علماء ہوں یا دانشوران آر ایس ایس کی پالیسی سمجھنے میں چوک کی سینئر صحافی قاسم سید سے خاص بات چیت میں معروف اسکالر ڈاکٹر منظور عالم کا اظہارِ خیال

نئی دہلی: ( آر کے بیورو )
تھنک ٹینک کی حیثیت سے معروف ادارے آئی او ایس کے سربراہ اورمسلم لیڈر کے ڈاکٹر منظور عالم نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مسلمانوں نے سنگھ کی پالیسی کو سمجھنے میں چوک کی جس نے ہمیشہ اپنے مینی فیسٹیشن کے ذریعہ بتایا کہ اسے منو اسمرتی کو نافذ کرنا ہے اور مضبوط دشمن یعنی اسلام و مسلمانوں کو زیر کرنا ہے۔ علماءہوں یا دانشور مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو یا کوئی اور ادارہ بدقسمتی سے یہ چوک ہوئی اور ہوتی رہی۔ غور سے دیکھیں کہ آر ایس ایس نے ملک میں بی جے پی کی حکومت قائم کردی۔ حلف برداری کے ساتھ اس کا جارحانہ رویہ برقرار ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر دستور کی دھجیاں اڑائی گئیں ، جہاں تک سیکولر فورسز کا معاملہ ہے وہ صورت حال کا ادراک کرنے میں ناکام رہیں۔ انہیں امید رہی کہ یہ ٹھیک ہوجائیں گے یا پھر وہ عمداً ٹالتی رہیں مگر ان کا رویہ سخت مایوس کن اور قابل ملامت رہا ہے۔ ڈاکٹر منظور عالم نے ”روز نامہ خبریں“ کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کے مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ بل اس جارحیت کا تسلسل ہے۔ انصاف کا نہیں۔ اگر نیت واقعی انصاف کی ہوتی تو بل کو معمول کے پروسیس سے گزارا جاتا ہے۔ جس جلد بازی اور ہڑبڑاہٹ کا مظاہرہ کیا گیا وہ سرکار کی بدنیتی اور جارحانہ رویہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ مسلمانوں کی تہذیبی شناخت مٹانے اور ان کے خوصلے توڑنے کے مسلسل عمل کا ایک حصہ ہے۔
اس سوال پر کہ آخر اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے، ڈاکٹر منظور عالم نے کہاکہ جمہوری نظام میں جمہوری انداز میں بچی ٹیشن آخری راستہ ہے، پہلا نہیں۔ حالات سخت ضرور ہیں لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ سرکار ایسے اقدامات کی پشت پناہی کرتی ہے جس سے اقلیتوں میں خوف و ہراس پیدا ہو اور احساس شکستگی سے دو چار ہوں۔ تابر توڑ حملوں سے ان کے بھکتوں کو تسکین ہوگی۔ مذہبی شناخت مٹانے کی کوششیں ان میں جوش پیدا کریں گی ایسے حالات میں ضروری ہے کہ تمام مسالک کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ ہو۔ علمائے کرام ماہر ین قانون اورمسالک کے واقف کار ایک مسودہ تیار کریں اور اسے عوام کے سامنے لائیں۔ اقلیتوں کے ساتھ دلت اور آدیباسی قیادت کو اعتبار میں لیں، ان کے دانشوروں سے روابط بڑھائیں، ان کے ایشوز میں شریک ہوں اور ان کا ساتھ بھی دیں، کیونکہ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں دلت اور آدیباسی بھی منوسمرتی کی زد میں ہیں۔ بنیادی حقوق مذہبی شناخت کا ذریعہ ہیں ان پر چور دروازے سے شب خون مارا جارہا ہے یہ بھی اس کا مظہر ہے۔ بورڈ شرعی امور کو علمی دستوری و سماجی طور سے انجام دے بلاشبہ دستور کے نیچر، قانون کے کیریکٹر، قانون سازی کے طریقہ کار کو سمجھنے اور مناسب حکمت عملی بنانے میں بلا امتیاز ہم سب سے چوک ہوئی ہے۔ بہرحال تمام بڑی چھوٹی مسلم تنظیموں کو قیام امن کے بارے میں عملی اقدامات کے ساتھ برادران وطن کو اپنا موقف سمجھانے کے لیے کام کرنا چاہئے۔
یہ معلوم کرنے پر کہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے حیثیت و بے اثر کردیا گیا۔ ان کا ووٹ بے معنی بنادیا گیا۔ گجرات میں کانگریس نے بھی یہی روش اپنائی۔ اب سیکولر اور کمیونل فورسز کے درمیان باریک لکیر بھی مٹ گئی ہے۔ مسلمانوں کو سابقہ پوزیشن میں آنے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ بی جے پی ہراؤ کی پالیسی کی ناکامی کے بعد اب کیا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی اسٹیرٹیجی مستقل نہیں ہوتی۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ موجودہ وقت میں ٹیکٹیکل الیکشن غیر مؤثر ہوگیا ہے۔ مگر یہاں سیکولر فورسز کے بارے میں ایک بات ضرور سمجھ لی جائے کہ ان کے مسلمانوں کا ہمدرد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اسلام کی بھی ہمدر د ہیں۔ اقلیت کو دستور کی روشن میں اپنی شناخت کے حسین امتزاج کے ساتھ پدرم سلطان بود کی بجائے عوامی رابطے بڑھائے۔ ہوسکتا ہے کوئی تیسری کوشش کامیاب ہوسکے۔ اپنی پارٹی بنانا ممکن نہیں جب دستور بنیادی شکل میں نہیں رہے گا تو بحیثیت مسلمان کے کچھ بھی نہیں رہے گا۔ ہم اصل خطرے کو محسوس نہیں کرپارے ہیں۔ مسلمان ووٹ کا صحیح استعمال کریں گے تو ان کی موجودگی رہے گی اگر ہم 2019 میں پورے ملک سے دس سے بیس آزاد ممبر لوک سبھا میں پہنچا دیں جو پارٹی رنجیروں سے آزاد ہوں تو سیاست کا روح بدلنے کی سمت میں یہ انقلابی قدم ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں یہ کیسے ہوگا اس پر تبادلۂ خیال کیا جانا چاہئے۔