مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام اور “لو جہاد” کی افسانوی اصطلاح

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
ملک میں تعصب پسندوں کا ایک طبقہ ایسا ہے؛ جسے ملک کا سیکولر نظام پسند نہیں، جو ہندوستان کی پر امن فضا اور محبت آمیز تعلقات کو برداشت نہیں کرسکتا، وہ جمہوری نظام کے بالمقابل ہندوتوا نظام کا نفاذ چاہتا ہے اور اس کے لیےشب و روز کوششوں میں لگا ہوا ہے،وہ وقفے وقفے سےدستور میں تبدیلی، خوفناک فسادات، اقلیتوں کے ساتھ ظلم وستم اور مسلمانوں کی حق تلفی و محرومی دیکھنا چاہتا ہےاور ان سب کو اپنا نصب العین اور فرض منصبی سمجھتا ہے۔
اس مخصوص فرقے کی طرف سےمسلمانوں کے خلاف نت نئی تحریکیں چلائی جاتی ہیں، پھر مختلف پروپیگنڈوں کے ذریعہ بے گناہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جاتا ہے، ابھی حال میں تشدد پسند عناصر کی جانب سے ’’لوجہاد‘‘ کا نعرہ لگایا گیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مسلم نوجوان، ہندو لڑکیوں کو دامِ محبت میں گرفتار کرکے ان سے شادی رچا کر جبراًٍ تبدیلی مذہب پر مجبور کرتے ہیں۔
“لو جہاد” اور مختلف خود ساختہ اصطلاحات کے ذریعہ ملک عزیز میں جس طرح مارپیٹ، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا اور ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر گنگا جمنی تہذیب کےحامل وطن عزیز کو ایک مخصوص رنگ میں رنگنے اور ملک کی دوسرے بڑی آبادی (مسلمانوں) کے تئیں نفرت کے بیج بونے کی منظم سازش کررہےہیں۔ آئے دن کبھی گاؤ رکشا کے نام پر تو کبھی دہشت گردی کے عنوان سے، کبھی شریعت میں مداخلت کے ذریعہ تو کبھی شعائر اسلام کو نشانہ بناکر۔ غرض مختلف بہانوں سے قانون کو ہاتھ میں لے کر واویلا مچایا جارہا ہے؛اب حد تو یہ ہوگئی کہ ان شرپسند عناصر نے اس دفعہ مسجد کے امام و مؤذن کو شہیدکرڈالا، نیز قرآن اور مسجد کی بے حرمتی کی۔ مستند ذرائع کے مطابق راجمنڈری سے دس کلو میٹر کی دوری پر واقع ایک گاؤں تالہ چیرو کے علاقہ میں مسجد نورانی کے مؤذن محمد فاروق جو بہار کے رہنے والے تھے رات کے وقت مسجد پر حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ موصوف انتہائی خلیق اور نیک دل انسان تھے اس کے باوجود شرپسندوں نے محض اس لیے ہلاک کردیا کہ وہ ایک اسلامی شناخت کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔اس سے کچھ ہی ہفتوں قبل راجستھان کے ضلع راج سمند میں ریاست مغربی بنگال کے مالدہ ضلع سے تعلق رکھنے والے افرازالاسلام کو جو 12 سال سے مقیم اپنی کمائی سے گھر کی کفالت کررہا تھا لوجہاد کا بہانہ بناکر، دوستی کی آڑ میں پہلے تو بری طرح پیٹا گیا اور پھر پٹرول ڈال کر آگ کے حوالے کردیا گیا۔ اس دلدوز و بہیمانہ قتل سے پورا ملک سکتے میں آگیا اورپورے ملک کے اندر آواز اٹھنی شروع ہوگئی،جگہ جگہ احتجاج و مظاہرے ہوئے مگر افسوس کہ اس معاملے پہ وزیر اعظم کا درد ابھی تک نہیں چھلکا۔ہاں مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے مثبت قدم اٹھایا ہےجو قابل تحسین ہے۔
