’ جارحانہ ہندتو ‘ بنام ’ نرم ہندتو ‘

معصوم مرادآبادی

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی نے گجرات میں اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے ’جارحانہ ہندتو‘ کا بے دریغ سہارا لیا۔ ترقی اور وکاس کا ڈھول پیٹنے والی پارٹی نے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جس کے ذریعے وہ فرقہ وارانہ ذہنوں کو مطمئن کرسکتی تھی۔ جب سے نریندر مودی گجرات کی سیاست کے محور میں آئے ہیں، تب سے گجرات کا ہر الیکشن فرقہ وارانہ موضوعات پر لڑا جاتا ہے اور اس الیکشن کا سب سے اہم موضوع ’پاکستان اور مسلمان‘ ہوتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں وہ ’میاں مشرف‘ اور ’ہم پانچ اور ہمارے پچیس‘ جیسے نعروں کے بل پر فرقہ پرست ہندو ذہنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس مرتبہ انہوں نے تمام حدیں عبور کرتے ہوئے سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو گجرات کا وزیراعلیٰ بنوانے کی پاکستانی سازش کا ’انکشاف‘ ہی نہیں کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کے ایماء پر نئی دہلی میں منعقدہ ایک ایسی میٹنگ کی بھی ’پول‘ کھول دی جس میں مودی کو ہرانے کی سازش رچی گئی تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس میٹنگ میں سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور سابق نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری کے علاوہ کئی سینئر سفارت کار اور ہندوستانی فوج کے ایک سابق افسر بھی موجود تھے۔ اس مسئلے پر گزشتہ ایک ہفتے سے پارلیمنٹ کی کارروائی تعطل کا شکار ہے اور کانگریس وزیراعظم سے مسلسل معافی مانگنے کا مطالبہ کررہی ہے۔

 وزیراعظم نریندرمودی نے گجرات میں ہارتی ہوئی بازی کو جیتنے کے لئے جس ’جارحانہ ہندتو‘ کا سہارا لیا اس کا جواب کانگریس پارٹی نے سیکولر طریقوں سے دینے کی بجائے خود’ نرم ہندتو‘ سے دینے کی کوشش کی۔ اب جب کہ راہل گاندھی نے کانگریس کے قومی صدر کا عہدہ سنبھال لیا ہے تو وہ یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ’’ آج بی جے پی پورے ملک میں آگ اور تشدد پھیلانے کا کام کررہی ہے جس کو صرف کانگریس پارٹی کے کارکنان اور قائدین ہی روک سکتے ہیں۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ گجرات کی انتخابی مہم کے دوران راہل گاندھی ہی محور میں تھے اور وہ بی جے پی کے ہتھکنڈوں کا تنہا مقابلہ کررہے تھے۔ لیکن کانگریس پارٹی نے گجرات کا الیکشن جیتنے کے لئے جو حکمت عملی تیار کی تھی وہ راہل گاندھی کے ان خیالات سے میل نہیں کھاتی جن کا اظہار انہوں نے کانگریس کی کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہوتے وقت کیا ہے۔ 

راہل گاندھی نے کہاکہ ہے کہ’’ وزیراعظم نریندر مودی ملک کو اس قدیم دور میں لے جارہے ہیں جہاں خاص شناخت ، کھانے پینے اور عقیدے کی وجہ سے لوگوں کو قتل کردیا جاتا تھا۔ ایسے بھیانک تشدد سے دنیا میں ہماری شیبہ انتہائی خراب ہوئی ہے۔‘‘ انہوں نے کہاکہ’’ ہندوستان کی تاریخ پیار و محبت اور رحم دلی سے عبارت ہے لیکن اس طرح کی خوفناک وارداتوں سے ملک کا تانا بانا بکھر گیا ہے۔‘‘ اپنی تقریر میں راہل گاندھی نے یہ بھی کہاکہ’’ آج بی جے پی کے لوگ پورے ملک میں تشدد پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور اسے روکنے والی ایک ہی طاقت ہے اور وہ ہے کانگریس۔‘‘ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان لکیر کھینچتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’’ وہ آگ لگاتے ہیں اور ہم اسے بجھاتے ہیں۔ وہ توڑتے ہیں اور ہم جوڑتے ہیں۔ وہ نفرت کرتے ہیں اور ہم پیار کرتے ہیں۔ ہم نفرت اور غصے کی ان کی سیاست سے پیار کے ذریعے لڑیں گے اور انہیں شکست سے دوچار کریں گے۔ ‘‘ 

