اظہار ہمدردی میں یہ تفریق کیوں؟

سلمان غنی
برسلز حملوں میں مارے جانے والے بے قصور افراد کے تئیں عالمی سطح پر اظہار ہمدردی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس سے قبل پیرس حملوں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کے لیے بھی جم کر ماتم ہوا تھا۔معصوم اور بے گناہوں کی ہلاکت پر ہم مغموم ہوتے ہیں، روتے ہیں اور ان کے لواحقین کے لیے صبر و ہمت کی دعا کرتے ہیں۔ لیکن کیا دنیا میں مرنے والے ہربے قصورکے لیے ہماری آنکھیں نم ہوتی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مغرب کے بنائے ہوئے’’ بے قصور‘‘ ہونے کے پیمانے کو ہم نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ جی ہاں ایسا ہی ہے۔ کیوں ہماری آنکھیں عراق، شام اور افغانستان جیسے ملکوں میں روزانہ مرنے والے معصومین کے لیے نم نہیں ہوتیں؟ کیوں ہم نے مرنے والوں کے لیے اظہار ہمدردی کا دو معیار بنا رکھا ہے؟کیوں ہم اپنی پروفائیل پکچرز کو عراق ، شام، افغانستان یا پاکستان کے پرچموں سے مزین نہیں کرتے؟ اس لیے کہ ہم وہی دیکھتے ہیں جو ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا کی نظروں میں جو معصوم ہے وہی ہماری نظروں میں معصوم ہو چکا ہے۔ ہمیں عراق اور شام کی گلیوں میں بہنے والے خون کو دیکھنے کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ لیکن جب یہی خونی کھیل کسی یورپی ملک میں کھیلا جاتا ہے اور مرنے والا وہ ’’راویتی معصوم‘‘ نہیں ہوتا تو ہماری انسانیت جاگ اٹھتی ہے۔
26مارچ کے ہندوستان ٹائمز میں’’دی گارجین‘‘ کے حوالے سے معصومین کی ہلاکت پر اپنائے جانے والے اسی دوہرے معیار پرایک ا نتہائی کربناک تحریر شائع کی گئی ہے۔اسے ایلن ہینیسی(Allan Hennessy) نے لکھا ہیجو ایک فری لانس صحافی کی حیثیت سے’’گارجین ‘‘ اور’’ انڈی پنڈنٹ‘‘ میں لکھتے رہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارا دشمن اسلام نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ جو کسی ملک کی سرحد پر ختم نہیں ہوتی۔ اس دہشت گردی کا شکار دنیا کا تقریباً ہر ملک ہو چکا ہے۔ انڈونیشیا میں جماعہ اسلامیہ ،نائیجیریا میں بوکو حرام اور عراق اور شام میں داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں صرف غیر مسلموں کا ہی قتل نہیں کررہیں بلکہ ان کی زد میں مسلمان بھی آتے ہیں۔ لیکن دہشت گردی کا خوفناک چہرہ ہمیں اسی وقت دکھایا جاتا ہے جب اس کی سفاکیت یورپی ساحلوں پر قدم رکھتی ہے۔ ایلن لکھتے ہیں کہ پیرس اور برسلز حملوں کے بعدجس یکجہتی کے ساتھ دہشت گردی کی مذمت کی گئی اور مرنے والوں کے ساتھ جس ہمدردی کا اظہار کیا گیا ویسی یکجہتی اورہمدردی ان دہشت گرد کارروائیوں میں کیوں نہیں ظاہر کی جاتیجن کی زد میں معصوم مسلمان آتے ہیں۔
ایلن بے حد جذباتی انداز میں لکھتے ہیں کہ شاید ایک بے گناہ سفید فام کی موت اس لیے زیادہ المناک ہے کیونکہ اس کا مستقبل تابناک تھا۔ اس کی زندگی خوشحال تھی۔ لیکن ایک شامی ،عراقی، ترکی یا افغانسانی کی موت اس لیے زیادہ تکلیف دہ نہیں کہ اس کا کوئی روشن مستقبل نہیں تھا۔اس کی زندگی ناامیدی اور لاچاری کا مجسمہ تھی جسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔
ایلن لکھتے ہیں بلجیم دھماکے نسل ، مذہب یا قومیت میں کوئی تفریق نہیں کرتے پھر ہم کیوں معصوموں کی ہلاکتوں پر اظہار ہمدردی کرنے میں تفریق کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے آنسوؤں کو مغربی سانحہ کے لیے محفوظ کرنے کی ضرورت نہیں۔بلکہ ہماری آنکھیں برسلز، انقرہ،بغداد، پیرس اور دنیا کے کسی بھی خطہ میں ہونے والے حادثے پریکساں طور پرنم ہونی چاہیے۔(ملت ٹائمز)