بدقسمتی سےیہ ملک میں پہلا معاملہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی مسلمانوں کو مارا گیا،قتل کیا گیا،بوڑھی ماں سے اس کے لخت جگر کو ہمیشہ کےلیے الگ کردیا گیا، بہنوں کے سہاگ چھین لیے گئے۔محمد اخلاق، پہلو خان، حافظ جنید، عمر خان، انصاری وغیرہ پر مشتمل ایک طویل فہرست ہے۔
یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ آج سے آٹھ سال قبل معروف انگریزی اخبار”دی ہندو” کے 13 نومبر 2009 کی اشاعت میں کرناٹک سی آئی ڈی کی جانب سے یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی؛جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ غیر مسلم لڑکیوں سے مسلم لڑکوں کی شادی میں ’’لوجہاد‘‘ کا کوئی ثبوت موجود نہیں؛اسی طرح پولیس کے جانب سے بھی یہ اعتراف کیا گیا کہ اجتماعی یا انفرادی طور پر اس طرح کی کوششیں بھی کہیں نہیں پائی گئیں۔پھر اپریل 2010 میں حکومت کرناٹک نے عدالت کو یہ رپورٹ بھی پیش کی کہ ’’لو جہاد‘‘ جیسی کو ئی چیز ریاست میں نہیں ہے(دی ہندو:23؍اپریل10ء)
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ غیر مسلم لڑکیوں سے مسلم لڑکوں کی شادی کے واقعات درحقیقت مخلوط تعلیم، آزادانہ ماحول، والدین و سرپرستوں کی غفلت و بے توجہی اور ملازمت و معاشرت میں لڑکے اور لڑکیوں کی بے حجابانہ ملاقات کی وجہ سے ہور ہےہیں اور یہ صرف غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ نہیں ہورہا ہے، بلکہ ایک بڑی تعداد میں غیر مسلم لڑکے بھی مسلم لڑکیوں سے شادی کررہے ہیں۔اس حوالے سےبھی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں !معتبر ذرائع کے مطابق اب تک کئی ہندو لڑ کے مسلم لڑکیوں کومحبت کے جال میں پھانسنےکے بعد اسپیشل میرج ایکٹ 1954کے دفعہ 15کے مطابق شادی کو باقدہ رجسٹریشن کرنے کیلئے رجسٹرار آف میرجس سے رجوع ہو کر قانوناً ازدواجی زندگی میں داخل ہوئے ہیں؛ جس میں گوپال کرشنا کی شادی تسنیم کے ساتھ اسی طرح ترون شرما کی شادی ربینہ اختر کے ساتھ ،آنند کی شادی تخمینہ کے ساتھ اور ان کے علاوہ کئی ایک مسلم لڑکیوں کی شادی غیر مسلم نوجوانوں کے ساتھ ہونے کی اطلاع بنگلورو اور وجئے پور، رجسٹرار آف میرجس کے دفتر کے باہر چسپاں نوٹس بورڈ دیکھنے سے ہوئی ہے ۔باوثوق ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اب تک جتنی بھی مسلم لڑکیوں کی شادیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ باقاعدہ رجسٹریشن کے ذریعہ ہوئی ہیں ان تمام غیر مسلم لڑکوں کا تعلق یا تو آر ایس ایس سے ہے یا آر ایس ایس کی ان لڑکوں کو حمایت حاصل ہے۔
اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لو جہاد کے معاملے میں ڈاکٹر ہادیہ کے بیان سے بلبلا اٹھی ھندوتوا تنظیم اب انسانیت سوز حرکتیں انجام دینے لگی ہے۔جسے دیکھ کر ہر انصاف پسند شہری انگشت بدنداں ہے نیزاس سلسلے میں جبری طور ہر مسلم لڑکیوں سے شادی کے متعدد ویڈیوز کو دیکھ کر سخت دل انسان کا کلیجہ بھی منہ کو آجاتا ہے۔