راہل گاندھی کی تقریر کے کسی قدر طویل اقتباس کو یہاں نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کانگریس کے نئے صدر کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ کرسکیں اور کانگریس کی آنے والے دنوں کی سیاست کا ادراک کرسکیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں راہل گاندھی کے اس طرز عمل پر بھی نظر ڈالنی ہوگی جو انہوں نے گجرات اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے لئے اختیار کیا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ گجرات کی انتخابی مہم کے دوران راہل گاندھی نے کم و بیش دو درجن مندروں میں جاکر پوجا کی اور وہ اس طرح وزیراعظم نریندر مودی کی پیروی کرنے کی کوشش میں ان سے بھی آگے نکل گئے۔ یہاں تک کہ ایک مندر کے درشن کے دوران جب ان کا نام غیر ہندو وزیٹروں کے رجسٹر میں درج ہوا تو اسے بی جے پی نے انتخابی موضوع بنادیا اور ان کے ہندو ہونے پر ہی سوالیہ نشان لگادیا گیا۔ بی جے پی نے کہاکہ راہل اپنے اور اپنے آباء واجداد کے ہندو ہونے کا ثبوت پیش کریں۔ بی جے پی کے ان جارحانہ سوالوں کا جواب دینے کے لئے کانگریس کے جو ترجمان سینہ تان کر سامنے آئے، انہوں نے کہاکہ راہل گاندھی ایک ’جنیو دھاری ہندو‘ ہیں۔ اگر راہل گاندھی کے مذکورہ بالا بیان میں صداقت ہوتی تو کانگریس ترجمان کا بیان اس طرح ہونا چاہئے تھا کہ’’ راہل گاندھی بلاشبہ مذہبی طور پر ہندو ہیں لیکن کانگریس کی سوچ پوری طرح سیکولر ہے اور وہ ہر مذہب کو یکساں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ کانگریس میں کسی خاص مذہب کو ترجیح نہیں دی جاتی کیونکہ کانگریس کی نظریاتی بنیاد مہاتما گاندھی نے رکھی تھی۔‘‘ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کانگریس کی طرف سے اس طرح کی کوئی بات سامنے نہیں آئی بلکہ کانگریس پارٹی راہل گاندھی کو نریندر مودی سے بڑا ہندو ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئی اور یہاں تک کہا گیا کہ بی جے پی ہی نہیں کانگریس بھی ہندو روایات کی امین ہے۔ ظاہر ہے کانگریس کا یہ بیان اور راہل گاندھی کی مندروں میں حاضری یہ ثابت کرنے کے لئے تھی کہ کانگریس پارٹی بھی ہندتو کے معاملے میں بی جے پی سے پیچھے نہیں ہے۔ یہ دراصل بی جے پی کے اس منافرانہ ایجنڈے کو اچکنے کی کوشش تھی جو راہل گاندھی کے لفظوں میں ملک کے اندر منافرت اور تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔ یہاں بہت زیادہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کانگریس پارٹی کی جو دگرگوں حالت ہے، وہ دراصل اسی منافقانہ سیاست کا نتیجہ ہے ۔ کانگریس نے گجرات کے انتخابی میدان میں بی جے پی کے’ جارحانہ ہندتو‘ کا مقابلہ کرنے کے لئے ’نرم ہندتو‘ کا سہارا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ راہل کسی مسلم علاقے میں نہیں گئے اور نہ ہی گجرات کے 10فیصد مسلمانوں کو کانگریس کی طرف راغب کرنے کی ایسی کوئی کوشش کی گئی جو اس سے پہلے کے انتخابات میں کی جاتی رہی ہے۔ گجرات اسمبلی کے لئے کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب چار مسلم امیدواروں کی کامیابی دراصل اسی مجبوری کا نتیجہ ہے کہ آخر مسلمان جائیں تو کہاں جائیں۔ راہل گاندھی کو ایک بات بہرحال یاد رکھنی چاہئے کہ بی جے پی کے ’جارحانہ ہندتو‘ کا جواب ’نرم ہندتو‘ سے ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔ خود کو ہندوؤں کا حامی ثابت کرنے کے لئے کانگریس نے گجرات میں’ نرم ہندتو‘ کا جو کارڈ کھیلا ہے، اس سے ملک کے سیکولر عناصر اور اقلیتوں کو بڑی ٹھیس پہنچی ہے۔ 

