاہر ہوکر پھر آنند کی طرف لوٹتے ہیں۔سائنس کی کسی تجربہ گاہ میں اس آنند کا راز نہیں کھلتا۔کسی قسم کی چیر پھاڑ اس آنند کو نہیں دکھلاسکتی۔خوردبین اور دور بین کی آنکھیں اس آنند کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔عقل اور فکرکو بھی اس آنند کے اصلی گھر تک رسائی نہیں ہے۔جو فلسفہ آنند کا راز نہیں کھولتا اور اس کے مقام تک نہیں پہنچاتا وہ صرف نامکمل ہی نہیں بلکہ محض ناکارہ ہے۔اس کے مطالعہ کا انجام سردردی اور تکان کے سوااور کچھ نہیں ہوسکتا۔آتم گیان ہی ایک ایسا فلسفہ ہے جو آنند کی منزل میں پہنچاتا ہے۔جہاں سب ہی رشیوں فقیروں اور سنتوں نے شانتی پائی ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ نہ ان کی پیدائش ہے نہ موت،نہ آغاز نہ انجام۔تو جو لوگ آتم گیان کی روشنی میں صداقت تلاش نہیں کرتے،ان میں سے بعض اپنے آپ کو جسم یا جسم کے اندر کوئی ہستی خیال کرتے ہیں۔اور اس طرح اپنے آپ کو کسی مکاں میں دیکھتے ہیں اور آسمان میں آتما کی حرکات کے نقشے تیار کرتے ہیں۔بعض اس کو زمانے اور علت و معلول کی کوئی شے سمجھ کر اس کی پیدائش اور انجام کے مسئلوں میں اپنی عقل کو دوڑاتے ہیں اور زمانے کے اندر آتما کی بقا کو ثابت کرنے کے لیے دلیلوں کی بوچھار کردیتے ہیں۔مگر آتم گیان کا رمز ہی نرالا ہے۔ یہ فلسفہ جس طرح کامل ہے اسی طرح سادہ بھی ہے۔اس کی ہدایت ہے کہ دوسرے مسائل کو حل کرنے سے قبل اپنے آپ کو اچھی طرح سمجھ لو،جس کو اپنی ہی خبر نہیں ہے وہ دوسرے مسائل کو کس طرح سلجھا سکتا ہے؟(ملت ٹائمز)

maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com

SHARE