ایسی حرکتوں پر ملک عزیز میں قدرت و طاقت کے باوجود قدغن نہیں لگایا گیا تو ملک کے اندر قانون کی بالا دستی ختم ہوجائے گی۔
جہاں تک مذہب اسلام کا تعلق ہے تو اسلامی تعلیمات میں کسی کو بھی جبراً اسلام میں داخل کرانے کی اجازت نہیں، جب تک کوئی شخص برضا و رغبت دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوتا، وہ مسلمان ہی نہیں گردانا جاتا پھر تبدیلی مذہب کے جبر و اکراہ کے کیا معنی، اس کے علاوہ اسلام غیر عورتوں کو تو چھوڑیے مسلم محارم کے علاوہ اجنبی عورتوں پر نگاہ ڈالنے تک کی ممانعت کرتا ہے، تو وہ کیوں کر عشق و معاشقہ کی غلط کاریوں کی اجازت دے سکتا ہے، یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے کہ کسی بھی طرح ماحول کو مسموم اور زہر آلود کرکے اپنی سیاسی دکان چمکائی جائے اور اقتدار کے مزے لوٹے جائیں۔ اس تعلق سے جو پروپیگنڈے اور ’’لوجہاد‘‘ کے نام سے مختلف کہانیاں گڑھی گئیں اور یو ٹیوب وغیرہ پر برقعہ پوش خواتین کو پیش کیا گیا جودرحقیقت ہندو تھیں اور انہیں مذہب اسلام میں بہ جبر و اکراہ داخل کیا گیا، اس غلط ذہن سازی اور منافرانہ ماحول کو فروغ دینے کے لیے نہ صرف الیکٹرانک میڈیا ٹی وی انٹرنیٹ وغیرہ کا سہارا لیا گیا بلکہ پرنٹ میڈیا کے ذریعہ بھی اس غلط پروپیگنڈہ کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔ پمفلٹوں، پوسٹروں اور کتابچوں کی شکل میں بھی اس مذموم کوشش کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔
اور رہی بات جہاد کی تو جاننا چاہیے کہ جہاد ایسے پاکیزہ عمل کو کہتے ہیں جس کا مقصد حق کی اشاعت اور اسلام کی سربلندی ہو، اور جس میں اسلامی اصول وآداب اور اخلاق کا مکمل خیال رکھا گیاہو، اور صرف اللہ کی رضا کی نیت ہو۔ مزید یہ کہ اس کے روا ہونے کے لئے حالات بھی مخصوص ہیں۔ تو پھر ایسے عمل کو جہاد کیسے کہہ سکتے ہیں جس کی ابتداء ہی حرام عمل سے ہوتی ہےاور جس میں ہر قدم پر گناہ ہی گناہ ہے ، کیونکہ اسلام میں کسی بھی اجنبی لڑکی سےدوستی ، شہوت و لذت کے ساتھ اس سے بات چیت، اس سے ملاقات اور اس کو دیکھناحرام ہے۔اسی لئے عموما ایسے واقعات میں ایسے لڑکے ملوث ہوتے ہیں جو خود دین کے تقاضوں کو پورا کرنے والے نہیں ہوتے ،حرام وحلال کی تعلیم کے پابند نہیں ہوتے ، نفس و شیطان کی راہ پر چلنا ان کا شیوہ ہوتا ہے ، اور اسی راہ میں انہیں کسی غیر مسلم لڑکی سے ملاقات ہوتی ہے تو اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے محض ذاتی جذبے کے تحت اسے مسلمان بناکر شادی کرتے ہیں جبکہ بہت سے اپنے اپنے مذہب پر باقی رہتے ہوئے ایک دوسرےسے شادی کرلیتے ہیں جو ان کی نظر میں شادی ہوتی ہے، مذہب اسے شادی تسلیم نہیں کرتا،اور کچھ تو اپنے ایمان تک کا سودا کرتے ہیں کہ شادی کی خاطر اپنا مذہب چھپاکر خود کو غیر مسلم ظاہر کردیتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔اس طرح کے واقعات اسلام کی نظر میں جہاد نہیں ہیں، بلکہ ایسے واقعات کو اسلام نفس پرستی، شرارت اور بدکاری کہتا ہے اور بدکاری و نفس پرستی اسلام میں حرام اور بدترین گناہ ہے ۔