ہم آپ کو یاد دلانا چاہیں گے کہ جس وقت کانگریس پارٹی گجرات میں’ نرم ہندتو‘ کا کارڈ کھیل کر بی جے پی کے ’جارحانہ ہندتو‘ کو شکست دینے کی کوشش کررہی تھی تو وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے طنزیہ انداز میں یہ کہا تھا کہ’’ ہندتو تو ہماری میراث ہے اور کانگریس اسے ہم سے چھین نہیں سکتی۔ جب لوگوں کو اصل مال دستیاب ہے تو وہ نقلی پر کیوں یقین کریں گے۔‘‘ یہ بات سو فیصد درست تھی کیونکہ بھارتیہ جنتاپارٹی ہندتو کے نام پر منافرانہ سیاست کرنے والی پارٹی کے طورپر پوری دنیا میں بدنام ہے۔ جبکہ کانگریس خود کو سیکولر جماعت کہتی ہے ۔ بی جے پی ہمیشہ راہل اور کانگریس کو مسلمانوں کا حامی اور ہندومخالف قرار دینے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ سنگھ پریوار تو گاندھی جی کو بھی ہندو مخالف قرار دیتا رہا ہے۔ بی جے پی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لئے سیکولر نظریات سے انحراف کرکے ہندتو کے ایجنڈے کا تعاقب کرنا کانگریس کی سب سے بڑی بھول ہے۔ کانگریس کی یہی بھول اس کی مسلسل پسپائی کا سبب ثابت ہورہی ہے۔ اس کا آغاز 80 کی دہائی میں سنگھ پریوار کی ایودھیا تحریک سے ہوا تھا جس کا مقابلہ سیکولر اصولوں اور نظریات سے کرنے کی بجائے کانگریس نے اس موضوع کو بی جے پی سے چھیننے کی کوشش کی اور اس کوشش میں اپنے ہاتھ جلالئے۔ کانگریس کے سامنے آج سب سے بڑا مسئلہ اپنے وجود کو بچانے کا ہے۔ اب یہ راہل گاندھی کو طے کرنا ہے کہ انہیں بی جے پی کے ’ہندوکارڈ‘ کا جواب’ نرم ہندتو‘ سے دینا ہے یا کانگریس کو سیکولرزم کی سیاست پر مضبوطی سے قائم رکھ کر پیش قدمی کرنی ہے۔ آج بی جے پی اور آر ایس ایس ملک کے اصل سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی جو سازش رچ رہی ہے، اسے روکنے کا کام کانگریس ہی انجام دے سکتی ہے۔ بی جے پی حکومتیں مرکزی اور صوبائی سطح پر ہندوستانی سماج کو ہندو مذہبی غلبے پر مبنی سماج بنانے کے ایجنڈے پر کام کررہی ہیں۔ بی جے پی نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس کا اصل مقصد ہندوستان کو ’کانگریس مکت‘ بنانا ہے۔ کیونکہ وہ کانگریس کو ہی اپنا سیاسی اور نظریاتی مدمقابل سمجھتی ہے۔ کانگریس کا خاتمہ اور اس کی شکست ہندتو واد ی طاقتوں کا اصل ہدف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ راہل گاندھی کانگریس کے وجود کو بچانے کی لڑائی کس انداز میں لڑتے ہیں؟

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں