بے پَیر کا مجاہد

محمد رضی الاسلام ندوی
وہ 29 برس کا نوجوان تھا۔ صحت مند، خوب رو، چہرہ داڑھی سے مزیّن، لیکن دونوں پیروں سے معذور ۔ وہ دوسرے مظاہرین کے ساتھ تھا ۔ نہیں ، بلکہ دوسرے مظاہرین اس کے ساتھ تھے، کیوں کہ معذور ہونے کے باوجود وہ سب سے آگے آگے تھا ۔ اس کی وہیل چِیَر مظاہرین کے آگے آگے دوڑ رہی تھی ۔ فلسطین کا جھنڈا اس کے ہاتھ میں لہرا رہا تھا اور وہ پرجوش انداز میں دونوں ہاتھ اٹھا اٹھا کر زور زور سے نعرے لگا رہا تھا : ” الأرْضُ أرْضُنَا “ (یہ سرزمین ہماری ہے ) اور دوسرے مظاہرین اس کا ساتھ دے رہے تھے _ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا :”لَنْ نَسْتَسْلِمْ ” (ہم کبھی سِپر نہیں ڈالیں گے ) اور دوسرے مظاہرین اس کی آواز میں آواز ملا رہے تھے ۔ اچانک صہیونی فوجیوں کی طرف سے آنے والی ایک گولی سیدھے اس کی پیشانی پر لگی اور وہ ابدی نیند سو گیا ۔ یہ 15 دسمبر 2017 کا واقعہ ہے جب فلسطین کے علاقہ غزّہ میں امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت بنائے جانے کے اعلان کے خلاف مظاہرہ کیا جا رہا تھا ۔ یہ مظاہرے 6 دسمبر سے، جب صدرِ امریکہ نے یہ نا معقول اور بدبختانہ اعلان کیا تھا، پوری دنیا میں ہو رہے تھے ۔ اہلِ فلسطین بھی اس دن ‘یوم الغضب’ کے طور پر مظاہرے کر رہے تھے ۔ اور یہ نوجوان تھا ابراہیم ابو ثریا، جس نے اس دن دیگر 7 فلسطینیوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کیا تھا ۔ ابراہیم نے غزّہ میں پرورش پائی اور وہیں بچپن سے جوانی کی سرحد میں قدم رکھا ۔ اس نے اپنے اطراف میں اسرائیلی حکومت اور صہیونی فوجیوں کے مظالم دیکھے، فلسطینیوں کے گھروں کو اجڑتے دیکھا، بچوں اور نوجوانوں کو گولیوں کا شکار ہوکر تڑپتے اور جان دیتے ہوئے دیکھا، لیکن اس کی ہمّت ذرا بھی پست نہیں ہوئی ۔ وہ مچھلی کا شکار کرکے یا گاڑیوں کو دھوکر گزر اوقات کے لیے کچھ پیسے کما لیتا تھا، لیکن جب بھی مظاہرہ کی کال دی جاتی وہ فوراً اس پر لبیک کہتا اور سب کام چھوڑ چھاڑ کر مظاہرے میں شامل ہوجاتا ۔ ایک بار ابراہیم گولیوں سے شدید زخمی ہوا اور اس کے سر اور پیٹ میں گہرے زخم آئے، لیکن وہ بچ گیا اور صحت یاب ہوکر پہلے سے زیادہ پُر عزم ہو گیا ۔ دوسری بار 2008 میں ، جب اس کی عمر تقریباً 20 برس تھی، غزہ آپریشن کے دوران صہیونی بکتر بند گاڑیوں کے ایک بڑے حملے کو روکتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں اڑ گئیں ، لیکن اس کے باوجود اس کے جذبہ جہاد میں کوئی کمی نہیں آئی اور خوئے عزیمت میں کوئی رخنہ نہیں پڑا، بلکہ فلسطینی کاز سے اس کی وابستگی میں اضافہ ہی ہوا اور وہ مزید پُر جوش ہوگیا ۔ ابراہیم اپنی بے مثال جدّوجہد کی وجہ سے پورے فلسطین میں غیرت و حمیت، حرّیّت اور عزیمت کا استعارہ بن گیا تھا ۔ وہ دونوں ٹانگوں سے معذور تھا، لیکن مظاہروں میں اس کی شرکت یقینی ہوتی تھی ۔ وہیل چیئر پر، ہاتھ میں فلسطین کا جھنڈا لیے، وہ نعرے لگا رہا ہوتا، یا زمین پر بیٹھ کر اپنی غلیل سے صہیونی فوجیوں پر سنگ زنی کرتا ۔ مظاہروں میں جب صہیونی فوجیں نہتے لوگوں پر فائرنگ کرتے ہوئے ٹوٹ پڑتیں تو وہ اس وقت بھی آگے آگے ہی رہتا ۔ 15 دسمبر کو بھی وہ اپنی عادت کے مطابق مظاہرین کی قیادت کرتا ہوا سر پر گولی کا زخم سجائے اپنی منزل کو پا گیا ۔ میں نے ابراہیم ابو ثریا کا واقعہ پڑھا تو مجھے حضرت عمرو بن الجموح ؓ کی یاد آگئی ۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج کے خانوادے بنو سلمہ سے تھا ۔ ان کے پیر میں شدید لنگ تھا، وہ بہت لنگڑا کر چلتے تھے ۔ عمر بھی 60 برس سے متجاوز ہو گئی تھی ۔ غزوہ احد کی تیاری ہونے لگی تو وہ بھی پُر عزم ہوگئے ۔ ان کے بیٹوں نے منع کیا کہ آپ معذور ہیں ، اللہ تعالٰی نے آپ جیسے لوگوں کو رخصت دے رکھی ہے تو سخت ناراض ہوئے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول! میرے بیٹے معوّذ، معاذ اور خلّاد مجھے لنگڑا بتاکر جہاد میں شرکت سے روک رہے ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ میں لنگڑاتے ہوئے جنّت میں جاؤں ۔” آپ ص نے ان کے بیٹوں سے فرمایا : ” انھیں جانے دو، امید ہے کہ اللہ تعالی انھیں شہادت نصیب فرمائے گا ۔ “(بخاری، مسلم) چنانچہ حضرت عمرو بن الجموح ؓ غزوہ احد میں شریک ہوئے اور شہادت سے سرفراز ہوئے ۔ حضرت عمرو بن الجموح ؓ اور ابراہیم ابو ثریا کی سیرتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کسی بھی حال میں ہو، اس کی صحت کیسی بھی ہو، اس کی عمر چاہے جتنی ہو، اس کا معاشی معیار جو بھی ہو، وہ کیسے ہی حالات سے گھرا ہوا ہو، کیسے ہی مسائل سے دوچار ہو، چاہے جیسی صلاحیت کا مالک ہو، کیسے ہی وسائل رکھتا ہو، لیکن اگر وہ چاہے تو اللہ تعالٰی کی خوش نودی سے بہرہ ور ہوسکتا ہے اور جنت الفردوس کا مستحق بن سکتا ہے ۔
★ سلام ہو حضرت عمرو بن الجموح ؓ پر
★ سلام ہو ابراہیم ابو ثریا پر
★ سلام ہو آج کے عمرو بن الجموح ؓ پر 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں