مسلم خواتین سے ہمدردی یا فریب؟

مفتی محمد اللّٰہ قیصر قاسمی
طلاق مخالف بل بڑے تام جھام کے ساتھ پاس ہوا، ہندو خواتین نے نقاب پہن کر خوب مٹھائیاں تقسیم کیں، ہندو مردوں میں بھی خوب جشن کا ماحول رہا، ان کی خوشی دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی فتح حاصل کر لی ہے اور اب بس کچھ دنوں میں ہی سر زمین ہند سے مسلمانوں کا خاتمہ بلکل قطعی طور پر نوشتہ دیوار بن چکا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ تین طلاق پر پابندی سے اسلام خطرے میں پڑ گیا ہے، اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں ، چودہ سو سال کے عرصے میں نہ جانے کتنے آئے اور اسلام کو مٹانے کا خواب لے کر اس دنیا سے چل بسے، اسلئے یہاں مسئلہ اسلام کا نہیں ہے، دین ہر مومن کے قلب میں ہے،جو دین پر عمل پیرا ہوگا وہ اس قباحت سے خود بخود دور ہوگا، ہزار ہا ایسے مسائل ہے جن پر عمل کی ہمیں اجازت نہیں تو کیا اس سے دین خطرہ میں پڑگیا؟ شراب حرام ہے ، یہاں اس کی اجازت ہے لیکر بد ترین مسلمان بھی اسے حرام ہی سمجھتا ہے، اسی طرح لاکھ حکومت قانون بنائے لیکن ایک باعفت خاتون تین طلاق کے بعد ہر گز اپنے ظالم شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی، اس کے برعکس کتنے ہی ایسے گھرانے ہیں کہ تین طلاق کے بعد بھی خود کو کسی اور مسلک کا پیرو کار کہہ کر میاں بیوی ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔
اگر دین کا کوئی نقصان نہیں تو پھر شور کیوں؟
شور کی وجہ یہ ہے کہ اس نئے قانون کی ظاہری شکل دیکھ کر ہی ایک جاہل بھی اندازہ لگایا سکتا ہے کہ یہ قانون جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ایک مسلم فیملی کو مکمل اور منظم طور پر تباہ کرنے کا ایک جال ہے، کیونکہ ایک خاتون اگر طلاق کی شکایت کرتی ہے یا کوئی اور شخص دشمنی میں ایسا کرتا ہے پھر ثابت ہونے کی صورت میں مرد تو جیل میں چلا جائے گا، ادھر اس کے بیوی بچوں کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟، دوسرے چونکہ نکاح بھی ختم نہیں ہوا اس لئے متأثرہ خاتون دوسری شادی بھی نہیں کر سکتی تاکہ اس کا گھر بس جائے، ان تین سالوں میں وہ بے یار و مددگار بس اپنے شوہر کا انتظار کرسکتی ، پھر تین سال جیل میں گذارنے کے بعد کیا شوہر اس خاتون کے ساتھ کسی طرح بھی ساتھ رہنے کو تیار ہوگا؟ یا خود وہ بیوی جس کو جیل بھیجوا چکی ہے اس کے ساتھ رہ پائے گی ؟ ظاہر ہے نہیں، کیونکہ دونوں طرف نفرت اپنے عروج کو پہونچ چکی ہوگی، اور نفرت کے رہتے ہوئے کوئی گھر نہیں چل سکتا اب شوہر بھی تو اپنی بربادی کا بدلہ لینا چاہے گا اس لئے آسان طریقہ ہے کہ مودی جی کی راہ اپناتے ہوئے اس سے علیحدہ ہوکر رہنے کو ترجیح دے گا اس دوران اگر عورت شادی کرنا چاہے گی تو عدالت کے ذریعہ وہ اس دلیل کے ساتھ شادی رکوا سکتا ہے کہ یہ خاتون اب تک میری بیوی ہے، گویا اس طرح ایک مکمل فیملی پوری طرح تباہ ہوکر رہ جائے گی۔
سرکار اس میں یہ کر سکتی تھی کہ شوہر کو تین سال کی قید ملے گی اور طلاق بھی واقع ہو جائے گی، اس طرح سزا صرف مرد کو ملتی، اور عورت کے پاس یہ آپشن ہوتا کہ اپنی بقیہ زندگی گذارنے کیلئے دوسری شادی کر لے، اس طرح مجرم کو سزا بھی مل جاتی، اور عورت بھی زیادہ پر یشانی سے محفوظ رہتی، لیکن یہ تب ہوتا جب سرکار کی نیت خواتین کو پریشانی سے بچانا ہو، یہاں تو مقصد ہی کچھ اور ہے وہ جگ ظاہر ہے، اس کے علاو جو اس کی تباہ کاری ہے وہ یہ کہ اب فرقہ پرستوں کے قدم یہاں نہیں رکیں گے شریعت کے ایک ایک مسئلہ کو اٹھایا جائے گا، ضمیر فروشوں کی اس سماج میں کمی نہیں، ان کی قیمت لگے کی اور دھیرے دھیرے پوری شریعت سے محروم کرنے کی کوشش ہو گی یوں سمجھئے کہ یہ کالا قانون ان کی شرپسندانہ تحریک کا مبدأ انطلاق ہے اب وہ خواتین جو مودی جی سے تین طلاق کے متعلق قانون بنانے کے لئے گہار لگا رہی تھیں ، ان کو بھولی بھالی سمجھ کر ان کی عقلوں پر ماتم کیا جائے یا انہیں سازش کا حصہ قرار دے کر ان پر لعنت بھیجی جائے،
پوری دنیا جانتی ہے کہ 2002 میں گجرات میں کیا ہوا، بھگوا دہشت گردوں سے مسلم کمیونٹی کو بچانے میں وہاں کی سرکار صد فیصد نہ صرف ناکام رہی، بلکہ اس نے کھلے طور پر ایکشن کا ری ایکشن کہہ کر اس کھلی جارحیت کا دفاع کیا، سپریم کورٹ سے لیکر ہائی کورٹ تک نے پھٹکار لگائی، مجرمین کو بچانے کی ہر کوشش کی گئی، متأثرین کو کیمپ میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا، ان کا مذاق اڑانے کیلئے انہیں 100 روپئے کا چیک دیا گیا، بوڑھے، بچے،جوان سب کو تہ تیغ کرکے ان کی خواتین کی آبرو ریزی کی گئی حتی کہ جب اس وقت کے پی ایم نے ’ راج دھرم ‘ نبھانے کی نصیحت کی تو بڑی بے شرمی سے میڈیا کے سامنے چپکے سے جناب ’ ہندو ہردے سمراٹ ‘ یہ کہتے ہوئے سنے گائے کہ راج دھرم ہی تو نبھا رہا ہوں یعنی مسلمانوں کی بربادی ان کا راج دھرم ہے، اور غضب بالائے غضب کہ اس پوری نسل کشی کے بعد جناب کے چہرے پر ندامت کا اثر تک نہیں دکھا، کیا حیرت کی بات نہیں ہے کہ مسلمانوں کی بربادی کو راج دھرم سمجھنے والے شخص سے آپ مسلمانوں کے فلاح و بہبود کی درخواست کریں، اسے حماقت کہیں یا ضمیر فروشی کا نام دیا جائے، آپ اپنے قاتل سے انصاف کی بھیک مانگنے لگیں، یا اپنے گھر میں چوری کے جرم میں ملوث شخص کو گھر کی حفاظت کی ذمہ داری دیدیں، آج یہ خواتین مگر مچھ کے آنسو بہارہی ہیں، چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا، ارے تم نے تو دشمنوں کو شعوری طور پر پوری قوم کو ذلیل کرنے کا راستہ دکھایا، تم نے 2002 کو نہیں دیکھا؟ گجرات کی بہنیں تمہیں یاد نہیں رہی؟ گجرات کی ماؤں کی چیخیں آج بھی ہوا میں گشت کر رہی ہیں کیا وہ تمہیں سنائی ہیں دیں؟ ان خواتین نے اپنے ساتھ پوری مسلم کمیونٹی کو ایک طویل المدت مصیبت میں ڈال دیا۔ کیا ان کو بیدار کرنے کیلئے یہ کافی نہیں کہ مسلمانوں کے فلاح و بہبود کی اگر کوئی رسمی طور پر بھی وکالت کردے تو پوری بی جے پی لگتا ہے اس شخص کو زندہ چبا جائے گی، اس بی جے پی سے بھلائی کی امید؟ واہ! اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا ۔
‌ان کو ہوش تب بھی نہیں آیا جب طلاق کا مسئلہ میڈیا میں چلتا رہا اور یکے بعد دیگرے مسلمانوں کا قتل ہوتا رہا، آپ کے مہا پرش پی ایم نے دلتوں کے قتل پر تو افسوس جتایا لیکن مسلمانوں پر ایک لفظ نہیں کہا. کیوں؟ مسلمان انسان نہیں؟ ارے ظالموں اب تو کتے بلی کی موت پر بھی لوگ افسوس بھرے الفاظ بول دیتے ہیں، در حقیقت ان کے نزدیک مسلمانوں کی حیثیت آوارہ جانوروں سے بھی کم ہے، در اصل خود ان کی انسانیت مر چکی ہے، تو ان نقاب پوش خواتین کو انسانیت دشمنوں سے کس بنیاد پر انصاف کی امید ہو گئی؟
حقیقت یہ ہے کہ سب کو سب معلوم تھا لیکن ان کے ضمیر کے اتنے دام لگے تھے کہ ان کی بصیرت کے ساتھ بصارت پر بھی پردے پڑ گئے تھے۔
اس کے علاوہ اب مسلمانوں کو بالخصوص مسلم تنظیموں کے ذمے داراوں کو کانگریس کے حوالے سے از سر نو غور کرنا چاہئے، اور اسے صاف لفظوں میں بتا دینا چاہئے کہ کانگریس جن سیکولر ووٹوں کی دعویدار ہے اس کا بڑا حصہ مسلم ووٹوں پر مشتمل ہے۔
اگر ایسا نہیں کرتے ہیں تو آپ کی اوقات بھانپ کر وہ ہندؤں کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کے ہر معاملے میں بی جے پی کے ساتھ کھڑی ہوگی اور آپ ہائے توبہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں